سید مہدی بخاری
پاکستان کے انتہائی شمال کی دیومالائی سرزمین گلگت بلتستان کا صدر مقام اسکردو قراقرم کے فلک شگاف پہاڑوں میں گھری ہوئی وسیع و عریض وادی ہے۔ لداخ کے تنگ دروں اور پہاڑوں سے جھاگ اڑاتا شوریدہ دریائے سندھ اسکردو پہنچ کر اپنے ریتیلے کناروں کے درمیان یوں پرسکون معلوم ہوتا ہے جیسے تھکاوٹ کے بعد ریت پر پھیلا دھوپ سینک رہا ہو، اور یہیں سے دنیا کے بلند ترین پہاڑوں کےٹو، براڈ پِیک، اور گشابروم کو راستے نکلتے ہیں کہ جن پر چلنے والے راہِ جنون کے مسافر مِیل کا پتھر نگاہ میں نہیں رکھتے۔ دنیا بھر سے سیاح ان پہاڑوں کو دیکھنے اور سر کرنے کی چاہ میں مقناطیسی کشش کی طرح کھنچے چلے آتے ہیں اور کئی انہی برفانی تودوں، پہاڑوں سے نبرد آزمائی کرتے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اسکردو میں موت بھی خوبصورت ہے۔
یہ اسکردو ہے: خشک ، پتھریلا، بنجر، ریتیلا، اور دیکھنے میں وحشت بھرا۔
قراقرم ہائی وے کو جگلوٹ کے مقام سے تھوڑا آگے چھوڑتی ہوئی ایک تنگ بھربھری اور خشک پہاڑوں کے درمیاں بل کھاتی سڑک اسکردو کی طرف مڑ جاتی ہے۔ سات گھنٹے کی اس مسافت میں کئی بستیاں، پہاڑی نالے اور خوش اخلاق لوگ مسافر کا استقبال کرتے ہیں۔ دریائے سندھ پر بنا لکڑی کا قدیم پل عبور کرتے ہی ایک سڑک سیاحوں کی جنت شنگریلا کی راہ لیتی ہے جہاں شنگریلا ریزورٹس کے چیئرمین عارف اسلم صاحب نے برف پوش پہاڑوں کے بیچ ایک دلکش دنیا سجا رکھی ہے۔
اس سے اوپر کچورا گاؤں واقع ہے، جہاں درختوں کے بیچ گھِری کچورا جھیل کا نیلگوں پانی ٹھہرا ہے۔ پہاڑوں کے پیچھے دیر سے ابھرنے والے سورج کی پہلی پہلی روپہلی کرنیں یوں آہستہ آہستہ جھیل میں اُترتی ہیں جیسے کوئی بہت مقدس پانی میں پہلے آہستہ سے اپنے پیر کی انگلیاں ڈبوئے، پھر تلوے، اور آخر میں ایڑھیاں۔ زندگی میں پہلی بار کرنوں کو پانی میں اترتا وہیں دیکھا تھا۔
وادی میں بہتے دریائے سندھ کی بھی اپنی ہی طبیعت اور رنگ ہیں۔ چپ چاپ، نیلگوں، اور روپہلا، سردیوں میں اپنے کناروں پر سبز رنگ جھلکاتا ہوا اور گرمیوں میں سلیٹی، جیسے پرانی چاندی ہو۔ تبت والے کہتے ہیں کہ یہ دریا شیر کے منہ سے نکلتا ہے، اس لیے اسے شیردریا کہتے ہیں۔ بھلا ہو اس شیر کا جس نے اپنے قبیلے کی روایات کے خلاف نعمت نِگلی نہیں اُگلی ہے۔
دریا کے کناروں پر دور تک پھیلی ہوئی ریت جن پر نہ کسی کے پیروں کے نشاں نہ زمین سے اُگتا کوئی سرکنڈا۔ نہ جانے کیوں ایسی شفاف ریت دیکھ کر دل چاہنے لگتا ہے کہ اس پر نشان بناتا دور تک چلوں، وہاں تک جہاں ایک کھنڈر نما قلعے کے آثار آٹھ سو سال سے نیچے وادی کا نظارہ کر رہے ہیں۔ کھرپوچو قلعہ بلتی حکمران علی شیر خان انچن نے تعمیر کروایا تھا۔ کبھی ناقابلِ شکست سمجھا جانے والا یہ قلعہ اب وقت کے آگے ہار مان چکا ہے۔ در و دیوار بوسیدہ ہو کر ڈھ رہے ہیں۔ ہر عروج کو زوال ہے مگر کھرپوچو کا زوال بھی خوبصورت ہے۔ پورے چاند کی رات میں اس کھنڈر کی دیواروں پر پھیلی چاندنی کے ساتھ نیچے وادی کا دودھیا نظارہ مجھے آج بھی راتوں کو بے چین کر دیتا ہے۔
کٹپانا کے گاؤں میں پھیلے ریت کے پہاڑ جنہیں کولڈ ڈیزرٹ بھی کہا جاتا ہے، اپنے وجود میں ایک عجوبہ صحرا ہیں۔ اس کے ٹیلے وادی میں بہتی تیز ہواؤں کی وجہ سے اپنا مقام اس تیزی سے بدلتے ہیں جیسے خانہ بدوش اپنا ٹھکانہ۔ اس بلندی اور اتنے سرد خطے میں واقع یہ ٹھنڈا صحرا وحشت کے ماروں کی دلداری بھی کرتا ہے اور دل آزاری بھی۔ خاک اڑانے کو اس سے بہتر جگہ شاید ہی کوئی ہو۔
سکردو کے بازار سے آگے ایک سڑک دنیا کے بلند ترین پہاڑی میدان دیوسائی کو مڑ جاتی ہے اور اسی بل کھاتی سڑک پر سدپارہ جھیل پر نظر پڑتی ہے جہاں اب ڈیم تعمیر کیا جا چکا ہے۔ سدپارہ کی جھیل کا پانی راتوں رات چڑھ جاتا ہے۔ ایک اکلوتا ہوٹل جھیل کے کنارے کھڑا ہے، اور آدھا پانی میں ڈوب چکا ہے، صرف تین کمرے باقی بچے ہیں۔ پورے چاند کی رات میں سدپارہ جھیل سفید جادو کرتی ہے جو کالے جادو سے زیادہ کشش رکھتا ہے۔
سفروں میں گزری ایک رات کے پچھلے پہر میری آنکھ کھلی ۔ دروازہ کھول کے باہر نکلا تو باہر منظر ہی عجب تھا۔ پانی کی سطح بہت اوپر تک چڑھ آئی تھی اور کمروں کے باہر بنے لان جہاں میں بیٹھا تھا وہ اب دو تین انچ پانی میں تھے۔ سامنے چودھویں کا چاند ٹکا تھا اور پانی دودھیا ہوگیا تھا۔ ایسی وحشت کی رات تھی کہ دل چاہنے لگا جھیل میں ڈبکی لگا کر اس کے پاتال میں اتر جاؤں۔ پورے چاند کی راتوں میں کسی بھی جھیل پر ایسی وحشت طاری ہوجاتی ہے۔ میں اب کبھی کبھی گھر میں بیٹھا سوچتا ہوں کہ چاند سدپارہ پر چمک رہا ہو گا، شاید کوئی میری طرح کا دیوانہ دیکھتا ہو، اور شاید کوئی جھیل میں غرق بھی ہو گیا ہو۔
یہ اسکردو کا ہی خاصہ ہے کہ قدرت نے اسے ہر زیور سے آراستہ کیا۔ جھیلیں، صحرا، دریا، باغات، دنیا کی بلند ترین چوٹیاں، کیا ہے جو اسکردو میں نہیں۔ بالکل بلتی دُلہن کی طرح سجی یہ وادی سر سے پاؤں تک قابلِ دید ہے۔ انسان کی یادوں کا بھی ایک دفتر ہوتا ہے جو کھلتا ہے تو کھلتا ہی چلا جاتا ہے، فائلیں اوپر نیچے لگنے لگتی ہیں۔ سفر میں گزرے روز و شب فلم کی طرح آنکھوں اور دماغ کے پردے پر چلنے لگتے ہیں۔ اسکردو سے جڑی ٹھنڈی یادیں پنجاب کے حبس زدہ موسم میں شدت سے گھیر لیتی ہیں۔
پہاڑوں میں سورج جلدی ڈوب جاتا ہے لیکن کافی دیر تک ہلکی روشنی رہتی ہے۔ سورج غروب ہونے اور رات آنے کے بیچ کافی وقت ایسا ہوتا ہے جیسا بھور سَمے ۔۔۔۔ نہ دن ہوتا ہے نہ رات ۔۔۔ ایسے ہی ایک وقت میں چلتے چلتے رک کر دیکھا تو ایک گھر کی کھُلی کھڑکی سے بلتی بچے نے جھانکا اور اپنے ایک ہاتھ سے بائے بائے کرنے لگا۔ سارے دن کی تھکن سبز آنکھوں والے بچے کی اس حرکت سے ختم ہو گئی تھی، پھر کھڑکی بھی بند ہو گئی۔
اس پہاڑی کچی پگڈنڈی پر دور تک کوئی نہیں تھا، آہستہ آہستہ نیچے وادی میں آباد گھروں کی بتیاں جلنا شروع ہوئیں، دیکھتے دیکھتے وادی ٹم ٹم کرنے لگی۔ رات پھیلی تو پگڈنڈی چھوڑ کر مسافر مرکزی سڑک پر آ گیا۔ سڑک کے دونوں کنارے خشک پتوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ہوا چلی تو پتوں نے کناروں کو چھوڑا اور تارکول کے اوپر رقص کرنے لگے۔ ہوا کے دباؤ سے خشک پتے لڑکھڑاتے جاتے تھے۔
یہ خزاں کا موسم تھا۔ دور کہیں اسپیکروں سے نوحے کی آواز آ رہی تھی۔ محرم کا آغاز تھا تو وادی میں ویسے ہی اداسی تھی۔ خزاں کی افسردہ رات میں دور سے گونجتے بین ماحول کو مزید سوگوار بنا دیتے ہیں۔ میرا دل چاہنے لگا کہ وادی میں ریل کی سیٹی بھی گونجے، لیکن ہمارے شمال میں ریل نہیں چلتی۔ مجھے یاد آنے لگا کہ ایسی ہی سرد افسردہ راتوں میں کئی سال پہلے ریل گزرنے کی آواز سنا کرتا تھا بلکہ جاگ کر ریل کی سیٹی کا انتظار کیا کرتا تھا، سیٹی سنے بغیر نیند نہیں آتی تھی۔ چلتی ریل کی سیٹی، خزاں کے لڑکھڑاتے پتے، بچے کے ہاتھ کا اشارہ، اور فضا میں گونجتا نوحہ یہ سب جدائی کے ہی استعارے تھے۔
خیالوں میں گم چلتے چلتے گلگت بلتستان اسکاؤٹس کی ایک چیک پوسٹ پر بیٹھے جوان نے سیٹی بجائی تو ریل کی سیٹی سے دھیان ٹوٹ گیا۔ پہلے اس نے شناختی کارڈ چیک کیا، پھر بولا "محرم کے دنوں میں چیکنگ زیادہ کرنی پڑتی ہے، معافی چاہتا ہوں، آپ کچھ لے کر تو نہیں چل رہے؟" دل تو چاہا کہ کہہ دوں کہ ہاں لے کر چل رہا ہوں ۔۔۔۔ خیال اور خشک پتے ۔۔۔ پر جواب میں بس زبردستی کا مسکرانا پڑا۔
ہوٹل پہنچا تو منہ دھوتے ہوئے آئینہ دیکھا، بالوں میں پتہ اٹکا تھا۔ مجھے پتہ نہیں کیا سوجھی میں نے وہ میپل کا چھوٹا پتہ اپنے کیمرا بیگ کی ایک جیب میں رکھ دیا۔ ابھی بھی سامنے ہی پڑا ہے۔ کچھ دیر پہلے ریل گزری اور اس کا بھونپو بجا تو نظر خود بخود اس پتے پر چلی گئی جو کمرے کی میز پر رکھا تھا۔
اسکردو کی یادوں کا سمندر ایک بار پھر بپھر چکا تھا۔
لکھاری پیشے کے اعتبار سے نیٹ ورک انجینیئر ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں۔
تبصرے (114) بند ہیں