• KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am
شائع March 27, 2015

پاک انڈیا مقابلے کے بغیر کرکٹ بے رنگ

رچرڈ ہیلر اور پیٹر اوبورن

کرکٹ کے ایک ایسے عالمی منظرنامے کا تصور کریں، جہاں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ایشز سیریز صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر نہ ہو پائے۔ اور پھر دونوں ہی ممالک کی ٹیمیں قسمت سے صرف عالمی ٹورنامنٹس میں ہی ایک دوسرے کے مدِمقابل آئیں یا پھر ڈومیسٹک اور کمرشل کرکٹ میں۔ لیکن ایشز سیریز کے بغیر وہ خود کو کبھی بھی عظیم کھلاڑی ثابت نہیں کر سکیں گے۔

یہی انڈیا اور پاکستان کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ ان کے ٹیسٹ مقابلے بالکل ایشز سیریز کی طرح ہی شائقین کو پسند آتے رہے ہیں۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کی طرح ان دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کی کارکردگی کا پیمانہ بھی روایتی حریف کے خلاف ان کی کارکردگی ہی ہے۔ اس میں انڈیا کی جانب سے 2004 میں وریندرا سہواگ کی پہلی ٹیسٹ ٹرپل سنچری شامل ہے۔ جاوید میانداد 1983 میں ہی بنا چکے ہوتے لیکن متنازع طور پر اننگز ڈکلیئر کیے جانے کی وجہ سے نہیں بنا پائے۔ باؤلنگ میں انیل کمبلے نے 1999 میں اکیلے ہی دس کی دس پاکستانی وکٹیں لیں، جبکہ 1980 میں کراچی میں 60 رنز دے کر 8 وکٹیں حاصل کر کے عمران خان نے تاریخ کے بہترین باؤلنگ اسپیلز میں سے ایک پیش کیا۔ یہاں تک کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان پہلی دہائی میں برابر ہونے والے میچز میں بھی ایک بہترین کوالٹی موجود ہے۔

انڈیا پاکستان ٹیسٹ سیریز (جنہیں ابھی تک اسپیشل نام نہیں دیا گیا) کی تاریخ ایشز سے کہیں مختصر ہے۔ یہ 1952 میں شروع ہوئی لیکن اس سے ایشز کے مقابلے میں کہیں گہرے جذبات وابستہ ہیں۔ یہ صرف کھیل کا مقابلہ نہیں، بلکہ قومی شناخت کا مسئلہ بن چکا ہے، اور اسی وجہ سے اس پر سیاست آسانی سے اثرانداز ہو سکتی ہے۔

1961 سے 1978 تک مستقل کشیدگی اور دو جنگوں کی وجہ سے دونوں ہی ٹیموں نے کوئی میچ نہیں کھیلا (1975 کے افتتاحی ورلڈ کپ میں دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کے مدِ مقابل نہیں آسکیں)۔ لیکن اس کے بعد نسبتاً کم تناؤ والا دور آیا جس میں 1978 سے 1985 کے درمیان 20 ٹیسٹ اور 11 ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیلے گئے۔

لیکن 1990 کی دہائی میں ایک بار پھر کرکٹ تعطل کا شکار رہی۔ ٹیسٹ کرکٹ 1999 میں دوبارہ کھیلے گئے لیکن کارگل تنازع کے بعد یہ سلسلہ پھر بند ہو گیا۔

2004 سے 2007 کے درمیان ایک بار پھر برف پگھلی، اور 12 ٹیسٹ میچ اور 24 ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیلے گئے۔ لیکن 2008 میں ممبئی حملوں اور 2009 میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملوں کے بعد ٹیسٹ تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہوئے، جن کو اب آٹھواں سال چل رہا ہے۔

سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد سے پاکستان نے اپنے تمام 'ہوم' میچز متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر کھیلے، جہاں انڈین ٹیم نہیں گئی۔ پاکستان دسمبر 2012 میں 3 ون ڈے کھیلنے انڈیا گیا تھا، لیکن دونوں ممالک کے درمیان اس کے بعد سے کوئی دو طرفہ میچ نہیں کھیلے گئے ہیں۔

پاکستان کے لیے انڈیا کے ساتھ کرکٹ تعلقات میں کشیدگی نے نہ صرف ثقافتی اور جذباتی محرومی کو جنم دیا ہے، بلکہ پاکستان کو مالیاتی نقصان بھی پہنچا ہے، کیونکہ میچز کی نشریات سے حاصل ہونے والا بے پناہ ریوینیو اب نہیں مل رہا۔

ہمارے حساب کے مطابق پی سی بی کو اس سے 9 کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ یہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی نئی سیٹنگ 'بگ تھری' سے پہلے کی بات ہے، جس میں انڈیا، انگلینڈ، اور آسٹریلیا نے ورلڈ کپ اور دیگر کثیر الملکی ٹورنامنٹس کے حقوق سے حاصل ہونے والے ریوینیوز پر سب سے زیادہ شیئر حاصل کر لیا ہے، اور ٹیسٹ میچ کھیلنے والی دیگر ٹیموں کا حق چھین لیا ہے۔ آئی سی سی سے ریوینیو کا بہت تھوڑا سا حصہ ملنے کی وجہ سے پاکستان کے لیے انڈیا کے ساتھ کرکٹ کے دو طرفہ تعلقات کی بحالی ضروری ہو گئی ہے۔

گذشتہ سال مئی میں ایسا کچھ ہوتا ہوا نظر آیا، جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے اعلان کیا کہ پاکستان کی انڈیا کے ساتھ مستقبل کے دوروں کے حوالے سے ایک یادداشت طے پا گئی ہے، جس کے مطابق پاکستان رواں سال دسمبر میں متحدہ عرب امارات میں 'میزبانی' کرے گا۔

لیکن یادداشت حتمی مرحلے تک پہنچنے کے لیے قانونی معاہدے کا انتظار ہی کرتی رہی، کیونکہ اس کے اعلان کا وقت کافی غیر یقینی تھا، نریندرا مودی کے وزیرِ اعظم بننے سے صرف چند دن پہلے۔ اس قانونی معاہدے پر اب بھی دستخط ہونے باقی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مسئلہ ہندوستانی حکومت کے رویے کے ساتھ ہے، حالانکہ وزیرِ اعظم مودی نے کئی دوستانہ عندیے بھی دیے ہیں، جن میں ورلڈ کپ میں پاکستان اور انڈیا کے میچ سے پہلے پاکستانی ٹیم کے لیے گڈ لک کا پیغام بھی شامل ہے۔

حال ہی میں پی سی بی نے اپنے چیئرمین شہریار خان کو بھیجا تاکہ وہ معاملے کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے کوشش کریں۔ یہ انتہائی تجربہ کار ڈپلومیٹ کسی بھی شخص سے زیادہ اس پوزیشن میں ہیں کہ اس معاملے پر پیش رفت کروا سکیں۔ پی سی بی کی سربراہی کے اپنے پچھلے دور میں انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان ایک شاندار سیریز کروائی، جو 2004 میں پاکستان میں ہوئی تھی۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان میچ کے بغیر دونوں ٹیموں کے کھلاڑی ماضی کے کھلاڑیوں کے ہم پلہ نہیں کہلوا سکتے۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان میچ کے بغیر دونوں ٹیموں کے کھلاڑی ماضی کے کھلاڑیوں کے ہم پلہ نہیں کہلوا سکتے۔

شہریار نے بورڈ کو بتایا کہ بی سی سی آئی کے چیئرمین جگموہن ڈالمیا (دوسری بار چیئرمین) اور دیگر بی سی سی آئی عہدیداروں کے ساتھ ان کی ملاقاتیں مثبت رہی ہیں، لیکن اس بات پر بھی زور دیا کہ بی سی سی آئی کو اپنی حکومت سے اجازت کی ضرورت ہے، اور جب تک ایسا نہیں ہوتا، تب تک مستقبل میں کسی بھی سیریز کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی، اور پاکستان قیمتی میڈیا حقوق نہیں بیچ سکے گا۔

لیکن وہ پرامید بھی ہیں اور انہوں نے ہندوستانی خواتین ٹیم کے دورہ پاکستان کا بھی امکان ظاہر کیا، جس سے مرد کرکٹ ٹیم کو ملکی سکیورٹی صورتحال کی بہتری کا سگنل جائے گا۔ شہریار اے ٹیم اور جونیئر ٹیم کے دوروں کے حوالے سے بھی پر امید ہیں۔

انڈیا پاکستان مقابلوں میں کرکٹ ڈپلومیسی اہمیت کی حامل رہی ہے، لیکن غیر تعمیری طرح سے۔ لیکن اب مودی کے پاس موقع ہے کہ وہ معاملات کو بہتر بناتے ہوئے بی سی سی آئی کو ٹور پروگرام کی اجازت دے دیں۔ اس سے نہ صرف پاکستان کو مالیاتی اور جذباتی فائدہ پہنچے گا، بلکہ انڈین ٹیسٹ ٹیم کو بھی نئی زندگی ملے گی، کیونکہ ویسے میڈیا صرف آئی پی ایل اور چھوٹے فارمیٹ پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

انڈیا اور پاکستان کے حکام اس غیر یقینی دور میں ایسا کوئی بھی مقابلہ کروا کر شائقین کے جذبات بڑھانا نہیں چاہتے، اور وہ حق بجانب ہیں کیونکہ یہ ایسا دور ہے جب دونوں ہی ممالک کو الگ الگ طرح کے مذہبی اور سیاسی انتہاپسندوں کا سامنا ہے۔ ماضی میں بھی کھلاڑیوں کے ساتھ بدتمیزی کی گئی ہے، انہیں دھمکیاں دی گئیں، پتھر مارے گئے، اور گھیراؤ کیا گیا، صرف اس لیے کیونکہ وہ حریفوں کے خلاف اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے۔

لیکن انڈیا پاکستان سیریز کو دونوں ممالک کے شائقین نے امن اور بھائی چارے کے مثبت پیغام بھیجنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔

یہ پاکستان کے پہلے دورہ ہندوستان (52-1951)، اور 55-1954 میں ہندوستان کے جوابی دورہ پاکستان کے دوران ہوا۔ پاکستانی حکام نے ہندوستانی شائقین کو خصوصی 'کرکٹ ویزا' جاری کیے، اور مقامی افراد کی جانب سے انہیں اکثر مفت کھانا، رہائش، اور ٹیکسی کی سہولت مہیا کی جاتی رہی۔ 2004 میں بھی مہمان نوازی کی یہی مثال دیکھنے میں آئی، شہریار خان کو یاد ہوگا۔ ٹور کے اختتام پر ہندوستانی ہائی کمشنر نے شہریار خان کو کہا کہ 20،000 کرکٹ شائقین پاکستان آئے تھے، لیکن آپ نے انہیں ہندوستان میں 20،000 پاکستانی سفیر بنا کر واپس بھیجا ہے۔

زندگی تبدیل کرنے والے یہی واقعات دوبارہ دہرانے کی ضرورت ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ کرکٹ کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اتحاد، محبت، اور صحتمند مقابلے کو بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کیا جائے۔


رچرڈ ہیلر دو کتابوں A Tale of Ten Wickets اور The Network کے مصنف ہیں۔ پیٹر او بورن برطانوی اور عالمی سیاست پر اعلیٰ پائے کے مبصر ہیں۔ وہ Basil D'Oliveira اور Cricket And Conspiracy: The Untold Story کے مصنف ہیں۔ رچرڈ ہیلر کی معاونت سے انہوں نے 2014 میں Wounded Tiger کے نام سے پاکستان کی کرکٹ تاریخ پر ایک جامع کتاب شائع کی۔

رچرڈ ہیلر
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
پیٹر اوبورن
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔