کچھ نام اپنے اندر میں بڑی سحرانگیزی سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ ماضی کے حوالے سے اگر تاریخ سے ان کے متعلق رجوع کیا جائے، تو اس سحر انگیزی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
تھوڑا تصور کیجیے آج سے ڈیڑھ سو برس قبل ایک ایسی بندرگاہ، جہاں ایک ہی وقت میں سینکڑوں کشتیاں کھڑی ہوں، جہاں بینک ہو، کسٹم آفس ہو اور میونسپلٹی انتہائی مستحکم حالت میں ہو، جہاں سے ہزاروں ٹن چاول، سوکھی مچھلی اور دیسی گھی دوسرے شہروں کو بھیجا جاتا ہو۔ ڈیڑھ سو سال قبل جس چھوٹے سے شہر کی گلیاں اینٹوں سے پکی ہوں، اور سرِ شام ان گلیوں کو روشن کرنے کے لیے شمعدان روشن کیے جاتے ہوں، تو ایسے مقام کو دیکھنے کی تشنگی اور بڑھ جاتی ہے۔
کیٹی بندر گھارو سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ آپ جب گھارو کے چھوٹے سے شہر سے نکل کر کیٹی بندر کی طرف روانہ ہوتے ہیں، تو سارا لینڈاسکیپ فوری طور پر تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہریالی نہ جانے کہاں کھوجاتی ہے۔ سوکھے درخت، فصلوں کا نام و نشان تک نہیں، کہیں کہیں 'پان' کے پتوں کے فارم تھے اور نازک تھے اس لیے ان کو دھوپ سے بچانے کے لیے ڈھانپ دیا گیا تھا۔
کسی کسی جگہ پر فارمی مرغیوں کے فارم تھے۔ کیونکہ فارمی مرغیاں بھی نازک تھیں اس لیے ان کو بھی ڈھانپ دیا گیا تھا کہ دھوپ کی وجہ سے بیمار نہ پڑ جائیں۔ راستے میں چھوٹے چھوٹے سے گاؤں تھے، جن میں سے کچھ ویران ہو چکے تھے اور کچھ ویران ہونے کی دہلیز پر تھے۔
تاریخ کے صفحات جس علاقے کی زرخیز زمین اور فصلوں کے ذکر سے بھرے پڑے ہیں، موجودہ دنوں میں اس علاقے کے حالات بدقسمتی سے ان حوالوں سے بالکل برعکس ہیں۔ کیٹی بندر سے پہلے وہ قدیم قبرستان بھی آئے، جن پر اب سمندر کے شوریدہ پانی کا قبضہ ہے۔ کچھ پیلے پتھر اور سرخ اینٹوں کے نشانات بتاتے ہیں کہ یہاں ایک زمانے میں قبرستان تھے۔
نشانات یہ بھی بتاتے تھے کہ مقامی درختوں کے جنگل مسلسل کٹ رہے ہیں۔ لوگ درخت کاٹ کر بھٹیوں میں کوئلہ بنا رہے تھے اور دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتے نظر آتے تھے۔ بھٹیوں سے گاڑھا دھواں اٹھتا جو دیر تک فضا میں رہتا۔ میٹھے پانی کی شدید کمی اور سمندر کے آگے بڑھنے سے مقامی جنگلی حیات کو ایسا شدید نقصان ہو رہا ہے جس کا ازالہ شاید ایک لمبے عرصہ تک نہ کیا جا سکے۔ مقامی جانور اور ان پرندوں کی نسلیں جو ہزاروں برسوں سے ان جنگلوں اور آب گاہوں میں جیتی تھیں، وہ یا تو ختم ہوچکی ہیں یا اپنے آخری شب و روز بڑی ہی بے بسی میں یہاں گذار رہی ہیں۔
پڑھیے: انڈس ڈیلٹا ماحولیاتی تباہی کی زد میں
کیٹی بندر سے پہلے راستے میں عورتیں اور بچیاں ملیں، جن کے ہاتھوں میں پانی کے خالی برتن تھے وہ راستے پر کھڑی پانی کے اس ٹینکر کا انتظار کر رہی تھیں، جو شہر سے آنے والا تھا اور گیلن کے حساب سے ان کو پانی بیچتا۔ شہروں میں پیٹرول پیسوں سے ملتا ہے اور یہاں پانی۔
کیٹی بندر پہنچے اور دیکھا تو، ماضی کا وہ شہر اور بندرگاہ جس کی آبادی ہزاروں میں تھی وہ اب سمٹ کر ایک چھوٹا سا گاؤں بن گیا ہے۔ میں نے ویران سا بازار دیکھا، جہاں لوگ کم اور خاموشی زیادہ تھی تو مجھے ایسا لگا جیسے، وقت کے بے رحم ہاتھوں نے، ایک شہر کا اعزاز بھی کیٹی بندر کے تاج سے کسی ہیرے کی مانند نوچ لیا ہے۔
پڑھیے: ماحولیاتی نظام کی تباہی
ماضی کی عظمتوں اور خوبصورت دنوں کی اب یہاں کوئی نشانی نہیں رہ گئی ہے۔ اگر رہ گئی ہیں تو ان دنوں کی باتیں جو نسل در نسل چلتی ہوئی پہنچی ہیں۔ لوگ جب کیٹی بندر کے ماضی کی باتیں کرتے ہیں، تو ان کے الفاظ اور آنکھوں میں ماضی کے دنوں کی خوبصورتی، کسی کنول کے پھول کی طرح تیر سی جاتی ہے اور لفظوں سے دھان کی فصلوں کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ کیٹی بندر کی گلیوں میں پراسرار خاموشی کے کانٹے اگتے ہیں، پر اگر دل کی آنکھوں سے دیکھا جائے تو ماضی کی پگڈنڈی پر خوبصورت لمحوں کے گلاب اگتے ہیں۔ ماضی کسے اچھا نہیں لگتا؟
جس طرح ہر بندرگاہ کو کچھ سال بعد ڈریجنگ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کی گہرائی برقرار رکھی جا سکے، اس طرح کیٹی بندر کو بھی تھی، لیکن ٹیکنالوجی کی کمی کی وجہ سے مٹی (siltation) کو نکالا نہیں جا سکا، جس کی وجہ سے پہلا کیٹی بندر ناقابلِ استعمال بنا۔ اسی طرح سے پھر دوسرا کیٹی بندر بھی استعمال کے قابل نہ رہا، تو تیسرا کیٹی بندر بنایا گیا۔
موجودہ کیٹی بندر جو اب تک سانسیں لے رہا ہے وہ اس پشتے کی وجہ سے، جو بینظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں بنوایا گیا تھا، اور کچھ برسوں کے بعد جب یہ پشتہ سمندر کی طاقتور لہروں کا مقابلہ نہیں کرسکے گا تو تیسرا اور شاید آخری کیٹی بندر بھی اپنے وجود مشکل سے ہی بچا سکے گا۔
پڑھیے: سندھو کا ڈیلٹا
میں نے کیٹی بندر کا مختصر سا بازار دیکھا، میں اس کچی سی بستی کی کچی گلیوں سے گذرا، جہاں تیز ہوا کے جھونکے مٹی اڑاتے۔ میں پشتے پر گیا تو Low Tide کا وقت تھا، اس لیے کنارے بغیر پانی کے تھے۔ کشتیاں جو High Tide کے وقت پانی پر کھڑی تھیں، اب پانی کے نہ ہونے کی وجہ سے جیسے گیلی زمین پر لیٹی ہوئی تھیں۔ میں نے کسٹم ہاؤس کے آثاروں کی تلاش کی، جہاں سینکڑوں کشتیوں اور آنے جانے والے سامان کا اندراج ہوتا تھا، میں نے اس بینک کی بھی نشانیاں ڈھونڈنے کی کوشش کی، جس میں ہزاروں اور لاکھوں کی لین دین ہوتی تھی، میں نے سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی ان گلیوں کو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی جہاں شام ہوتے ہی شمعدان روشن کردیے جاتے تھے۔ لیکن مجھے گہری خاموشی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔
کیٹی بندر کے ایک چائے کے ہوٹل پر مجھے نور محمد تھہیمور ملا۔ میں نے جب اس سے کیٹی بندر کے گذرے ہوئے دنوں کے متعلق پوچھا تو اسے کچھ زیادہ معلوم نہ تھا، البتہ موجودہ دنوں کے متعلق وہ خوب بولا، "پہلے کا تو پتہ نہیں پر اس وقت بھی یہاں چار سو سے زائد چھوٹی بڑی کشتیاں ہیں جن سے ہماری روزی روٹی چلتی ہے، ہمارے یہاں خشکی پر بھی گاؤں ہیں اور اندر سمندر میں جزیروں پر بھی۔ کماتے ہیں اور کھاتے ہیں بس وقت کٹ رہا ہے۔"
پھر میں نے نور محمد سے پینے کے پانی کے متعلق پوچھا، تو اس نے دو تین بار پلکیں جھپکیں، کچھہ لمحے خاموش رہا، پھر بولا "بس خریدنا پڑتا ہے پینے کا پانی، یہاں جو نہریں ہیں ان میں اوپر سے میٹھا پانی آتا نہیں ہے، تب ہی تو زمینیں بھی برباد ہوگئی ہیں۔ کوئی فصل نہیں ہوتی اب۔ روز یہاں پانی کے دس پندرہ ٹینکر آتے ہیں، جس کی جتنی سکت ہو، اتنا خرید لیتا ہے۔"
نور محمد کے سادگی سے بھرے اس جواب کے بعد میں نے سوچا کہ کیا یہ وہ ہی جگہ ہے جس کے متعلق 'مسٹر ہڈسن' جس نے کمشنر آف سندھ کو اس علاقے کی 'ریسیٹلمنٹ سروے رپورٹ 1905 میں پیش کی تھی، جس میں تھا کہ، "1848ء سے یہ شہر درآمد و برآمد کا مرکز رہا ہے، یہ اناج کی مشہور منڈی ہے۔ یہاں سے کراچی، کچھ، کاٹھیاواڑ اور گجرات تک اناج جاتا ہے۔ کیٹی بندر کا 'زنجبار' سے سیدھا رابطہ ہے۔ 03-1902 میں یہاں سے 92,705 من اناج، 2230 من لکڑی اور دوسرا سامان باہر بھیجا گیا۔"
1908-09 میں بندر پر 382 جہاز 8020 ٹن سامان لے کر داخل ہوئے، جبکہ 260 جہاز 7482 ٹن سامان لے کر دوسرے ملکوں کو روانہ ہوئے۔ 1923 میں یہاں سے 4,23,432 روپیوں کا مال درآمد جبکہ 2,31,313 روپیوں کا مال برآمد کیا گیا۔ اور 1946ء میں فقط 13,415 روپیوں کا مال منگوایا گیا۔ (1)۔ 1948ء میں دریائی بہاؤ کی تبدیلی کی وجہ سے کیٹی بندر کے آسمان سے خوشحالی کا سورج غروب ہونے لگا اور کمال و زوال کی کہانی کی ابتدا ہوگئی۔
اب ان پرسکون بادبانی جہازوں اور بندر پر بھیڑبھاڑ کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت تو کانوں کو درد دینے اور تیز آوازوں والے انجن ان کشتیوں کو دھکیلتے جاتے ہیں اور شکار میں جو مل جائے وہ اچھا۔ واپسی پر میں وہاں کے ایک سماجی کارکن گلاب شاہ سے بھی ملا جو کیٹی بندر کے قریب "جھالو شاہ" میں رہتے ہیں۔
جانیے: مینگرووزکی کاشت، سمندری غضب کا علاج
میں نے جب پوچھا کہ یہاں سے اندازاً کتنے خاندانوں نے ہجرت کی ہے، تو کہنے لگے "اب یہاں بچا کیا ہے!؟" گلاب شاہ کی آواز میں بنجر ہوتی ہوئی دھرتی کا دکھ تھا جو ان الفاظ کے اندر پنہاں تھا، "کراچی کا آدھا ابراہیم حیدری، ریڑھی میان، اور ماہیگیروں کی جو چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں، وہ سب یہاں سے گئے ہیں۔ خوشی سے اپنے گھر کا آنگن کون چھوڑتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو سارے سندھ میں دھان کی فصل اور اس کے مختلف اقسام کی وجہ سے مشہور تھا۔ یہاں تک کہ فصل کاٹنے کے لیے مقامی لوگ کم پڑتے تو ملتان سے لوگ آتے یہاں دھان کی فصل کاٹنے، مگر جب سے ڈیم بننے شروع ہوئے، میٹھے پانی کو ان ڈیموں میں قید کردیا گیا، تو میٹھے پانی کی شدید کمی کی وجہ سے ایگریکلچر برباد ہوکر رہ گیا۔
"کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے سمندر آگے بڑھ آیا ہے، جس کی وجہ سے سب برباد ہوگیا ہے۔ معاش کے ذرائع مسلسل ختم ہو رہے ہیں۔ اور تو اور پینے کا پانی تک نہیں آتا نہروں میں۔ ایک زمانے میں تو چھوٹے سے کنویں کھود کر پینے کا پانی حاصل کرلیتے تھے۔۔پر اب واٹر لیول اتنا بڑھ کیا ہے کہ دو تین فٹ تک کھودنے سے سمندر کا پانی نکل آتا ہے۔ بڑے مشکل دن ہیں اس زمین پر۔"
تجزیہ: کیا کراچی ہمیشہ ڈوبتا رہے گا؟
کہاوت ہے کہ اگر پگڈنڈیاں زمینوں سے روٹھ جائیں، تو وہاں موسم نہیں آتے۔ میں نے گلاب شاہ کے درد کو محسوس کیا، میں نے خالی گاؤں اور ویران گھروں کے آنگن بھی دیکھے، تب مجھے یقین ہوگیا کہ یہاں کی زمینوں سے واقعی پگڈنڈیاں روٹھ گئی ہیں، اور اب یہاں خاموشی، بے بسی اور ویرانی کے ایک ہی موسم نے یہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
— تمام تصاویر بشکریہ ابو بکر شیخ۔
(1) کسٹم کا یہ تاریخی رکارڈ "محمد بن قاسم لائبرری" سجاول میں محفوظ ہے۔
اس تحریر کے وقت یہ کتابیں اور ڈاکیومنٹ زیرمطالعہ رہیں۔
۔ لاڑ جی ادنی ائیں ثقافتی تاریخ (سندھی) از ڈاکٹر غلام علی الانا
۔ قدیم سندھ جی تجارتی تاریخ (سندھی) از چیتن لال ماڑی والا۔ ترجمہ: عطا محمد بھنبرو
۔ امپیرئل گزیٹیئر آف انڈیا (والیوم 1)
تبصرے (18) بند ہیں