• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

بچوں پرجنسی تشدد کے بڑھتے واقعات لمحہ فکریہ

شائع April 6, 2015
واقعات رپورٹ نہ ہونے اور سزائیں نہ ہونے کی وجہ سے بچوں پر جنسی تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے — creative commons
واقعات رپورٹ نہ ہونے اور سزائیں نہ ہونے کی وجہ سے بچوں پر جنسی تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے — creative commons

اقوام متحدہ کی تعریف کے مطابق 18 سال کی عمر تک کے تمام کم سن افراد کو بچہ کہا جاتا ہے۔ اس حساب سے پاکستان کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی بچوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے یہی بچے جنہوں نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، اس وقت بہت سارے مسائل سے نبردآزما ہیں، مگر ان سارے مسائل میں پاکستان میں بچوں پر بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کے واقعات سب سے زیادہ باعث تشویش ہیں۔

کچھ دن پہلے پاکستان میں بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'ساحل پاکستان' نے گذشتہ سال کی تحقیقاتی رپورٹ "ظالم اعداد 2014" کے نام سے پیش کی جس کے مطابق گذشتہ سال جنوری تا دسمبر بچوں پر جنسی تشدد کے کل 3508 واقعات رپورٹ ہوئے (روزانہ اوسطاً 10 بچے)۔ جبکہ سال 2013 کی نسبت 2014 میں ان واقعات میں17 فیصد اضافہ ہوا۔

یہ اعداد و شمار ساحل نے 'ملک کے 70 قومی، علاقائی، اور مقامی اخبارات کی باریک بینی سے مانیٹرنگ کے بعد اخذ کیے ہیں، سال 2014 میں بچوں پر جنسی تشدد کے 8 واقعات ساحل پاکستان کو براہ راست بھی رپورٹ کئے گئے۔'

رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ '11 سال سے 15 سال کے بچے سب سے زیادہ جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ لڑکیوں پر تشدد کی شرح لڑکوں کی نسبت زیادہ رہی، جہاں 2141 لڑکیاں اور 1367 لڑکے جنسی تشدد کا شکار بنے۔ کل 3508 واقعات میں سے 1831 واقعات اغوا، 614 واقعات ریپ، 206 گینگ ریپ،284 واقعات لڑکوں کے ساتھ جنسی تشدد اور 103 واقعات کم عمری میں شادیوں کے سامنے آئے۔'

اگر ان واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملوث افراد میں زیادہ تر وہ تھے، جو کہ بچوں سے واقفیت رکھتے تھے۔ اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ قریبی تعلقات رکھنے والے افراد ہی بچوں کا سب سے زیادہ استحصال کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مجرمان میں '1246 اجنبی افراد، 60 رشتہ دار، 66 پڑوسی، مولوی، اساتذہ اور پولیس والے بھی بچوں پر جنسی تشدد میں ملوث پائے گئے۔ 33 فیصد واقعات دیہی جبکہ67 فیصد شہری علاقوں سے سامنے آئے۔'

'2597 واقعات پولیس کے پاس درج ہوئے، 28 واقعات کو پولیس نے درج کرنے سے انکار کیا، 262 پولیس کے پاس درج نہ ہوسکے، جبکہ621 واقعات کے انداراج کی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔'

پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نہ صرف پریشان کن ہیں بلکہ سب کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہیں۔ پاکستان کا میڈیا اور اکثر پڑھے لکھے لوگ ہندوستان میں خواتین کے ساتھ ہونے والے ریپ کے واقعات پر کھل کر تبصرے اور ہندوستان کی مذمت کرتے ہیں، مگر وطنِ عزیز کے پھول جیسے بچوں کے ساتھ ہونے والے اس طرح کے گھناؤنے واقعات پر کوئی آواز نہیں اٹھاتے۔

ذرا ایک لمحے کو خود سوچیے۔ کیا پاکستان میں ہونے والے ایسے واقعات اکا دکا ہیں؟ جو واقعات رپورٹ نہیں ہو پاتے، یا جن کے بارے میں کسی سرکاری و غیر سرکاری ادارے کو معلومات دستیاب نہیں ہیں، ان کو ایک طرف رکھیے۔ صرف رپورٹ ہونے والے واقعات ہی ڈھائی ہزار سے زیادہ ہیں۔ کیا یہ کوئی اتنی چھوٹی تعداد ہے جسے کوئی اچھوتا واقعہ قرار دے کر اس سے چشم پوشی کر لی جائے؟

بچوں کا تحفظ اور ان کو بہتر مستقبل کی فراہمی میں والدین، خاندان، اساتذہ، اہل علاقہ، حکومت اور ان سے منسلک تمام افراد اور اداروں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ مگر ان کے ساتھ ساتھ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے حکومتی پالیسیاں اور ان پر عملدرآمد زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ مگر انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک ہمارے یہاں اس حوالے سے نہ کوئی واضح پالیسیاں ہیں، اور نہ ہی پہلے سے موجود قوانین پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل ہورہا ہے۔ ایسے گھناؤنے واقعات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا نہ ملنا بھی ان واقعات میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔

ﺑﭼﮯ ﭘﺮ ﺟﻧﺳﯽ ﺗﺷدد ﮐو ﺳﺎﻣﻧﮯ آﻧﺎ ﭼﺎﮨﯾﮯ، ایسے واقعے کو چھپانا مزید نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ ﺑﭼﮯ ﮐو ﻣﺎﮨﺮاﻧہ ﻣدد ﻣﻠﻧﯽ ﭼﺎﮨﯾﮯ ورنہ ﺟﻧﺳﯽ ﺗﺷدد ﮐﯽ وﺟہ ﺳﮯ ﮨوﻧﮯ واﻻ ﺟذﺑﺎﺗﯽ اور ﻧﻔﺳﯾﺎﺗﯽ ﻧﻘﺻﺎن آﮔﮯ ﭼل ﮐﺮنہ صرف بچے کے لیے بلکہ پورے خاندان اور معاشرے کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہر صورت متاثرہ بچے کو انصاف دلانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ایسے واقعے کے پیش آنے میں بچے کا قصور نہیں ہوتا۔

لیکن بچے اپنے استحصال کے بارے میں آواز جلد نہیں اٹھا پاتے، کیونکہ انہیں مجرم کی جانب سے زبان کھولنے پر جان کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اگر آپ کا بچہ خاموش، الگ تھلگ، یا اداس رہتا ہے تو اسے کرید کر پوچھیں۔ بچوں کو یہ بات کھل کر سکھانی چاہیے کہ انہیں اپنے گھر والوں کے علاوہ ہر کسی شخص سے ایک فاصلہ رکھنا چاہیے، خود کو چھونے نہیں دینا چاہیے، اور کسی بھی غلط حرکت کی صورت میں فوراً گھر والوں کو مطلع کرنا چاہیے۔

خدانخواستہ بچے کے ساتھ اگر جنسی تشدد کا واقعہ پیش اتا ہے تو فوراً تمام شواہد اکھٹے کر کے قریبی سرکاری ہسپتال سے بچے کا طبی معائنہ کروانا چاہیے، اور چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ایف آئی آر کا اندراج کرانا چاہیے۔ اس عمل سے ایک مجرم کو اس کے جرم کی سزا مل سکتی ہے اور آئندہ وہ ایسے گھناؤنی حرکت سے باز رہ سکتا ہے اور اس سب سے بچے کے اندر موجود انتقام کا جذبہ بھی بڑی حد تک کم ہو سکتا ہے۔

یہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے کیس منظرِ عام پر تو آ رہے ہیں لیکن سزاؤں کی شرح اب بھی بہت کم ہے جس کی وجہ سے گذشتہ 5 سے 6 سالوں کے اندر ایسے واقعات میں 100 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔

جنسی تشدد صرف غریب اور دیہی علاقوں کا مسئلہ نہیں ہے: بچہ چاہے امیروں کا ہو یا متوسط طبقے کا، شہری ہو یا دیہی علاقے کا، والدین اور گھر والوں کی غفلت سے تشدد کا شکار ہوسکتا ہے۔ جنسی تشدد کا شکار صرف لڑکیاں ہی نہیں لڑکے بھی ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے اور انہیں بچوں کی حفاظت کو ہر صورت ممکن بنانا ضروری ہے۔ معاشرے کے ہر فرد میں احترام انسانیت کا جذبہ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔

اسلام میں بھی بچوں کے تحفظ اور شفقت کے حوالے سے واضح پیغام دیا گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔ ان کا ارشاد ہے کہ:

"جنت میں ایک گھر ہے جسے دارالفرح (خوشیوں کا گھر) کہا جاتا ہے اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو اپنے بچوں کو خوش رکھتے ہیں۔‘‘

ایک اور موقع پر فرمایا:

”وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور بڑوں کے ساتھ عزت و اکرام کا معاملہ نہ کرتا ہو۔“

دنیا اس وقت ستاروں اور کہکشاؤں سے آگے نکل رہی ہے مگر اس ایک رپورٹ کے کچھ حقائق ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ پاکستان میں جس رفتار سے بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، اس شرح میں کمی لانے اور ایسے گھناؤنے واقعات میں ملوث تمام افراد کو سخت سے سخت سزائیں دلانے کے لیے پہلے سے موجود قوانین پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہیے۔ اور بچوں پر تحفظ کے حوالے سے جو بل ابھی مختلف مراحل میں ہیں انہیں فوری قانونی شکل دینا ہوگا۔

دنیا کی سب ہی قوموں کا مستقبل اور قیمتی سرمایہ "بچے‘‘ ہوا کرتے ہیں۔ جب تک بچوں کو ایک محفوظ اور خوشحال آج نہیں مل سکتا تب تک ہم کسی بھی طرح ایک خوشحال اور محفوظ کل کی توقع نہیں کر سکتے۔

ممتاز حسین گوہر

بلاگر فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ مختلف سماجی اور سیاسی مسائل پر لکھتے ہیں اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: mhgohar@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

محمد ارشد قریشی (ارشی) Apr 06, 2015 08:42pm
تلخ حقیقت سوچنے سے زیادہ بہت کچھ اس کی روک تھام کے لیے کرنے کی ضرورت ہے
Saeed Khan Apr 06, 2015 09:22pm
Exactly right , speedy trial courts, awareness & strict Federal prosecuted laws are demands of the time to save our flowers.
shagufta Salim Apr 07, 2015 03:03pm
Bohat dukh hua is report ko perh ker.....main aik maan hoon or us takleef or kerb ko mehsoos ker skti hoon Jo aisa bachcha or us key walidain uthatey hoon ge. Main in tamaam bachchon sey maafi mangti hoon. Yeh meri bhi zimmedari hey keh aisey khabisoon ko apney haath se gooly mar doon......
مدثر عبّاس Apr 07, 2015 03:21pm
ممتاز صاحب! آپ نے ایک انتہائی اہم ایشو پر قلم اٹھایا ہے، اور بہترین انداز میں اسے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے. یہ بہت ہی بڑا اور سنجیدہ مسلہ ہے. اس پر مزید عملی کام کی ضرورت ہے.
Saqlain Ahmad Apr 08, 2015 12:18am
Aik ahma mozooh per aware kiya gaya hai. Thanks for this informative and awareness raising peace of writing. Every one should think on this issue.
mudasser Apr 08, 2015 01:01pm
when i was child i was sexually exploited many times, and non of them was reported just because i don't wanted to get listen about this. so i would say our society is full of beasts we should care about our next generation

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024