مچھ جیل : خوف و دہشت کا نشان
بلوچستان کے ضلع بولان میں واقع مچھ جیل کی جانب جانے والی شاہراہ پر سے گزرنے والے ہر راہ گیر کو مسلح محافظ کی کڑی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مچھ جیل جسے برطانوی عہد میں 1929 میں تعمیر کیا گیا، ہمیشہ سے خوف و دہشت کا نشان سمجھی جاتی رہی ہے۔
خطرناک اور ہائی پروفائل قیدیوں کو ہمیشہ مچھ جیل لایا جاتا رہا ہے جو کہ انہیں دی جانے والی سخت سزا کا حصہ ہوتا ہے۔
غیراطمینان بخش سکوت اور خوف کی فضاء یہاں آنے والوں پر نفسیاتی اثرات مرتب کرتا ہے، لمبی اور بہترین اندازسے تعمیر شدہ دیواریں ڈر کی علامت نظر آتی ہیں۔
جیل سپریٹینڈنٹ اسحاق زہری نے ڈان کو بتایا کہ 1978 کے بعد سے اب تک 61 قیدیوں کو مچھ جیل میں پھانسی پر لٹکایا جاچکا ہے جن میں ایک بلوچ قوم پرست شخصیت حمید بلوچ بھی شامل ہیں۔
جیل عہدیدار کے مطابق بیشتر افراد کو تختہ دار پر ضیاء کے مارشل لاء کے دوران لٹکایا گیا۔
— محمد خان ہمدرد |
مچھ جیل کے باہر کا منظر— محمد خان ہمدرد |
مچھ جیل کے باہر کا منظر— محمد خان ہمدرد |
پھانسی پر عملدرآمد کے قبل مچھ جیل کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے— محمد خان ہمدرد |
یہ جیل سکوت میں ڈوبے قصبے مچھ میں واقع ہے جس میں صولت مرزا سمیت 845 قیدی موجود ہیں، صولت مرزا کو انیس مارچ کی صبح ساڑھے پانچ بجے عدالتی احکامات کے تحت پھانسی دی جائے گی۔
صولت مرزا کو سزائے موت 1998 میں کراچی الیکٹرک سپلائی کے سربراہ شاہد حامد، ان کے محافظ اور ڈرائیور کو قتل کرنے پر سزائے موت دی گئی تھی، جبکہ اس کی گرفتاری 1999 میں وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ہوئی تھی۔
کراچی کی ایک انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کی جانب سے صولت مرزا کے بلیک وارنٹ جاری کیے جانے کے بعد سے جیل کی سیکیورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے۔
مچھ جیل کی جانب جانے والی تمام شاہراہوں کو بلاک کردیا گیا ہے، جبکہ داخلی اور خارجی تمام مقامات پر خاردار تاریں لگادی گئی ہیں کہ جیل توڑنے کی کسسی ممکنہ کوشش یا بدقسمت واقعے کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جاسکے۔
جیل سپرنٹنڈنٹ کے مطابق " ہم نے صولت مرزا کے بلیک وارنٹس جاری ہونے کے بعد سے سیکیورٹی انتظامات کو دوگنا بڑھا دیا ہے"۔
انہوں نے مزید بتایا کہ فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکار ہر وقت جیل کے گرد گشت کرتے رہتے ہیں۔
صولت مرزا کی اہلیہ اور بہن نے اس سے جیل میں تفصیلی ملاقات کی ہے۔
ڈان کی درخواست کے باوجود صولت مرزا کی اہلیہ اور بہن نے بات کرنے سے انکار کردیا تاہم وہ مسلسل موبائل فون پر کراچی میں اپنے رشتے داروں سے مقدمے کے حوالے سے معلومات حاصل کرتی رہیں۔
صولت مرزا کی اہلیہ نگہت جعفر ملک نے ڈان کی جانب سے شوہر سے ملاقات پر تبصرہ کرنے کی درخواست پر کہا " معذرت کے ساتھ میں آپ سے بات نہیں کرسکتی"۔
یہ جیل اہم بلوچ، پختون، سندھی قوم پرست رہنماﺅں اور ملک بھر کے دیگر ہائی پروفائل سیاسی رہنماﺅں کے قیام کی وجہ سے مشہور ہے، ان میں نمایاں ترین افراد میں پرنس عبدالکریم، خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی، نواب اکبر خان بگٹی، غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر اور دیگر شامل ہیں۔
برطانوی سامراجی حکمران اور پاکستان کے فوجی حکمران مچھ جیل کو اپنے مخالف سیاسی حریفوں کو قید میں رکھنے کے لیے استعمال کرتے تھے تاکہ انہیں سیاسی جدوجہد سے دستبردار کرایا جاسکے اور ان کی آوازوں کو دبایا جاسکے۔
معروف بلوچ دانشور اور نیشنل پارٹی کے سنیئر نائب صدر طاہر بزنجو نے ڈان کو بتایا " یہ جیل برطانوی راج کی بدترین یادگاروں میں سے ایک ہے" ۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ جیل ایک الگ تھلگ اور کم آبادی والے علاقے میں قیدیوں کو سزا دینے کے لیے تعمیر کی گئی، بدترین سزا کے لیے قیدیوں کو ہمیشہ مچھ جیل منتقل کیا جاتا تھا تاکہ وہ سبق سیکھ سکیں۔
طاہر بزنجو کے مطابق برطانوی حکمرانوں کو بلوچوں کی مشکلات کی کوئی پروا نہیں تھی اور ان کی توجہ صرف امن و امان پر مرکوز تھی اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اس خطرناک جیل کو تعمیر کیا۔
قوم پرست رہنماﺅں کے ساتھ ساتھ ضیاء دور میں پیپلزپارٹی کے سنیئر رہنماﺅں اور ورکرز کو بھی مچھ جیل منتقل کیا گیا تھا۔
بلوچستان کے محکمہ جیل خانہ جات کے ذرائع کے مطابق اس وقت سزائے موت کے منتظر 92 قیدی مچھ جیل میں موجود ہیں، رحم کی تیرہ اپیلیں صدر مملکت کے پاس زیرالتواءہیں، 37 مقدمات سپریم کورٹ جبکہ 41 بلوچستان ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہیں۔
مچھ جیل میں آخری بار 27 اکتوبر 2007 کو بلوچستان کے علاقے بلیدا کے رہائشی محمد امین کو پھانسی پر لٹکایا گیا تھا۔
صولت مرزا قومی ایکشن پلان کے اعلان کے بعد مچھ جیل میں سزائے موت پانے والا پہلا قیدی ہوگا۔
صولت مرزا کی بہن کی جانب سے سزائے موت کو چیلنج کرنے والی درخواست کو سپریم کورٹ نے منگل کو مسترد کردیا تھا۔
روزانہ کے 100 سیگریٹ
صولت کی سیکیورٹی تعینات جیل وارڈن لقمان نے ڈان کو بتایا کہ بلیک وارنٹس کی خبر ملنے کے بعد سے صولت روزانہ سو سے زائد سیگریٹس پینے لگا ہے۔
جیل وارڈن کا کہنا تھا کہ یہ ہائی پروفائل قیدی بے خواب راتیں گزار رہا ہے اور مسلسل اپنے رشتے داروں کے بارے میں پوچھتا رہتا ہے۔
جیل کے قوانین کے مطابق صولت مرزا کی چوبیس گھنٹوں میں تین بار تلاشی لی جاتی ہے تاکہ وہ خود کو نقصان نہ پہنچا سکے، جبکہ منگل کو جوڈیشل مجسٹریٹ مچھ ہدایت اللہ محمد شاہی اور دیگر سنیئر پولیس حکام نے مچھ جیل کا دورہ کیا اور صولت کی پھانسی کے حوالے سے سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا۔
صولت مرزا کی فیملی مچھ جیل کے باہر کھڑی ہے — محمد خان ہمدرد |
صولت کی جانب سے بدھ کو اپنا بیان یا وصیت جوڈیشل مجسٹریٹ اور جیل سپریٹینڈنٹ کے سامنے ریکارڈ کرائے گا، اسحاق زہری بتاتے ہیں " ہم صولت کا بیان ٹرائل عدالت کو ارسال کردیں گے اور ہم اسے عوام کے سامنے نہیں لائیں گے"۔
جیل کے قوانین کے مطابق جیل سپریٹینڈنٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ بارہ افراد کو پھانسی کی سزا کا عمل ہوتے دیکھنے کی اجازت دے سکیں۔ جیل انتظامیہ پہلے ہی شاہد حامد سمیت دیگر تین مقتولین کے خاندانوں سے رابطہ کرچکے ہیں تاکہ وہ پھانسی کو دیکھ سکیں۔
تاہم متاثرہ خاندانوں نے اس حوالے سے جیل انتظامیہ کو جواب نہیں دیا ہے۔
تبصرے (12) بند ہیں