ولیم ورڈزورتھ کی ایک نظم 'دی ڈیفوڈلز' کا آغاز یوں ہوتا ہے: "میں وادیوں اور کہساروں کی فضاؤں میں تیرتے بادل کی طرح آوارہ گردی کر رہا تھا۔ یکایک میں نے ایک جھیل کے کنارے درختوں کے نیچے سنہرے ڈیفوڈل پھول دیکھے، جو مخمور ہواؤں میں رقص کر رہے تھے۔"
یونہی بادل کی طرح برف زاروں، پہاڑوں، اور بستیوں میں آوارہ گردی کرتے دیوسائی کو جب پہلی بار دیکھا تو مجھے لگا جیسے ورڈزورتھ نے دیوسائی میں بیٹھ کر لکھا ہو۔ یقین نہیں تو جا کر دیکھ لیں۔ دیوسائی نیشنل پارک اور اس میں واقع شیوسر جھیل ورڈزورتھ کی نظم کا مجسم روپ ہیں۔
محض ایک صدی پہلے تک انسان ویرانوں کو خوف و دہشت کی علامت سمجھتا تھا۔ شیطان کا مسکن، ہولناک تنہائی، زمین کا ناسور، وحشت ناک مقام، جیسے ناموں سے پکارتا تھا۔ آبادی کی حد سلامتی کی سرحد سمجھی جاتی تھی۔ آج کا انسان آبادی سے رخ موڑ کر ویرانوں کی سمت جاتا ہے تاکہ قدرت کو قریب سے محسوس کر سکے، یا اپنی ذات کا عرفان حاصل کر سکے۔ انسان جوں جوں عقلی ارتقاء میں آگے بڑھتا گیا، اس کی روح توں توں بیقرار ہوتی گئی۔ علم و شعور کی دہلیز پر کھڑا آج کا انسان بھیڑ میں موجود زندگی کی ساری رعنائیوں اور سہولتوں کے ساتھ تنہا ہے۔ اگر ویرانے سکون بخشنے لگیں، اور وہاں جانا ہی ہو، تو دیوسائی سے بہتر ایسی کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟
دیوسائی دو الفاظ کا مجموعہ ہے 'دیو' اور 'سائی' یعنی 'دیو کا سایہ۔' ایک ایسی جگہ، جس کے بارے میں صدیوں یہ یقین کیا جاتا رہا کہ یہاں دیو بستے ہیں۔ آج بھی مقامی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ حسین میدان مافوق الفطرت مخلوق کا مسکن ہے۔ یہاں دیکھتے دیکھتے ہی موسم خراب ہونے لگتا ہے، کبھی گرمیوں میں اچانک شدید ژالہ باری ہونے لگتی ہے۔ ہر لمحہ بدلتے موسم کی وجہ سے دیوسائی میں دھوپ چھاؤں کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔ یہ علاقہ جنگلی حیات سے معمور ہونے کی وجہ سے انسان کے لیے ناقابل عبور رہا۔ برفانی اور یخ بستہ ہواﺅں، طوفانوں، اور خوفناک جنگلی جانوروں کی موجودگی میں یہاں زندگی گزارنے کا تصور تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ممکن نہیں۔ اسی لیے آج تک اس خطے میں کوئی بھی انسان آباد نہیں۔
کشمیر سے ہجرت کر کے دیوسائی آنے والے خانہ بدوشوں کی قدیم گزرگاہ یہی میدان ہے جو اپنے ساتھ بھیڑ بکریاں لے کر دیوسائی کی ہیبت میں چلتے جاتے ہیں۔ دیوسائی میں عمیق خاموشی اور صدیوں کی تنہائی خیمہ زن ہے۔ خاموشی ایسی کہ دل کانوں میں دھڑکتا محسوس ہوتا ہے تاوقتیکہ کہ کسی مارموٹ کی سیٹی فضا میں گونجنے لگے، اور تنہائی ایسی کہ کبھی کبھی اپنے وجود سے خوف آنے لگے۔
موسمِ گرما کی ایک دوپہر میں دیوسائی کی گھنی خاموشی میں کیمرے کا شٹر گرا تو دھماکا سا سنائی دیا۔ شور صدیوں سے ٹھہری ہوئی چپ فضا میں دور تک سرایت کرتا گیا۔ مارموٹوں کے کان کھڑے ہو گئے، لہلہاتی گھاس اور جنگلی پھول سہم کے اپنی جگہ رک گئے اور چشمِ تخّیل نے دیکھا کہ دور کہیں ماده ریچھ نے اپنے بچے کو آغوش میں بھر لیا۔ سورج بھی بدلی کی اوٹ میں جا چھپا تو میں شرمنده ہو کر گھاس پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد سورج بدلی کی اوٹ سے یوں جھانکا جیسے دخل اندازی کرنے والے کا سراغ لگا رہا ہو۔ پھول پھر سے لہلہانے لگے، مارموٹ اپنے بِل چھوڑ کر گھاس میں کودنے لگے، ریچھ نے شتوں نالے میں قدم رکھا اور مچھلی کی بو لینے لگا۔ دیوسائی میں معمولات بحال ہونے لگے تو میں کیمرا سمیٹ کر چل دیا۔
ہمالیہ کے دامن میں واقع دیوسائی دنیا کا سب سے بلند اور اپنی نوعیت کا واحد پہاڑی میدان ہے جو اپنے کسی بھی مقام پر 4000 میٹر سے کم بلند نہیں۔ سال کے 8 ماہ یہ مقام برف سے ڈھکا رہتا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ گرمیوں کے 4 مہینوں میں پہاڑی ڈھلوانوں اور گھاٹیوں پر مشتمل 3000 مربع کلومیٹر کے اس قدرے ہموار میدانوں کی زمین پر ہزار ہا رنگ کے شوخ جنگلی پھول تو جابجا کھلتے ہیں، مگر کہیں ایک بھی درخت نہیں ملتا۔
اس میدان میں جگہ جگہ بہتے نالے اور ان میں موجود سنہری ٹراؤٹ مچھلیاں، بیک ڈراپ میں 5000 میٹر بلند برف پوش پہاڑ، انہیں پہاڑوں میں مقیم جنگلی حیات، آسمان سے گزرتے بادلوں کے بڑے بڑے ٹکرے جو اتنی کم بلندی سے گزرتے معلوم ہوتے ہیں کہ لگنے لگتا ہے جیسے آپ پر سایہ کرنے کو قدرت نے چھتری بنا رکھی ہے، اور ان ٹکڑوں کے بیچ محوِ پرواز ہمالیائی گولڈن ایگلز، فضا میں پھیلی ایک انجان مہک جو شاید بھورے ریچھوں، سرخ لومڑیوں، سفید چیتوں اور شرارتی مارموٹوں کے جسموں سے نکل کر دیوسائی کی نم زدہ گھاس اور تازہ جنگلی پھولوں سے مل کر ساری فضا کو معطر کیے رکھتی ہے، ہی دیوسائی کا حسن ہے۔ اس خطہ زمین پر جنابِ میر تقی میر کا یہ شعر بالکل صادق آتا ہے:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
اسکردو کے بازار سے گزر کر ایک سڑک سدپارہ گاؤں کی طرف مڑ جاتی ہے۔ اس بل کھاتی سڑک پر سدپارہ کی نیلگوں جھیل یوں نظر آتی ہے کہ مسافر پلک جھپکنا بھول جاتے ہیں۔ جھیل کو دیکھتے دیکھتے آگے سدپارہ کا گاؤں آ جاتا ہے جہاں بچوں نے قدرت سے سازباز کر کے سڑک کو بند کرنے کا کھیل رچا رکھا ہے۔ گرمیوں میں جائیں تو گاؤں سے پہلے سڑک کے اوپر سے بہتے چشمے نے ایک طرف سے سڑک کو توڑ پھوڑ دیا ہے تو وہیں دوسری طرف مقامی بچے گاڑیاں روک کر مسافروں کو چیری بیچتے ملتے ہیں۔ ایک ننھی بچی سے خوش ہو کر چیری خریدی تو مسکراہٹ سے اس کے چہرے پر چیری کا رنگ جھلکنے لگا۔
گاؤں سے گزر کر سڑک غیر ہموار ہونے لگتی ہے۔ مسلسل چڑھائی کانوں پر دباؤ ڈالنے لگتی ہے۔ ایک طرف نہایت اونچے پہاڑ، اور دوسری طرف گہری کھائیوں کی موجودگی دل کی دھڑکن کو بے ترتیب کرنے کے لیے کافی ہے۔ نہ دل سنبھلتا ہے، نہ ہی سڑک۔ بل کھاتے، چکراتے، چڑھائی چڑھتے بالآخر آنکھوں کے سامنے ایسا منظر کھلتا ہے جس کی وسعت دو آنکھوں کے پردے پر سمونا ممکن نہیں۔
تنگ درے کے سفر کے بعد بلندی پر دیوسائی ہتھیلی کی طرح پھیلا ہوا ملتا ہے۔ بڑے پانی کے پل کو عبور کریں، تو شیوسر جھیل تک ایک پتھریلی سڑک کھلے میدان کی وسعت میں چلتی جاتی ہے۔ شیوسر جھیل کا مقامی زبان میں مطلب 'اندھی جھیل' ہے۔ یہ جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ہے۔ اس کے گہرے نیلے پانی اپنے پس منظر میں برف پوش پہاڑیوں اور پیش منظر میں سرسبز گھاس اور رنگ برنگے جنگلی پھولوں کے ساتھ موسمِ گرما میں ایسا نظارہ پیش کرتے ہیں کہ آنکھ حیرت زدہ پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہے۔
موسم صاف ہو تو جھیل کے عقب میں قاتل پہاڑ نانگاپربت کی برف پوش چوٹی نظر آتی ہے اور جھیل اگر پرسکون ہو تو نانگاپربت کا عکس پانیوں میں یوں گھلتا دِکھتا ہے جیسے کسی نے نِیل میں سفیدی گھول دی ہو۔ گرد و نواح کی کسی پہاڑی پر چڑھ کر دیکھیں تو شیوسر جھیل کے نیلاہٹ پوری آب و تاب کے ساتھ انسانی دل نما شکل میں نظر آتی ہے۔ یہ جھیل دیوسائی کا دل ہے۔
یوں تو دیوسائی سے عشق ہونے کے سبب اپنی سفری زندگی میں کئی بار محبوب کے وصال کو گیا۔ کبھی تو محبوب نے بانہیں کھول کر میرا استقبال کیا اور کبھی دیوسائی برف کی سفید چادر اوڑھ کے الگ تھلگ بیٹھا رہا اور اذنِ دیدار نہیں ملا۔ بہت کم لوگوں نے شاید سردیوں میں اس میدان کو پار کرنے کا جوکھم اٹھایا ہو۔ میں دیوسائی کو نومبر میں دیکھنا چاہتا تھا جب سیاحوں سے پاک یہ میدان بالکل قدرتی حالت میں تنہا ہو۔
مجھے اس دن سدپاره کی چوکی سے ہی موسم دیکھ کر واپس اسکردو پلٹ جانا چاہیے تھا۔ فوجی گاڑیاں آدھے راستے سے واپس پلٹ رہی تھیں اور گزرتے ہوئے انہوں نے اشارہ کیا کہ آگے برف باری اور خراب موسم ہے واپس ہو جاؤ، مگر میرے اندر دیوسائی جانے کی خواہش شدید تھی۔ میری چھٹی حِس کہہ رہی تھی کہ دیوسائی جاؤ۔ اس غلطی کی سزا یہ تھی کہ دیوسائی میں مسلسل گرتی برف سے ایک تو جیپ ٹریک چھپ گیا تھا اور راستہ نظر نہیں آتا تھا، دوسرا سارا دن جیپ کے پہیوں کو چَین لگا کر ساتھ دھکا بھی لگانا پڑتا۔ جیپ برف میں دھنستی تھی اور برف کئی جگہوں سے آئینے جیسی بن چکی تھی جس پر پاؤں پھسلتا تھا۔
وہ سارا دن برفباری میں دھکا لگاتے، برف کھودتے، منظر و موسم کو دیکھتے، اور خدا کو یاد کرتے گزرا۔ تھکاوٹ تو جو ہوئی سو ہوئی، پر قدرت نے ہماری محنت کا جو انعام دیا وه لاجواب تھا۔ قدرت آپ کی محنت کا انعام آپ کے حوالے کرنے سے پہلے اپنی پوری قیمت وصول کرتی ہے۔ تنہائی کے عالم میں کئی منظر ایسے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے خدا ہمیں ہی دکھا رہا ہے۔ بس یہی سوچ کر اسی لمحے ایک سجدہ بے اختیار کرنے کو جی کر اٹھتا ہے۔ دیوسائی کی ہیبت ناک تنہائی اور خراب موسم میں جب بادلوں میں بالکل قطبِ شمالی کی آسمانی روشنیوں کی طرح رنگ چمکنے لگیں تو آپ سجدہ نہیں کریں گے کیا؟
شیوسر جھیل سے ذرا پہلے براؤن ماده ریچھ اور اس کا چھوٹا بچہ ہمیں نظر آئے۔ برفباری میں حدِ نظر اچھی نہیں تھی، پر میرے لیے یہ میرے سفری لمحوں میں سب سے خوشگوار لمحہ تھا۔ ویسے بھی میرے پاس دو سو ملی میٹر سے زیادہ فوکل لینتھ کا لینس نہیں تھا۔ دوربین لگائے میں ریچھ ماں اور بچے کی حرکتیں دیکھتا رہا۔ تین ہمالیائی سرخ لومڑیاں بھی نظر آئیں جو سکون سے میری جیپ کے آگے سے گزر گئیں۔
شیوسر جھیل پر جانے تک برفباری انتہائی شدید ہو چکی تھی۔ جھیل پر برف گرتی تھی اور اس سفیدی میں حدِ نظر 20 میٹر سے زیاده نہیں تھی۔ میں جیپ میں بیٹھا قدرت کو اصل حالت میں محسوس کر سکتا تھا اور کہیں آس پاس ریچھوں کی بو پھیلی تھی، لومڑیوں کا خاندان تھا، اور مارموٹ بلوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ دیوسائی نے سفید چادر اوڑھنا شروع کر دی تھی۔ وہاں میرے، ڈرائیور، اور قدرت کے سوا کوئی نہ تھا۔
نیلی جھیل پر سفید روئی جیسے گولے برس رہے تھے۔ شدید سردی میں مشقت بھرا دن گزارنے کے بعد دیوسائی کو پار کر کے چِلم چوکی تک پہنچتے پہنچتے شام پھیل رہی تھی۔ چِلم کی فوجی چوکی میں اندراج کروا کے استور روڈ پر نکلا تو کچھ فاصلے پر ایک چھوٹی سی لڑکی اپنی دو بھیڑوں کے ساتھ اچھلتی کودتی چلی جا رہی تھی۔ جیپ کی آواز سن کر بھیڑوں نے سڑک کنارے پناہ لی۔ بچی نے پیچھے مڑ کر مسکرا کے دیکھا تو دل پر جمی ساری برف پگھل گئی، ساری تھکاوٹ اتر گئی۔ گاڑی میں بیٹھے ڈرائیور اور میں بھی مسکرا دیے تھے۔
کبھی کبھی سفر کی دشواریاں اور تکلیفیں اتنی زیادہ ہوجاتی ہیں، کہ مسافر کو خود پر ملامت ہونے لگتی ہے۔ لیکن یہی سفر ایسے ایسے رنگ ذہن کے پردے پر منقش کرتا ہے جن کا عکس تا حیات جھلکتا رہتا ہے، اور گوشہ تنہائی میں کبھی کبھی آسیب کی صورت اردگرد منڈلانے لگتا ہے۔
دیوسائی میں مشقت بھرا دن گزارنے کے بعد چلم سے استور کے راستے میں تھکی ہاری شام پہاڑوں پر اتر رہی تھی۔ سڑک سے کچھ فاصلے پر ایک شخص دِکھا جو ایک قبر پر جس کے اطراف لکڑی کے تختوں سے حد بندی کی گئی تھی، اس لکڑی کے چوپٹے کے اندر بیٹھا تھا اور کچھ دیر پہلے ہی اس نے آنسو پونچھے تھے۔ قبر پر پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔
چلتے چلتے اس کے پاس پہنچ کر سلام کیا تو بولا "نیچے سے آئے ہو؟" (شمالی علاقہ جات کے لوگ میدانی علاقوں سے آنے والوں کو ایسا ہی کہتے ہیں)۔ میں نے ہاں میں جواب دیا، اور حال احوال پوچھ کر اور اِدھر ادھر کی ایک دو باتیں کر کے جب میں نے پوچھا کہ کس کی قبر ہے تو بولا "یہ میرے بیٹے کی قبر ہے۔ فوج سے ریٹائر ہو کر مزدوری کرتا ہوں، پنشن کے تھوڑے پیسوں سے اور مزدوری کر کے جو کچھ بھی کماتا تھا اس پر لگا دیتا تھا۔ یہ اکلوتا بیٹا تھا صاحب، پنڈی میں کالج میں پڑھتا تھا۔ پنڈی سے استور آتے ہوئے راستے میں ظالموں نے بس سے اتار کے باقی مسافروں سمیت مار دیا۔ اس کا قصور باقی مرنے والوں کی طرح اس کا مسلک ہی تھا۔"
بات ختم کرنے سے پہلے اس کی آواز اس کا ساتھ چھوڑ گئی تھی، اور آنکھیں بھر آئیں تھیں۔ مجھے بھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ جواب میں کیا کہوں ماحول میں خاموشی طاری ہو گئی تھی۔
کچھ وقفے کے بعد بولا کہ کام پر جاتے اور آتے ہوئے یہ گھر کے راستے میں آتی ہے، اس لیے کچھ دیر دعا پڑھنے کے لیے بیٹھ جاتا ہوں۔ رخصت ہوتے میری نظر پاکستان کے جھنڈے پر پڑی تو مجھے لگا جیسے چاند تارے میں خون اتر آیا ہو، یا شاید ڈھلتی شام میں آسمان پر سرخ پڑتے بادلوں کا عکس اس میں جھلک رہا تھا۔
پاکستان کے شمال کو دیکھ کر دل اگر شاد ہوتا ہے تو وہیں مقامی لوگوں کے دکھ درد پر ملول بھی ہونا چاہیے۔ روڈ پر اپنی جیپ تک پہنچتے پہنچتے آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔ منظر دھندلے ہو گئے تھے، سورج پہاڑوں کی اوٹ میں جا چھپا تھا، اور رومال بھی کہیں گم ہو گیا تھا۔
جیپ چلی تو آنکھوں کی نمی خنک ہوا نے جذب کر لی، اور دل سردی کی لہر سے سرد پڑنے لگا۔ میرے ڈرائیور نے ٹیپ ریکارڈر آن کر دیا۔ غزل کی آواز شام کے دھندلکے میں وادی کی خاموشی کو چیرنے لگی۔ آنکھوں کی نمی جو کچھ دیر پہلے خنک ہوا نے جذب کر لی تھی، پھر آنکھوں میں بھر گئی۔ سڑک کے دونوں جانب کھڑے چیڑ کے درخت دھندلے پڑنے لگے۔ ان کے پتوں سے قطرے ٹپک رہے تھے۔ باہر شدید سردی تھی اور گاڑی کے اندر سانسیں تپ دق کے مریض جیسی تیز اور گرم تھیں۔ ٹیپ ریکارڈر پر غزل گونج رہی تھی
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اِس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دِل ہے تو دھَڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حِس و بے جان سا کیوں ہے
یہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے سفرنامے کی سیریز میں چوتھا مضمون ہے۔ گذشتہ حصے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
لکھاری پیشے کے اعتبار سے نیٹ ورک انجینیئر ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں۔
تبصرے (90) بند ہیں