سید مہدی بخاری
بلتستان کا ضلع گانچھے الگ تھلگ سربلند پہاڑوں کے بیچ بسی دلکش وادیوں، دلنواز بستیوں اور کھلی دریائی زمینوں کے ساتھ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے کوئی دوشیزہ اپنے حسن و جمال کے پورے ادراک کے ساتھ سہمی گھبرائی ہوئی سب سے آخر میں کھڑی ہو۔
سنگلاخ نوکیلے پہاڑوں، بہتے نیلگوں پانیوں، بلندی سے گرتی آبشاروں کی یہ سرزمین قدرتی و انسانی حسن سے مالا مال ہے۔ گانچھے کا صدر مقام خپلو اپنے نام کی طرح خوبصورت ہے۔ دریائے شیوک کے کنارے بسی یہ آبادی آج بھی اتنی ہی سادہ و خالص ہے جتنی صدیوں پہلے تھی، جب یارقند سے سالتورو کے راستے پہاڑوں کو عبور کرتا انسان ہجرت کر کے اس خطے میں وارد ہوا۔
اسکردو کو چھوڑتے ہوئے نکلیں تو ایک تنگ مگر پکی سڑک دو رویہ پاپولر کے درختوں کے بیچ گِھری مسافر پر سایہ کرتے چلتی ہے۔ درختوں سے چھن چھن کر اترنے والی سورج کی روشنی تارکول پر دھوپ چھاؤں کا رقص اور درختوں کے آڑھے ترچھے لمبے سائے ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے والا قدرت سے ذرا بھی رغبت رکھتا ہو تو مبہوت ہو کر دیکھتا رہ جائے۔
موسم اگر خزاں کا ہو تو پاپولر کے پیلے پڑتے درخت کالے تارکول پر بھی پیلاہٹ پھیلا دیتے ہیں۔ سڑک سے ذرا ہٹ کر بائیں جانب دریائے سندھ چپکے چپکے بہتا ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ ذرا آگے جا کر ایک سڑک وادی شِگر کی طرف مڑ جاتی ہے۔ دو دریاؤں کے ملاپ کی سرزمین شِگر جہاں بالتورو گلیشیئر سے نکلتا دریائے برالڈو ایک وسیع میدان میں اپنے برفانی نیلے پانیوں کو سندھ کے سبز پانیوں کے سپرد کرتا وادی شِگر کی زمین کو ایبسٹریکٹ رنگوں میں رنگ دیتا ہے۔
اوپر سے دیکھیں تو یہ نظارہ کسی مصور کا شاہکار لگتا ہے جس نے گہرے نیلے، سبز اور براؤن رنگوں کے اسٹروکس کینوس پر جا بجا لگائے ہوں۔ وادی شِگر سے گزر کر یہ سڑک ضلع شِگر کی آخری انسانی آبادی اسکولے گاؤں تک جاتی ہے، وہیں سے سیاح اور کوہ نورد دنیا کی بلند چوٹیوں کے ٹو اور براڈ پِیک کی پیدل راہ لیتے ہیں۔
اسکردو سے نکلتے پاپولر کے دو رویہ درختوں کے بیچ ٹھنڈی سڑک پر دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے بھیڑوں کے ریوڑ مسافر کا راستہ کاٹتے ہیں۔ سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ بل کھاتی چھوٹی چھوٹی بستیوں سے گزرتی یہ سڑک دریائے سندھ کا پل پار کرتے ہی ضلع گانچھے میں داخل ہو جاتی ہے۔
دریا پر بنا قدیم طرز کا لکڑی کا پل اب بوسیدہ ہو رہا ہے، اس کے تختے جگہ جگہ سے شکستہ پڑ چکے ہیں۔ اسکردو چھوٹا، گانچھے آیا، منظر جوں کے توں رہے، مگر موت کی ہیبت طاری ہو گئی۔ وہی پہاڑوں کی وحشت، ویسی ہی بل کھاتی سڑک پر منظر میں دریائے شیوک کا اضافہ ہوا۔ شیوک کے لفظی معنی موت کا دریا ہیں۔ سیاچن گلیشیئر کے ہمسائے ریمو گلیشیئر لداخ سے نکلتا یہ دریا گانچھے کے مقام مچلو سے آگے بلتستان کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔
دریائے شیوک کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں تو راستے میں سڑک کے بائیں ہاتھ دریا کے اوپر بنا لکڑی کا پل وادی سالتورو کو جانے کا راستہ ہے۔ پل عبور کرتے ہی ایک وسیع و عریض میدان نظر آیا، جو چھوٹے چھوٹے گول پتھروں سے بھرا پڑا تھا اور عقب میں سالتورو کا پہاڑی سلسلہ دیوار بنے کھڑا دِکھا۔ مشہ بروم پہاڑ کو جانے وانے والے کوہ نورد اسی وادی سے راہ لیتے ہیں۔
خپلو کو جاتے جاتے تھلے گاؤں والا پل نظر آیا تو دل کیا کہ تھلے کی طرف چلا جائے۔ سارا علاقہ خزاں رسیدہ گھنے درختوں سے گھِرا ہوا تھا۔ دریائے شیوک پر بنا لکڑی کا پل پار کر کے آبادی میں پہنچے تو پولیس تھانے کے باہر چیکینگ کے لیے جیپ روک لی گئی۔ ڈی ایس پی صاحب موجود تھے۔ تھانے کے اندر قہوے سے مہمان نوازی کی گئی۔
گپ شپ شروع ہوئی تو بولے سَن بہتر سے لے کر اب تک سارے علاقے میں صرف ایک قتل ہوا ہے، اور اتنے سالوں میں کل سات ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں۔ میں نے ہنس کر کہا "تو سر تھانہ بند کر دیں کیا ضرورت ہے پھر" تو بولے "بس روزی روٹی لگی ہوئی ہے۔" اس سادہ سے اندازِ جواب پر میں مسکرا پڑا تو قہوے میں مصری کی ڈلی بھی ہنستے ہوئی گھل گئی اور پاس رکھے گملے میں کھِلے شوخ رنگ پھول پر سترنگی تتلی سکون سے بیٹھ کر ہماری باتیں سننے لگی۔
خپلو کے آتے آتے دائیں ہاتھ باغات اور بائیں ہاتھ جنگل شروع ہو جاتے ہیں۔ گھنے جنگل جن میں نالے بہتے ہیں، مقامی لوگوں کے گھر ہیں اور درختوں کے بیچ بنی تنگ گزرگاہوں پر بچے کھیلتے پھرتے ہیں جن کی آنکھوں کے رنگ جنگل کے رنگوں سے زیادہ گہرے اور متاثر کن ہیں۔ خپلو آیا تو بازار میں کچھ چہل پہل نظر آئی۔ خپلو شمال کا سرد ترین علاقہ ہے۔ سردیوں میں اس کا درجہ حرارت منفی بیس سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے اس لیے اسے "تیسرا قطب" بھی کہتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ قطبِ شمالی و جنوبی کے بعد اگر کوئی تیسرا قطب ہے تو وہ خپلو ہے۔
جب میں خپلو میں داخل ہوا تب پہاڑوں پر خزاں آچکی تھی اور آسمان پر بادل چھائے تھے۔ پہاڑی علاقے میں جب شہر کی آبادی بھی کم ہو تو سرِ شام ہی آدھی رات پڑ جاتی ہے۔ خپلو کے جنگلوں کے بیچ ایک تنگ پگڈنڈی پر چلتے سارے دن کی یادیں فاسٹ فارورڈ انداز میں ذہن کے پردے پر چلتی جا رہی تھیں۔
سرسراتی ہوا درختوں کے پتے گراتی، گھماتی، اڑائے پھرتی اور مقامی بچے ان پتوں کے تعاقب میں دیر تک بھاگتے رہتے۔ شجر سے ٹوٹ کر ہوا میں اڑتے کسی ایک پتے کو پکڑنے کی خواہش میں پہاڑ کے نشیب میں اتر جاتے۔ کبھی کبھی من چاہا پتہ پانیوں میں اتر جاتا اور بہاؤ پر ڈولتا ڈولتا اتنی دور نکل جاتا کہ اسے پکڑنا ممکن نہ رہتا۔ عورتیں کمر سے بندھی لکڑی کی ٹوکری میں زمین سے خشک تنکے چن کر جمع کرتیں تا کہ رات کے کھانے کے لیئے آگ جلائی جا سکے۔
پہاڑوں پر خزاں کا موسم میرے مزاج سے ملتا جلتا ہے اس لیے مجھے خزاں ہر سال بلاتی ہے۔ خزاں کا موسم ایک طرح سے انتشار کا موسم ہے۔ تعلق کے ختم ہونے کا موسم، شجر سے پتے کا رابطہ ٹوٹے تو لڑکھڑاتا زمین پر آتا ہے۔ ایک آوارہ گرد کو ٹوٹے پتے کا دکھ سانجھا لگنے لگتا ہے۔
گھروں میں داخل ہونے والوں کے لباس پر خشک پتے، کھڈوں اور نالوں کے پانیوں کے کنارے ٹھہرے کیسری براؤن پتے، بچوں کے بستروں کے اندر باہر پتے، سڑکوں پر سسکتے، سرسراتے چھوٹے بڑے خشک پتے۔ کھڑکیوں اور جالیوں میں اٹکے پتے، بجلی کی تاروں پر ٹنگے ہوئے اور گیلے کپڑوں سے لپٹے پتے۔ چنتا کا موسم، ہراساں سی کیفیت، بادلوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کا بھی ایک رنگ آتا اور جاتا ہے۔ خزاں سب موسموں سے کٹا ہوا موسم ہے۔ اس میں حزن و ملال، یاس و خوف کی کیفیت غالب رہتی ہے اور اگر خزاں شمال کے آخری کونے میں بسی خپلو کی بستی میں اتر آئے تو ارد گرد بکھرے خزاں کے رنگوں کے بیچ دل دھڑکتا نہیں ٹپکنے لگتا ہے۔
صدیوں پہلے سارا خطہ بدھ مت کے زیرِ اثر تھا، آج بھی قدیمی پتھروں پر اس دور کے کھدے ہوئے آثار ملتے ہیں۔ 1570ء میں سید ناصر طوسی اور سید علی طوسی دونوں بھائی یارقند سے سالتورو کے راستے خپلو پہنچے اور اسلام کی تبلیغ کی۔ بازار سے نکل کر ایک سڑک اوپر چڑھتی ہوئی قلعہ خپلو تک جاتی ہے۔ اس قلعہ کو 1840ء میں یبگو راجا خپلو نے تعمیر کیا۔ یبگو خاندان کے لوگ وسطی ایشیاء کے علاقے یارقند سے یہاں وارد ہوئے اور خپلو پر 700 سال تک حکمرانی کی۔ قلعہ کے اندر اب سرینا ہوٹل وجود میں آ چکا ہے۔ قلعہ کی پرانی طرز پر ازسر نو تعمیر بہت مہارت سے کی گئی ہے۔ دریائے شیوک کے کنارے آباد اس بستی میں مکمل لکڑی سے بنی قدیم ترین اور پرسکون مسجد بھی واقع ہے اور یہاں پر حکمرانی کرنے والے راجاؤں کی رہائش گاہ بھی۔ مسجد کے اندر جیسے صدیوں کا سکوت خیمہ زن ہے۔ بیٹھے بیٹھے ہزاروں سجدے جبینِ بے نیاز میں تڑپنے لگتے ہیں۔
خپلو کو چھوڑ کر آگے بڑھیں تو اسی بل کھاتی سڑک پر دریائے شیوک کا کھلا میدان آتا ہے جہاں یہ دریا پھیل کر نالیوں کی صورت میں اپنے وسیع کنکر بھرے میدان میں بہتا ملتا ہے۔ یہیں سے اس کے عقب میں مشہ بروم پِیک کی چوٹی کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
آگے مچلو کا گاؤں آباد ہے۔ مچلو، سکردو سے پرے خپلو سے آگے، دریائے شیوک کے کنارے کہ جو موت کا دریا ہے ایک دور دراز بسا گھنے اخروٹ اور لمبے پاپولر کے درختوں کی چھاؤں میں ٹھنڈا ٹھنڈا گاؤں. یاک اور زمو، دودھ اور لسی، ٹراؤٹ اور ابلے آلو، ہنستے مسکراتے بلتی لوگ، لکڑیاں چنتی عورتیں اور بچے، ٹولیوں میں نیلگوں آسمان سے گزرتے بادل، سامنے نظر آتی مشہ بروم کی چوٹی، سکون سے بہتا شیوک دریا، پہاڑ سے نکلتا چشمہ، پرانی لکڑی سے بنی دیده زیب مسجد، چھوٹی چھوٹی دکانیں، مچلو کا سب کچھ یاد رہ جاتا ہے۔ گانچھے کا حسن تصویروں اور لفظوں میں سمونا ناممکن ہے۔ ایک عرصے تک آوارہ گردی کر کے بھی جب یاد آنے لگتا ہے تو دل سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ دل کرتا ہے کہ چچا محسن نقوی کا شعر مجھ پر صادق آ جائے
میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہو گا
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی!
لکھاری پیشے کے اعتبار سے نیٹ ورک انجینیئر ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کا فیس بک پیج
یہاں وزٹ کریں۔
تبصرے (103) بند ہیں