کینیا میں 147 ہلاکتیں اور ہماری خاموشی
صبح 8 بجے خبریں دیکھنا میرے روزانہ کے روٹین کا حصہ ہے۔ میری شخصیت کا ایک حصہ اب بھی نیوز روم میں کام کرنے کے باوجود بے حس نہیں ہوا ہے، اور صبح صبح خبریں دیکھ کر مجھے دن بھر سوچنے کے لیے کچھ چیزیں مل جاتی ہیں۔
صبح کی چائے پیتے ہوئے میں یمن سے واپس آتے پاکستانیوں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ جنگ زدہ ملک سے اپنے وطن واپسی پر ان پاکستانیوں کے چہرے کس قدر کھلے کھلے لگ رہے تھے۔ مجھے خوشی تھی کہ وہ بحفاظت وطن واپس آچکے تھے۔ لیکن حب الوطنی کی یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہی، کیونکہ جلد ہی ایک دل دہلا دینے والی خبر ٹی وی پر تھی۔
کینیا کے گریسا یونیورسٹی کالج میں 147 طلبا کو قتل کر دیا گیا تھا۔
قتل کر دیے بچوں کی تعداد دیکھ کر مجھے فوراً 16 دسمبر 2014 کا وہ منحوس دن یاد آگیا جس دن ۔۔۔
کیا یہ سچ تھا؟ آخری بار جب میں نے خبریں دیکھی تھیں تو تعداد 20 کے قریب تھی، اور اب 147؟
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، میری سمجھ سے باہر ہونے لگا کہ اس قدر بڑے سانحے پر دنیا بھر میں کوئی شور و ہنگامہ کیوں نہیں ہو رہا۔ یہ کینیا میں 10 سالوں کا بدترین دہشتگرد حملہ تھا، لیکن پوری دنیا کی آنکھیں لوزان پر لگی ہوئی تھیں، جہاں ایران اور عالمی طاقتیں ایٹمی معاہدے پر دستخط کر رہے تھے۔
صبح پھوٹنے سے پہلے رات کے کپڑوں میں ملبوس، اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگتے بچوں کی زندگیاں کسی کے لیے اہم نہ تھیں؟ کسی کے لیے بھی نہیں؟
مجھے یاد ہے کہ پشاور حملے نے کس طرح ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
ہم سب ہی خبر لکھتے ہوئے اور تصویروں کی ایڈیٹنگ کرتے ہوئے اندر ہی اندر رو رہے تھے۔ الشباب والوں کے لیے یہ بھی تو پشاور حملے جیسا تھا نا؟ وہی طریقہ، وہی ٹارگٹ، مرنے والے زیادہ تر بچے غیر مسلم۔ اور حملہ آوروں کے نزدیک یہ سب کینیائی حکومت کو سوڈان میں مداخلت پر سبق سکھانے کے لیے کیا گیا تھا۔
الشباب کا نام ہی ایک طنز سے کم نہیں، کیونکہ شباب کا مطلب عین جوانی ہے۔ جوانوں کے نمائندہ اور محافظ ہونے کے یہ دعویدار اتنے ظالم تھے، کہ انہوں نے پہلے بچوں کو زندگی کا لالچ دے کر ہاسٹل سے نکلنے پر مجبور کیا، اور جب وہ باہر آگئے، تو انہیں قطاروں میں کھڑا کر کے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔
'اگر مرنا ہے، تو اندر رہو، اور جینا چاہتے ہو، تو باہر نکل آؤ۔'
بچوں کا مسلم ہونا (یا نہ ہونا) بھی ان کی جان بخشی میں ایک اہم کردار ادا کرنے والا تھا۔
پشاور حملہ ہو، یا کوئی بھی۔ اس کا موازنہ کسی بھی دوسرے حملے سے نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن مجھے یہ بات نہیں سمجھ میں آ رہی کہ آخر گریسا یونیورسٹی حملے پر دنیا بھر میں وہ غم و غصہ کیوں نہیں پایا جا رہا۔
حملہ آور کوئی نوآموز نہیں تھے، بلکہ وہ القاعدہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ خود کو طالبان نہیں کہلواتے، لیکن ان کے مطالبات وہی ہیں جو طالبان کے ہیں۔
جس طرح پاکستان کے پڑوس میں افغانستان واقع ہے، اسی طرح صومالیہ کینیا کے پڑوس میں واقع ہے۔ غیر مؤثر سکیورٹی کی وجہ سے ملک میں داخل ہونا نہایت آسان ہے۔
الشباب کا پچھلا حملہ 2013 میں تھا، جب انہوں نے نیروبی کے ایک شاپنگ مال پر حملہ کر کے 60 سے زائد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ لیکن عالمی برادری پشاور حملے پر کئی مہینوں تک بحث کرتی رہی، اور اس بات کا چرچا ہوتا رہا کہ آیا پاکستانی ریاست دہشتگردی کے بحران سے نمٹنے اور امن و امان قائم کرنے کی اہلیت رکھتی ہے یا نہیں۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس مسئلے پر کوئی بھی توجہ نہیں دینا چاہتا۔
یہ اس کے بالکل برعکس ہے جب یوگنڈا کی دہشتگرد تنظیم لارڈز ریزیسٹنس آرمی (ایل آر اے) کے سربراہ جوزف کونی کے جرائم منظرِ عام پر آئے تھے، تو فوراً ہی امریکی صدر بارک اوباما نے 100 امریکی فوجی مشیروں کو بھیجا تھا، لیکن آگے کچھ نہیں ہوا۔
گریسا پر خاموشی یہیں ختم نہیں ہوتی۔
لگتا ہے کہ مشہور فقرہ 'سیاہ فام جانوں کی کوئی قدر نہیں' یہاں بھی درست ثابت ہو رہا ہے۔ جب بوکو حرام نے شمال مشرقی نائیجیریا میں اسکول کی 300 بچیوں کو اغوا کر لیا تھا، تو امریکی خاتونِ اول مشیل اوباما ان کی رہائی کے لیے چلائی جانے والی مہم کی صفِ اول میں نظر آئیں، لیکن اس مسئلے پر بھی اٹھنے والی آوازیں جلد ہی دب گئیں۔
روانڈا اور کانگو سمیت پورا افریقہ ہی دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے، لیکن لگتا ہے کہ کم ہی لوگوں کو اس کی فکر ہے۔
اجتماعی قبریں، زیادتی اور حملوں کی کہانیاں، اور یونیورسٹی جانے پر مار دیے جانے کے خوف میں مبتلا بچے: افریقہ کو سیاہ خطہ شاید بغیر وجہ کے نہیں کہا جاتا۔
کینیائی مسلمان جمعرات کے روز ہونے والے حملے میں غیر مسلم مقتولین سے اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں۔ — اے پی |
لیکن اس سب کے باوجود کینیا والے بھی پاکستانیوں کی طرح ہی ہیں: انہوں نے بھی ان دہشتگردوں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا ہے، جو خوف پھیلا کر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ کینیا کے صفِ اول کے اخبار 'دی اسٹینڈرڈ' کی سرخی 'کینیا جھکا نہیں ہے' یہ بتانے کے لیے کافی ہے۔
مقامی افراد بڑی تعداد میں مارے جانے والوں کی یاد میں اور بچ جانے والوں کی ہمت بڑھانے کے لیے باہر نکلے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اس سے کچھ فرق پڑا؟
کیا ہم نے ان کے لیے شمعیں روشن کیں؟
کیا ہم نے ٹوئٹر پر اس بات کا اعادہ کیا کہ ہمیں بھی ان کا دکھ ہے، کیونکہ ہم بھی اس سب سے گزر چکے ہیں؟
کیا ہم نے انہیں یہ بتایا کہ سامنے سے مضبوطی کے اس دکھاوے کے باوجود کوئی چیز ہمیں اندر ہی اندر سے کھائے جا رہی ہے؟
نہیں، ہم نے کچھ نہیں کیا۔
کئی لوگ کہیں گے کہ ہمارے پاس اپنے ہی اتنے مسئلے ہیں، اب کینیا کی بھی فکر کریں؟
تو سوال یہ ہے کہ ایک سابق کپتان پر تنقید کرنی ہو تب یہ مسئلے بیچ میں کیوں نہیں آتے؟
یمن کے مسئلے پر دھواں دھار تقریریں کرنے سے پہلے پاکستان کے مسئلے کیا حل ہو جاتے ہیں؟ نہیں تو اس وقت پہلے پاکستان کی فکر کیوں نہیں ہوتی؟
ایک چیز کی مذمت، دوسری کی نہیں، یہ دہرا معیار کیوں ہے؟
میں مارے جانے والوں کے لواحقین کے ساتھ کھڑی ہوں، کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ مذہب، رنگ، نسل، اور خیالات کے لیے مار دیے جانے پر کیسا محسوس ہوتا ہے۔
اس دنیا کو ایسے ایٹمی معاہدوں کی ضرورت نہیں ہے، جو انسانوں کی توجہ خون ریزی سے ہٹا دیں۔
نہیں، ہمیں ایسی ایٹمی توانائی اور معاہدے نہیں چاہیئں۔ ہمیں انسانیت چاہیے، ہمیں زندگی چاہیے۔
تبصرے (2) بند ہیں