انسان کی ذات بہت گورکھ دھندہ ہے۔ زمان و مکان کی زنجیر سے وابستہ زندگی کے بحرِ بیکراں میں غوطے کھاتا سفر طے کرتا جاتا ہے۔ وقت کی رفتار کبھی دھیمی تو کبھی ایک دم تیز گام ریل جیسی دوڑنے لگتی ہے۔ میں نے اتنا ہی سفر کیا ہے جتنا پیروں کی زنجیر نے کرنے دیا۔ سفر سے لوٹ کر باقی کے دن سفری یادوں میں گزرتے ہیں۔ اپنے ماحول میں واپس آ کر نئے مزاج کے قرض چکاتے اور پرانی گرہیں کھولتے شب و روز ایک رفتار سے گزرتے چلے جاتے ہیں۔ ہر عہد کا فنکار وہی کچھ پیش کرتا ہے جسے وہ جھیل چکا ہوتا ہے یا جھیل رہا ہوتا ہے۔ یادوں سے جان چھڑوانا بس کی بات نہیں اور ناسٹیلجیا کے شکار لوگ آگے کے سفر میں بھی پیچھے کا دھیان رکھتے ہیں۔
دیوسائی کو پار کر کے ایک راستے میں پڑنے والی قبر سے رخصت ہوا تو رات پھیل رہی تھی (جس کا ذکر پچھلی تحریر میں ہو چکا ہے)۔ آگے استور تھا۔ چِلم سے استور روڈ پر سفر کریں تو راستے کے دونوں اطراف چیڑ کے سدا بہار درختوں کے جنگلات ہیں۔ سڑک ویسی ہی ہے جیسے عموماً پہاڑی علاقے کی ہوتی ہے: بل کھاتی، ناہموار اور چھوٹے چھوٹے قصبوں، بازاروں سے گزرتی، اور بائیں ہاتھ دیوسائی سے نکلتا نالہ ہمسفر بنا رہتا ہے۔
انسان نے بستیاں پانیوں کے کنارے آباد کیں۔ ذرائع آمد و رفت کے لیے راستے بھی دریا کے ساتھ ساتھ نکالے۔ ان ویرانوں میں کہیں کہیں کسی پہاڑی نالے کے اطراف ہریالی اور آبادی نظر آتی ہے، لیکن ذرا آگے چل کر پھر وہی ہو کا عالم۔ دیوار کی طرح سر اٹھائے سینہ تانے آسمان کو چھوتے بالکل ننگے پہاڑ اور انہیں میں کہیں نانگا پربت تھا۔ قاتل پہاڑ کے جنوبی رخ سفر کرتے سڑک خراب تھی، ہلکی پھلکی لینڈ سلائیڈ تھی۔ راستہ بدستور ویران تھا بس کبھی کبھار اکّا دکّا شخص نظر آتا جو سر پر کچھ اٹھائے ہوتا یا پھر بھیڑ بکریاں نظر آتی تھیں جن کا چرواہا کہیں دکھائی نہ دیتا تھا۔ میرا ڈرائیور کہتا تھا "صاحب یہاں پر بھیڑ بکری بہت سستی ہوتی ہے، چار پانچ ہزار کی ایک۔ وہ دیکھیں پچاس ہزار روپے چلے جا رہے ہیں۔"
اس سڑک سے ایک موڑ لے کر راستہ رٹو کی طرف نکل جاتا ہے، سیدھا چلتے جائیں تو استور آ جاتا ہے۔ یوں تو سارے علاقے کا نام ضلع استور ہے، مگر استور ایک شہر بھی ہے اور اس ضلع کا صدر مقام بھی۔ استور کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو غازی مخپون جو کوہ نورد تھا، فارس سے سفر کرتا اس خطے میں پہنچا۔ اس کی شادی اسکردو کے شاہی خاندان میں ہوئی۔ شہزادی سے چار بچے پیدا ہوئے جو اسکردو، استور، روندو، اور کھرمنگ کے حاکم بنے یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہا یہاں تک کہ استور مخپون خاندان سے نکل کر ڈوگروں کے زیرِ تسلط چلا گیا۔
استور شہر میں پہنچیں تو بازار میں خاصی چہل پہل نظر آتی ہے۔ اتنی گہما گہمی دیکھ کر اور شور سن کر لگنے لگتا ہے جیسے آپ پشاور کے کسی پر ہجوم بازار میں نکل آئے ہیں۔ جیپوں کا شور، حجاموں، مستریوں، کریانے والوں، سبزی والوں، ہوٹلوں، اور پھیری بازوں کے شور کے ساتھ مل کر استور کی فضا کو تار تار کر دیتا ہے مگر یہی بازار شام ڈھلنے کے بعد یوں چپ ہو جاتا ہے جیسے یہاں انسان کا وجود تھا ہی نہیں۔ بازار سے گزر کر ایک سڑک راما گاؤں کی طرف نکلتی ہے، گاؤں کے بعد راما کا حسین میدان ہے جسے راما میڈو پکارا جاتا ہے۔
اگر آپ کے سامنے ایک کھلا سرسبز میدان ہو، میدان میں نالیوں کی صورت میں بہتا ٹھنڈا برف دودھیا پانی ہو، پانی کے کناروں پر میدان میں جا بجا بھیڑیں، گائیں چر رہی ہوں، ارد گرد چیڑ کے لمبے لمبے سرسبز درخت ہوں، میدان کے عقب میں پہاڑی ڈھلوان پر ٹِکا چیڑ کا جنگل ہو اور اس کے اوپر چونگڑا کی برفپوش چوٹی، چوٹی کے ساتھ نانگا پربت کی جنوبی دیوار ہو، نیلے آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے پہاڑ کی چوٹیوں کو چھوتے گزر رہے ہوں، دھوپ ایسے کھِلتی ہو جیسے بڑا سا آئینہ منعکس ہو کر ہرجگہ اجال دے، تو یقینی طور پر آپ راما میڈو میں ہیں۔
میڈو کے راستے میں راما گاؤں پڑتا ہے۔ استور سے گیارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ گاؤں شمال کے خوبصورت دیہاتوں میں سے ایک ہے۔ استور سے جنگلوں میں گھری سڑک چڑھائی چڑھتے یہاں تک پہنچتی ہے۔ فاصلہ تو اتنا نہیں مگر چڑھائی اتنی ہے کہ جیپ کو یہ فاصلہ طے کرتے گھنٹے سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ راما گاؤں جہاں آلو کے کھیت لہلاتے ہیں، گھروں اور کھیتوں کے ساتھ ساتھ لکڑے کے چوپٹے لگے ہیں۔ کھیتوں میں کام کرتی محنت کش عورتیں، اور ان کے ہَوا میں لہراتے رنگین آنچل، مہکتی فضا، خوش باش چہرے، کھِلکھِلاتے بچے، جھومتے درخت، مڑتی راہیں، بہتے پانی، راما گاؤں کی پہچان ہیں۔
راما میڈو سے پی ٹی ڈی سی موٹل کے ساتھ ایک جیپ روڈ راما جھیل کی طرف جاتا ہے۔ یہ جھیل شاید پہلی بار دیکھ کر آپ ریجیکٹ کردیں مگر یہاں تک پہنچنے کا راستہ نانگا پربت کی چوٹی کو دیکھتے ہوئے بڑا پرلطف ہے۔ ساتھ ساتھ ایک طرف جنگل چلتے ہیں تو دوسرے ہاتھ گہری کھائیاں جن میں نیچے کہیں نالے کا پانی بہتا نظر آتا ہے۔
گرما کی ایک سہ پہر میں راما میڈو کے شروع میں بنے محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس کے لان میں درخت کے نیچے کرسی پر بیٹھا میدان، جنگل اور نانگاپربت دیکھ رہا تھا۔ گرمی میں بھی سردی محسوس ہو رہی تھی، سورج ڈھل رہا تھا، دیکھتے دیکھتے شام ہوئی تارے نکلے، اور کچھ دیر بعد چاند طلوع ہوا۔ میں نے جیکٹ پہنی، چوکیدار کی لالٹین تھامی، اور میدان میں اتر گیا۔
پی ٹی ڈی سی کی مدھم روشنیوں اور ایک دو لوگوں کے سوا راما میڈو میں کوئی نہیں تھا۔ پانی کی نالی کو چھلانگ لگ کر عبور کیا اور کچھ دیر فوٹوگرافی کر کے آدھی رات تک بے مقصد گھومتا رہا۔ تب کیا خبر تھی کہ یہ رات بڑی یاد آئے گی۔ میرے پاس یاد کرنے کو کافی راتیں ہیں۔ روز رات جب چھت پر پڑا شمالی تاره دیکھتا ہوں، تو کچھ نہ کچھ یاد آ جاتا ہے۔ لالٹین ہو، راما کا میدان ہو، اور نانگاپربت کے اوپر چاند ٹِکا ہو، ایسا سکون ہوتا ہے کہ انسان کا وہیں مر جانے کو دل کرتا ہے۔
سفر کا اصل مزہ تو خجل خرابی میں ہے لیکن کبھی کبھی مسافر شدید بیزار بھی ہونے لگتا ہے۔ راما میڈو میں دو ہی موٹل ہیں۔ ایک پی ٹی ڈی سی اور دوسرا محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاؤس۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک شب کو جب میں محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس میں بنے لان میں بیٹھا ڈھلتے سورج کو دیکھ رہا تھا، تو راما کے میدان میں پریوں کے قافلے اترتے دیکھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا میدان کیمپ سائیٹ میں بدل گیا۔ میڈیکل کالج پشاور کا ایک گروپ جو کم سے کم دو سو خواتین پر مشتمل تھا، سارے میدان میں پھیلنے لگا۔
رات ہوئی تو ایک مشکل آن کھڑی ہوئی۔ پل بھر میں کیمپ سائیٹ تو بنا دی، مگر واش روم کا مسئلہ حل کرنا بھول گئے۔ پی ٹی ڈی سی میں فوج کے کچھ افسران مقیم تھے تو اس کا داخلہ قطعی طور پر بند تھا۔ ریسٹ ہاؤس میں میرے کمرے سے ملحقہ اکلوتا واش روم تھا جس کا راستہ کمرے سے ہو کر ہی گزرتا تھا۔
گروپ کے مینیجر جو ایک ڈاکٹر صاحب تھے اور بہت نفیس انسان تھے، انہوں نے مجھ سے واش روم کے استعمال کی اجازت طلب کی، اور شومئی قسمت کہ میں نے اجازت دے دی۔ پھر کیا تھا، ٹولیوں کی ٹولیاں میرے کمرے کے باہر اترنے لگیں اور پھر آدھی رات تک ان ٹولیوں کا آنا جانا لگا رہا۔ میں باہر سردی میں بیٹھا خود کو کوستا رہا۔ وہ شب پشاور کی انسانی اور راما کی قدرتی خوبصورتی کے بیچ معلق ہو کر رہ گئی تھی۔
اگلی صبح جب میرے دروازے پر دستک ہوئی تو میں مقصد سمجھ گیا۔ سامان لپیٹا اور راما کو خدا حافظ کہہ کر نکلا پڑا۔ مجال ہے میری رخصت پر کسی آنکھ میں نمی جھلکی ہو، بلکہ الٹا چہروں پر بشاشت آ گئی تھی۔
میری اگلی منزل وادی نلتر تھی۔ استور سے قراقرم ہائی وے تک ایک پکی مگر تنگ سڑک دریا کے ساتھ چلتی ہے۔ دریا بھی ہیبت ناک ہے اور سڑک بھی۔ دریائے استور آگے چل کر دریائے سندھ میں مل جاتا ہے۔ گلگت سے ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پر واقع وادی نلتر اپنی رنگین جھیلوں کی وجہ سے مشہور ہے، یہاں دنیا کا بہترین آلو بھی کاشت ہوتا ہے۔ چیڑ کے جنگلات سے گھِری یہ وادی دنیا سے الگ تھلگ اور پرسکون جگہ معلوم ہوتی ہے۔ نلتر پہنچ کر وقت رکا ہوا سا لگتا ہے۔ آبادی گجروں پر مشتمل ہے۔ آبادی سے آگے نکلیں تو نلتر کی رنگین جھیلیں ہیں۔ ان کے پانی اتنے شفاف ہیں کہ پاتال کی سبزی صاف نظر آتی ہے۔
نلتر کی رنگ بدلتی جھیلیں ہمارا قومی اثاثہ ہیں۔ چھوٹی چھوٹی یہ جھیلیں کناروں سے سبز اور درمیان سے نیلے رنگ جھلکاتی ہیں۔ ایک آوارہ گرد کے لیے واحد اسٹاپ شاید کوئی جھیل ہی ہوتی ہے جہاں وہ پل بھر کے لیے سستاتا ہے اور پھر چل دیتا ہے، مگر یہ جھیلیں اپنے سحر میں ایسا جکڑتی ہیں کہ مسافر کو قدم اٹھانا بھاری لگتا ہے اور انہیں الوداع کہتے دل بھی بھاری ہو جاتا ہے۔
دور دراز کے ویرانوں میں کسی جھیل کنارے چپ بیٹھے رہنا بھی ایک مشغلہ ہے۔ ایک مکمل تنہائی کا احساس۔ نلتر کی جھیلوں کنارے جب بھی بیٹھا، ایسا لگا جیسے سامنے قدرت رنگین بلور میری آنکھوں کے سامنے گھمائی جاتی ہے جس کی چھَب سے آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں، اور میں وجدانی کیفیت میں چلا جاتا ہوں۔
ٹیلی پیتھی کرتی جھیلیں، ایک سحر کی داستان، ایک مصور کا شاہکار، جس کے زیرِ اثر کوئی بھی انسان خود سے بولنے لگے، سب کچھ اگلنے لگے۔ انسان لَو بلڈ پریشر کے مریض کی طرح ایک جگہ ساکت ٹکٹکی باندھے بیٹھا رہ جاتا ہے اور سننے والا بھی دل پر یوں دستِ تسلی رکھتا ہے کہ روح تک مسیحائی کی تاثیر اترتی محسوس ہوتی ہے۔
اپریل کے وہ دن مجھے یاد آنے لگے ہیں جب برفوں سے نبرد آزمائی کرتے تھکا ہارا سارے دن کے بعد پہلی جھیل پر پہنچا تھا۔ ابھی نلتر کی برفیں نہیں پگھلی تھیں۔ سورج کی تپش کچھ بڑھنے لگی تو برف نرم ہوتی گئی جس میں جگہ جگہ پاؤں دھنستے تھے۔ کبھی کبھی پوری ٹانگ دھنس جاتی تو مشقت کر کے خود ہی برفانی شکنجے سے آزاد ہونا پڑتا۔ سخت قسم کی چڑھائی، سرد خنک ہوا، خشک پڑتے ہونٹ، سوکھتا گلا، صرف ایک جھیل کی چاہ میں جہاں بیٹھ کر قدرت کے ساتھ ٹیلی پیتھی کا سلسلہ چلنے لگے۔
پھر موسم نے انگڑائی لی۔ بادلوں سے پہلے چوٹیوں کو گھیرا ڈالنا شروع کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آسمان ابر آلود ہو گیا۔ چھوٹی گھاٹیوں کو ٹاپتے، اوپر نیچے چلتے، برف میں دھنستے جب ایک نشیب سے ابھر کر اوپر آیا تو سامنے منظر کھلا۔ برفپوش پہاڑ تھے اور بادل تھے۔ نیلے سبز پانی تھے، اور خزاں رسیدہ درخت تھے۔ پانیوں میں چھوٹے چھوٹے پتھریلے جزیرے تھے اور ان جزیروں پر عجیب رنگوں کے چھوٹے چھوٹے پتھر چمک رہے تھے۔
نشیب سے فراز پر آ کر منظر کھلا تو فراز سے پھر پانیوں کے کناروں تک اتر کر مچھلیوں کے سنہری بچوں نے استقبال کیا۔ ٹراؤٹ کے بچے تھے یا کسی اور کے معلوم نہیں۔ پہاڑوں کی مسافت میں چلتے چلتے پتھروں کے علاوہ کسی بھی جاندار کا ملنا خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ پہاڑوں میں سب سے پہلے انسان کی انا ختم ہوتی ہے اور دستِ قدرت انسان کو جکڑ لیتا ہے۔
دو سال پہلے اسی جگہ میرے گائیڈ کریم نے بارہ بور رائفل سے ٹراؤٹ کا شکار کیا تھا۔ مچھلی کے بچے نے کنارے پر بلبلہ نکالا اور گہرے پانی میں غائب ہو گیا۔ مجھے لگا جیسے اپنا غصہ نکال کر گیا ہے۔ نلتر جادوئی جگہ ہے، یہ وادی انسان کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ہے۔ بادلوں نے چوٹیوں کو گھیرا ڈالا ہوا تھا۔ پانی کے کنارے چلتے چلتے آسمان سے بارش کی پہلی بوند پڑی۔ دعاؤں کی قبولیت کی یہی تو گھڑیاں ہوتی ہیں جب آپ کو ریشہ ریشہ محسوس کر رہا ہوتا ہے کہ قدرت آپ کے ساتھ ہے۔ دور دراز کی وادیاں اسی لیے پسند ہیں، اسی لیے وہاں جاتا ہوں کہ یزداں کے حریمِ بے نشاں سے انسان کو پکارتا ہے کوئی۔۔!
اس دن دریائے نلتر کے ساتھ ساتھ چلتے اس کے پانیوں سے چند چھوٹے گول پتھر اٹھائے۔ میرے کمرے کے کارنس پر سفید پتھر اب بھی پڑے ہیں۔ دودھیا سفید اور عجب تراش والے۔ پہلی بار چھونے پر یہ پتھر ملائم تھے۔ پھر گھر تک آتے آتے خشک ہو کر کھردرے ہو گئے۔ ان پتھروں کو دیکھ کر نلتر کی یاد آتی ہے، میں نے اس لیے ان کو نظروں کے سامنے ہی رکھ چھوڑا ہے۔ نلتر کے پانیوں سے نکلے یہ پتھر اپنی قدرتی تراش خراش میں کمال ہیں۔ یوں تو دریائے نلتر میں کئی شوخ رنگوں کے پتھر تھے، لیکن ایسا سفید رنگ میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا، اس لیے چن کر یخ ٹھنڈے پانیوں سے اکٹھے کر لیے۔
تاریخِ بنی آدم میں محبت کی نشانی پتھر تو کبھی نہیں رہے، لیکن دیوانوں کے مقدر میں پتھر ہی لکھے ہوتے ہیں، تو ان کو نشانی سمجھ کر رکھ لیا۔ شمال میں اگر آپ خالص پہاڑی زندگی اور موت جیسے سکون والی کوئی وادی دیکھنا چاہتے ہیں، تو نلتر ضرور جائیں۔ گجروں کی اس وادی میں عجیب کشش اور الگ سا سکون ہے۔
یادوں کی کوئی خاص ترتیب تو نہیں ہوتی۔ یہ وہ بچے ہیں کہ جو بھی پہلے بلک پڑے، اسے تھپکی دینی پڑ جاتی ہے۔ راما سے نلتر تک کی بکھری یادوں کو چننے لگا تو کئی واقعات ذہن میں آتے چلے گئے، مگر طوالت کے پیشِ نظر سب رقم نہیں کر سکا۔ ویسے بھی مسافر کو قیام سے کیا غرض۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ انسانی شعور کا نقطہ آغاز بھی حیرت ہے اور انجام بھی حیرت۔ اس ابتدا اور انتہا کے درمیان محبت و یقین کی پناہیں تلاشتے عمر بیت جاتی ہے۔
اب جب سفید پتھر پھر سے نم زدہ اور ملائم ہو رہے ہیں تو میں سوچتا ہوں کہ شاید نئے سفر کی نوید ہے اور اب کی بار جاؤں تو انہیں اسی جگہ پھینک آؤں۔ واپس آتے اب کے کسی اور وادی کی کوئی اور نشانی اٹھا لاؤں گا۔ ویسے تو تصویریں انسانی یادداشت کا اصل مظہر ہوتی ہیں، پر ایسے پتھروں، جنگلی پھولوں، اور پتوں کو پاس رکھنے میں بھی کیا حرج ہے، ذرا دل بہلا رہتا ہے بقول افتخار عارف صاحب
مٹّی ہیں سو مٹّی ہی سے رکھتے ہیں سروکار
آتے نہیں خورشید مزاجوں کے اثر میں
یہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے سفرنامے کی سیریز میں پانچواں مضمون ہے۔ گذشتہ حصے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
لکھاری پیشے کے اعتبار سے نیٹ ورک انجینیئر ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کا فیس بک پیج
یہاں وزٹ کریں۔
تبصرے (81) بند ہیں