• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
شائع March 31, 2015

خرم سہیل

پاکستان کی نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) اور ہندوستان کے نیشنل اسکول آف ڈرامہ (این ایس ڈی) کے اشتراک سے ایک کھیل ”تم کون“ تخلیق کیا گیا، جس میں دونوں تعلیمی اداروں کے طلبا نے عملی طور پر شرکت کی۔ اسے ”ناپا انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیول 2015“ میں پیش کیا گیا۔ کھیل کا مرکزی خیال سبق آموز اور مثبت تھا، اس میں ایسے بچوں کی زندگی کو دکھایا گیا، جنہیں والدین کی طرف سے ورثے میں تقسیم شدہ شناخت ملتی ہے، والد کا تعلق ایک، تو والدہ کا تعلق دوسرے ملک سے ہوتا ہے اور اگر یہ دونوں ممالک پاکستان اور ہندوستان ہوں، تو پھر حائل فاصلے مزید بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

اس کھیل میں ایک شادی والا گھر دکھایا گیا ہے، جہاں دونوں ممالک کی شناخت رکھنے والے مہمان شریک ہوتے ہیں اور ان کی گفتگو میں ایک دوسرے کے لیے کیا خیالات ہیں، ان کی جھلک تخلیق کردہ کرداروں میں واضح طور پر ملتی ہے۔ اس ڈرامے میں جو "ٹوبہ ٹیک سنگھ" کے نام سے ایک صورتحال کا بھی تذکرہ کیا گیا، جس میں کسی بھی پریشان کن صورتحال، جس میں ہر چیز آپ کی خواہش کے برعکس ہو رہی ہو، کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کا نام دیا گیا۔ اس ترکیب نے نہ صرف لوگوں کو محظوظ کیا، بلکہ یہ طویل عرصے تک یقیناً لوگوں کے دل و دماغ میں محفوظ بھی رہے گی۔

یوں تو کہنے کو یہ کھیل اکبر چوہدری نے لکھا اور اشوک کمار کے ساتھ ساتھ زین احمد نے ہدایت کاری کے فرائض انجام دیے، لیکن بقول زین احمد جو ناپا انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیول کے ڈائریکٹر ہیں، ان کے مطابق ”اس کھیل کو سب اداکاروں نے مل جل کر لکھا ہے اور اس میں سب اداکاروں کی ہدایت کاری بھی شامل ہے“ یعنی سب نے مل جل کر اس خیال کو عملی جامہ پہنایا۔ اس کھیل کو کھیلنے کی چاہ میں دونوں طرف سے بہت عرصے تک بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ یہ کھیل جس کا نام ”تم کون“ تھا، اپنی معنویت میں سب کچھ بیان کرتا دکھائی دیا۔

اس میں شامل اداکاروں میں دونوں طرف سے پانچ پانچ اداکار شامل تھے، جنہیں اس کہانی پر کام کرنے کے لیے بہت کم وقت ملا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ حاضرین کو یہ محسوس نہیں ہونے دیا گیا کہ یہ کھیل صرف چند دن میں تیار کیا گیا تھا۔ کھیل کو پیش کرتے وقت یہ بھی نہیں بتایا گیا تھا کہ کون اس میں ہندوستانی یا پاکستانی اداکار ہے۔ اس کی وجہ سے شائقین کو شناخت کرنے میں دقت ہوئی، لیکن یہ حاضرین کے لیے بھی آزمائش تھی کہ وہ اس شناخت کے عمل میں شریک ہوں۔

کھیل کے اس امتزاج نے تھیٹر کے دیکھنے والوں کو متاثر کیا۔ کھیل کے اداکاروں میں ایمن طارق، بختاور مظہر، شبانہ یوسف، سنیل شنکر، صاحبہ وج، دھریندر کمار تیواری، گریندر کمار، ببلو گپتا اور اشوک کمار شامل تھے۔

پاکستانی اداکاروں کے بارے میں ہم اکثر لکھتے رہتے ہیں، لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ ہم نے خصوصی طور پر ہندوستان کے نیشنل اسکول آف ڈراما کے طلبا، جو باصلاحیت اداکار بھی ہیں، ان سے گفتگو کی۔ ان کی گفتگو میں ہندوستان میں تھیٹر کے فروغ کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کی نوجوان نسل ایک دوسرے کے بارے میں کیا سوچتی ہے، اس پہلو کی عکاسی ہوتی ہے۔

نیشنل اسکول آف ڈراما سے سند یافتہ صاحبہ وِج نوجوان نسل کی باصلاحیت اداکارہ ہیں۔ انہوں نے 2011 میں تھیٹر کی تعلیم مکمل کی۔ تھیٹر سے ان کا تعلق دوسری دہائی میں شامل ہوگیا ہے۔ فلم اور ٹیلی ویژن کے لیے بھی کام کررہی ہیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ”تھیٹر ایک متحرک فن ہے، جس میں کام کرنے والا چاق و چوبند رہتا ہے، کیونکہ وہ جب تک اس منچ پر کام کر رہا ہوتا ہے، وہ ریاضت کے مرحلے سے گزرتا رہتا ہے۔ اس میں کام کرنے سے ذات کی تشفی بھی ہوتی ہے، اسی لیے ہمارے ہاں انگریزی، ہندی، گجراتی، مراٹھی اور دیگر مقامی زبانوں میں بھی تھیٹر ہوتا ہے، کیونکہ دیکھنے والے اور کرنے والے دونوں کی اس میں شاید تسکین کا پہلو مضبوط ہے۔

"یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہماری فلمی صنعت کے کچھ بڑے اداکار، جیسے نصیرالدین شاہ، اوم پوری، عرفان خان، اور نوازالدین صدیقی وغیرہ نے فلموں میں اداکاری تو کی، لیکن تھیٹر کی محبت کو کبھی چھپایا نہیں اور نہ ہی اس میڈیم سے ناطہ توڑا، اس وجہ سے فلمی صنعت میں تھیٹر کی مقبولیت اور اہمیت میں اضافہ ہوا۔ ہم نئی نسل کے اداکار ان تمام شخصیات کے شکرگزارہیں۔ پاکستان میں کام کرنے کا تجربہ بہت خوشگوار اورعمدہ رہا۔“

دوسرے اداکار گریندر کمار بھی تھیٹر کی تعلیم سے آراستہ اور ایک دہائی سے زیادہ وقت سے تھیٹر سے وابستہ ہیں۔ کالج اور یونیورسٹی کے وقت سے تھیٹر سے وابستگی رہی، پٹیالہ یونیورسٹی سے پنجابی میں ماسٹرز کرنے والے اس باصلاحیت اداکار نے اپنے لیے تھیٹر کو مستقبل کے طور پر منتخب کیا۔ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ”ہندوستان میں فلمی ستاروں کی اولادیں تو اداکاری کے کریئر کا آغاز فلموں سے کرتی ہیں، لیکن ہم جیسے گمنام اداکاروں کو اپنی ابتدا تھیٹر سے ہی کرنا ہوتی ہے، تاکہ ہم اپنی صلاحیتیں منوا کر آگے بڑھ سکیں اور کامیابی حاصل کریں، پھر تھیٹر اداکاری کی بنیاد کو بھی مضبوط کرتا ہے، اس سوچ کے تحت بھی تھیٹر میں کام کرنا ہمارے جیسے اداکاروں کی ترجیح ہوتی ہے۔ پاکستان میں کام کر کے مزہ آیا، آئندہ بھی کرنا چاہوں گا۔“

”اشوک کمار“ کی تھیٹر سے وابستگی کالج کے زمانے سے تھی۔ 2010 میں نیشنل اسکول آف ڈراما سے بھی پیشہ وارانہ تربیت حاصل کی، دو برس سے پاکستان بھی آرہے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا۔ ان کا خیال ہے ”تھیٹر ابلاغ کا ایک ایسا میڈیم ہے، جس میں ہم کرداروں کی زبانی بہت ساری باتیں معاشرے تک پہنچاتے ہیں اور اس کی اپنی ایک تاثیر ہوتی ہے۔ ناپا کے ساتھ کام کر کے اچھا لگا اور ہم سوچ رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں مل جل کر مزید کام کیا جائے۔“

”دھریندر کمار تیواری“ بھی اس تھیٹر گروہ کا حصہ ہیں، جو ہندوستان سے آیا، ان کی تھیٹر سے وابستگی زمانہ طالب علمی سے ہے۔ انہوں نے اس جنون کے حوالے سے بڑی دلچسپ گفتگو کی۔ ”میں ہندوستان کے ایک چھوٹے علاقے سے تھا اور مزید پڑھائی کے لیے دلی آیا۔ میں نے اپنے ایک استاد سے بہت سیکھا، وہ ہندوستانی تھیٹر کے بہت سینئر لوگوں میں سے ایک تھے، تقسیم سے پہلے لاہور میں بھی تھیٹر کی تعلیم دیا کرتے تھے، پھر مجھے نیشنل اسکول آف ڈراما میں بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے تھیٹر کے ذریعے جنوبی ایشیا کی تاریخ کو دوبارہ سمجھا، سرحدوں سے آگے باہمی تعلقات کو محسوس کرنے کا موقع ملا، جیسا کہ میں یہاں آپ کے شہر میں اس وقت موجود ہوں، یہ اسی بات کی علامت ہے۔“

ہندوستان سے آئے ہوئے تھیٹر کے طلبا اور اداکاروں میں شامل ”ببلو گپتا“ بھی ایک باصلاحیت نوجوان اداکار ہیں، جن کا تھیٹر سے طالب علمی کے دور سے تعلق رہا اور اب وہ دیگر اپنے دوستوں کی طرح اسی شعبے میں کریئر بنا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ”مجھے اداکاری کا شوق تھا، جس کے لیے دوستوں کے مشورے سے دلی آیا اور تھیٹر کی تعلیم حاصل کی۔ 2008 میں اپنا پیشہ وارانہ سفر شروع کیا اور اس کے بعد اب تک سیکھنے کا عمل جاری ہے اور کام بھی۔ ایک سنجیدہ رویے کی ضرورت ہوتی ہے، مستقل مزاجی سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ ارادہ ہے کہ آگے بھی اسی طرح کام کروں۔ پاکستان میں کام کرنے کے حوالے سے میرے تجربات بہت اچھے رہے، یہاں کے عوام بہت نفیس ہیں، ان سے ملاقات کرنا اچھا لگتا ہے۔“

ہندوستانی نوجوانوں کو تو پاکستان میں کام کر کے بڑا لطف آیا۔ گذشتہ برس2014 میں بھی ایک ہندوستانی تھیٹر گروپ ناپا کے فیسٹیول میں شریک ہوا تھا، انہوں نے ”ردی بازار“ کے نام سے کھیل پیش کیا تھا، لیکن اس مرتبہ مشترکہ کھیل نے فیسٹیول کو چار چاند لگا دیے۔ ہرچند کہ اس کھیل ”تم کون“ کا اسکرپٹ کمزور تھا، کرداروں میں ربط کی بھی کمی تھی، اس کے باوجود کھیل نے اچھا تاثر چھوڑا کیونکہ اس کھیل کے پیچھے دونوں طرف کے نوجوانوں کے خواب تھے، اس کی تعبیر پانے کے لیے انہوں نے دن رات ایک کردیا۔ یہی جدوجہد پاکستان اور ہندوستان میں تھیٹر کی بقا اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی افہام وتفہیم کی مثبت کڑی ثابت ہوگی۔

فلموں کے اشتراک سے ایک قدم آگے بڑھ کر دونوں ممالک ایک نئے دور میں شامل ہوگئے ہیں، جہاں اداکاری کی بنیاد سمجھے جانے والے میڈیم ”تھیٹر“ میں مشترکہ تخلیق کا خواب پورا ہوا۔ گذشتہ چند برس پہلے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے طلبا بھی ہندوستان میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر کے آئے تھے، شاید یہ اس ریاضت کا ثمر ہے، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے ثقافتی تعلقات استوار ہو رہے ہیں۔ اس سفر کی ابتدا ہوچکی ہے جس میں دونوں طرف کے ممالک کی دو نسلوں کے نمائندے اپنی مشترکہ شناخت کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیے، اور اگر یہ سفر اسی طرح جاری رہا، تو بہت جلد ان نوجوانوں کو اپنی منزل، یعنی دونوں ممالک کے درمیان مضبوط ثقافتی تعلقات، حاصل ہو گی۔

— تمام تصاویر بشکریہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) پاکستان۔