• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

قوم کو بھکاری مت بنائیے!

شائع March 8, 2015 اپ ڈیٹ July 2, 2015
مفت میں انعام بانٹنے کے بجائے حاضرین کی ذہنی استعداد جانچ کر انعام دیے جانے چاہیئں —   رائٹرز فوٹو
مفت میں انعام بانٹنے کے بجائے حاضرین کی ذہنی استعداد جانچ کر انعام دیے جانے چاہیئں — رائٹرز فوٹو

ہمارے ٹی وی چینلز ہر وقت ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال مارننگ شوز تو تھے ہی؛ ایک چینل پر جب کسی مارننگ شو میں شادی سیزن شروع ہوتا تھا تو تمام چینلز رسموں اور دھوم دھڑکے کی ریس میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتے تھے۔ ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ دینے کی اسی ریس میں ایک نیا ٹرینڈ گیم شوز کا ہے جہاں لاکھوں روپے کے انعامات اور بیش قیمت مصنوعات شرکاء کو کبھی کچھ بے مقصد گیمز کھلاِ کر تو کبھی یونہی بانٹ دیے جاتے ہیں۔

گیم شوز کے اس ٹرینڈ کا آغاز ایک ٹی وی چینل کی رمضان نشریات سے ہوا جسے بعد میں دیگر چینلز نے بھی اپنی رمضان نشریات کا حصّہ بنا لیا کیونکہ اس وقت اس چینل کی رمضان نشریات کی بڑھتی ہوئی ریٹنگز تمام چینلز کے لیے باعثِ تشویش تھیں۔ بعدِ ازاں جب اس چینل نے اس گیم شو کو اپنی عمومی نشریات کا حصّہ بنانے کا اعلان کیا تو دیگر چینلز نے بھی اس آواز پر لبّیک کہنا اپنا فرضِ اوّلین سمجھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہر بڑے انٹرٹینمنٹ چینل پر مختلف نامور ٹی وی ستارے گیم شوز پیش کرتے نظر آ رہے ہیں۔

مجھے تشویش گیم شوز کی فراوانی یا انعامات کی تقسیم پر نہیں، اور نہ ہی میں کسی کو ملنے والے انعامات پر ناخوش ہوں، بلکہ اصل حیرت، پریشانی اور سوچنے کا مقام یہ ہے کہ انعامات دیے بلکہ "بانٹے" کسِ انداز میں جا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں گیم شوز پیش کیے جاتے ہیں اور شائقین اور ناظرین کی بڑی تعداد انِ سے محظوظ ہوتی ہے، لیکن ایسے تمام پروگراموں میں یا تو شرکاء اپنی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہیں یا پھر اپنی ذہنی صلاحیتوں اور استعداد کو بروئے کار لا کر خود کو انِ انعامات کا صحیح حقدار تسلیم کرواتے ہیں۔

دور کیوں جائیں؟ پڑوسی ملک بھارت ہی کی مثال لے لیجیے جہاں "کون بنے گا کروڑپتی"، جسِ میں شریک افراد اپنی ذہانت کے بل پر کروڑوں روپے جیتتے ہیں، کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا ہے، اور عوام کو اِس شو کا نیا سیزن شروع ہونے کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔ نوجوان نسل کے لیے پیش کیا جانے والا "بورن ویٹا کوئز کانٹیسٹ" بھی کامیابی کی ایک ایسی ہی مثال ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستانی قوم میں ذہانت، صلاحیت اور ذہنی استعداد کی کمی ہے؟ یا ہم اپنی قوم کو "آسان حصول" اور"easy money" کا عادی بنا رہے ہیں؟

بظاہر یہ بات محض کسی گیم شو میں "QMobile چاہیے" کا جملہ ہو یا "ابوّ کے لیے یونیک بائیک چاہیے" کی پکار، یہ کسی ٹریفک سگنل پر ایک فقیر کی جانب سے "ایک روٹی دلاِ دیں باجی!" کی مانگ کے عین برابر ہے۔

اِن گیم شوز میں آنے والے خاندانوں کی اکثریت متوّسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہوتی ہے۔ چند انعامات کے لیے اپنی عزتِ نفس اور خودداری کو داؤ پر لگانا، انعامات کے حصول کے لیے آوازیں لگانا اور چھینا جھپٹی میں حصّہ لینا ایک ایسا شرمناک منظر لگتا ہے جسِ پر کسی بھی ذی ہوش اور خوددار شخص کا سرشرم سے جھک جائے۔ یہی نہیں بلکہ شرکاء کا ایسے مضحکہ خیز مقابلوں میں حصّہ لینا یا میزبان کی جانب سے کیے گئے کسی احمقانہ مطالبے کو تسلیم کرنا بھی اتنا ہی عجیب و غریب اور ناقابلِ دید منظر نظر آتا ہے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ رہی سہی کسر میزبان کے انعامات تقسیم کرنے کے صوابدیدی اختیارات پورا کر دیتے ہیں۔ "باجی! ذرا مسکرا کر دکھائیں! واہ! باجی کی مسکراہٹ پر ایک Mobile" اور "آنٹی، چلیں، یہ یونیک کی بائیک میری طرف سے، آپ کے اور انکل کے لیے، انکل، آنٹی کو لے کر جائیے گا آئسکریم کھلانے" کچھ ایسے ہی مثالیہ جملے ہیں جن پر شرکاء خوش ہوتے اور قہقہے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس قسم کی سستی تفریح اور بقول ایک میزبان "خوشیاں بانٹنے کی روایت" محض ہماری اخلاقی پستی اور مفت انعامات کے حصول کی بے انتہا بھوک کی نشاندہی کرتی ہے۔

اس وقت جب ہر چینل انعامات بانٹنے کی اس ریس میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے نت نئے راستے تلاش کر رہا ہے، کیا ہمارے دانشوروں، تعلیم یافتہ طبقے، سماجی اداروں اور تنظیموں میں سے ایسا کوئی نہیں جو اس پر آواز اٹھا سکے؟ یا آواز اٹھانے والوں کو خوشیوں کا دشمن قرار دے کر چپ کروا دیا جائے گا؟ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جو عوام کی خودداری کو ٹھیس پہنچائے بغیر انہیں انِ انعامات کے حصول کی راہ دکھا سکے؟ انعامات بانٹیے! لاکھوں نہیں، کروڑوں روپے دیجیے مگر بھیک کی طرح نہیں، خیرات کی طرح نہیں۔

میرا خیال ہے کہ اگر پاکستان میں بھی کون بنے گا کروڑپتی طرز پر ذہنی استعداد جانچنے والے سخت مقابلوں کا اہتمام کیا جائے، تو ہمارے ذہین ہموطن اس میں بھی زبردست انعامات سمیٹ سکتے ہیں۔

یہ مانا کہ تفریحِ طبع ضروری ہے مگر جس طرح ہمارے گیم شوز میں انعامات بے تکے سوالات اور مقابلوں کے بعد انعام اچھالے جاتے ہیں، ایسا دنیا کے کسی ملک کے کسی گیم شو میں نہیں ہوتا۔

عوام میں، شرکاء میں یہ احساس بیدار کیجیے کہ انہوں نے یہ انعام اپنی ذہانت یا استعداد کے بل پر پروقار انداز میں حاصل کیے ہیں۔ ان میں بھکاری ہونے، ہاتھ پھیلانے اور انعام مانگنے کی تحریک کو ختم کیجیے۔ کوئز پروگراموں، کسوٹی، تقریری مقابلوں، جنرل نالج اور آئی کیو کو بروئے کار لانے والے سوالوں اور مقابلوں کو پروان چڑھائیے۔

پروگرام کے دوران شور و غلغلے اور ہنگامے میں اضافے کے لیے شرکاء میں ایک دوسرے کو پچھاڑ کر جواب دینے کی ریت ڈالنے کے بجائے تمیز و تہذیب کی روایت ڈالیے، اگر تہذیب کا دامن تھامے رکھنا مقصد ہے تو۔

شاذیہ کاظمی

شاذیہ کاظمی ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ٹی وی ڈرامے اور ریڈیو پروگرامز بھی تحریر کیے ہیں۔ انِہیں دو PAS ایوارڈز بھی ملِ چکے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: shaziya@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (27) بند ہیں

Sharminda Mar 08, 2015 05:17pm
Afoos ki baat yeh hai keh bazahir sufaid poosh nazar aanay waalay loag bhi in shows main ulti seedhi harkatain karnay par raazi ho jaatay hain. Is baat say andaza hota hai keh qoam kis simt main aagay jaa rahi hai. Main aap kay tajziay say mukamal itefq karta hoon. Media ka yeh role nehayat na munasib hai.
NAEEM KHAN Mar 08, 2015 05:25pm
بلکل صحیح تجزیہ کیا آپ نے۔ حیرت ہوتی ہے جب بزرگ ، خواتین ، بچے انعامات کے لیے چیختے ہیں۔ جب مفت میں چیزیں لوگوں کی طرف پھینکی جاتی ہے۔ یہ بھکاری ہی تو سمجھتے ہیں پاکستانی قوم کو۔۔ سول سوسائٹی اور دانشوروں کو ان پروگرامز کے خلاف لکھنا اور جدوجہد کرنا چاہیے۔
Shahbaz Hussain Mar 08, 2015 06:07pm
100% right keep it up i am with you?
وسیم بن اشرف ملتان Mar 08, 2015 06:54pm
شاذیہ کاظمی صاحبہ قوم کو بھکاری مت بنائیے آپ کی ایک خوبصورت اور حسب حال تحریر ہے،آپ نے پروگراموں کی بہترین عکاسی کی ہے اس شاندار تحریر پر میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں
Muhamamd Tayyab Mar 08, 2015 07:11pm
.This is a true picture of today's TV shows. Where are the educated people and intellectual of these channels. Why PAMRA is not taking any action ? Nelam Ghar and Kasotee like programs were PTv's pride. These channels should start inter universities, colleges and even inter cities competitions and give scholarships for education to the students against there win. Govt,. must take immediate action as well as the owners of the channels for the sake of the country.
عدنان نقوی Mar 08, 2015 08:19pm
بات یہ ہے کہ ۔۔ شاید ان گیم شوز کے کرتا دھرتا یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ۔۔ ہماری قوم ۔ ہمارے نوجوان دہنی طور پر بانجھ ہو چکے ہیں ۔۔ تاریخ ۔ فلسفہ ۔ ساینس ۔ معاشیات ۔ سیاسیات ۔ فلکیات اور دیگر جدید علوم ہمارے بس سے باہر ہو چکے ہیں ۔۔ اس لیے کچھ پوجھا بیکار ہے ۔۔ بس لٹا دو ۔۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ بھکاریوں کی طرح ہاتھ پھیلانے والوں کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ ۔۔ وہ بھی ایک نئی قسم کے بھکاری ہیں ۔۔ جدید بھکاری ۔۔
محمد ارشد قریشی Mar 08, 2015 08:48pm
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہاں انھیں تھوڑی چیخ پکار کرنے کے بعد جو چیزیں انھیں انعام کی صورت میں مل جاتی ہے وہ عام طور پر ان کی دسترس میں نہیں آتیں ۔ ان شوز میں آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ زیادہ تر متوسط طبقے کے لوگ ہوتے ہیں اور بعض تو ایک انعام کے حصول کی خاطر میزبان کے حکم پر وہ کرتب دکھاتے ہیں گویا میزبان ایک مداری ہو ۔
Amir Nawaz Mar 08, 2015 09:43pm
بہت عمدہ۔۔۔ اور بہت کم اہلِ علم نے اس پر آواز اٹھائی ہے۔۔۔
ابوبکر بلوچ Mar 09, 2015 09:55am
محترمہ کاظمی نے انتہائی عمدہ انداز میں معاشرتی زوال کی جانب جاتے ہمارے سماجی ڈھانچے کی نشاندہی کی ہے،، لیکن آئینہ جو دکھایا تو برا مان گئے کے مصداق بعض کو یہ بات نہیں بھائے گی،، اب شاید اس تعمیری تنقید پر اصلاح کے بجائے بعض معاشرتی ٹھیکیدار اور کارپوریٹ میڈیا کے ایلیٹ کرتا دھرتاؤں کو برا لگے گا لیکن حقیقت یہی ہے ،، بہر کیف بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی ،، کیوں کہ ایک امریکی اٹارنی جنرل جو کہا آج اس کی حقیقی شکل ہمارے معاشرے کی عکاسی کرنے لگا ہے ،، شکریہ
omairali18@ Mar 09, 2015 10:06am
agree with writer, no one talks about these stupidities
Momna Mar 09, 2015 10:13am
My father was recalling the day when he used to watch kasuti and the winner only got a book as a reward.
Ms Lashari Mar 09, 2015 11:11am
100 % AGREED
shahla Mar 09, 2015 12:14pm
Hamary Mazhab aur muashrey ke rewayat k khalaf hy people like a beggar and they dnt know that this inam is may be a company give as ZAKAT pl all of us think about it
زبیر آفریدی Mar 09, 2015 02:17pm
بلکل صحیح تجزیہ کیا آپ نے۔۔۔یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے۔۔۔پیمرا کو چاہیے کہ ان جیسے شوز پر فوران پابندی لگا دینی چاہیے۔۔۔رب کعبہ ہمارے وطن پاک پر رحم فرما۔۔۔۔
سہیل یوسف Mar 09, 2015 10:17pm
آپ سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔
muhammmad usman Mar 10, 2015 12:43am
very nicely said .well thought off article.we have no policy guidelines for our insane media.there is no culture of respect,position,qualification and wisdom.it just the thorny language and cheep movements that will make any body a hero..
Asif Mustafa Mar 10, 2015 01:19am
Respected Shazia After reading this all, i'm glad to see that we are not fully dead. Our Media is one of the key factors for what is going on in our society. One must stand against this non sense. Stay blessed and do keep writing. Best regards Raja Asif Mustafa
sana Mar 10, 2015 03:58am
اس پروگرام سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وطن عزیر میں تعلیم کتنی کم ہو چکی ہے - انڈیا جیسے شو "کون بنے گا کڑورپتی" پاکستان میں ہو تو سکتے ہیں جواب دینے والے بھی ہیں مگر اگر ایسے لوگ صرف بیس فیصد ہیں باقی اسی فیصد کو ان بیس فیصد کو دیکھنے سے کویٰ دلچسپی نہیں ہے کیوں کے یہ تعلیمی شو جیسا ہو گا- لیکن جو کچھ ہو رہا ہے یہ ملک کا اسی فیصد ہے اب آپ بیس فیصد خون جلانے کے سوا کئچھ نہیں کر سکتے کیوں کے یہ سب جہوریت کا انتقام ہے !!!!!!!!!!!
falak Mar 10, 2015 02:58pm
very nice.....i appreciate it
Fahim Ahmed Mar 10, 2015 07:05pm
Excellent article
rizwan Mar 11, 2015 04:20pm
sach, bohat acha tajzia, Allah reham karay hamaray mulk per :(
Wajeeh Uz Zehra Naqvi May 13, 2015 07:11pm
@Sharminda u r ri8 sis ..... bhekari bna dalla qOum kOo .. r qOum b mehzoOz ho rhi in say ... :'( :(
Jahanzaib qureshi May 13, 2015 11:15pm
boht zabardast ...dil ki baat kahi hai apne .. mujhe afsoos is baat ka hota hai k mere walden jinhon ne hamari tarbiyat esi ki k kabi hath na phelana chahe bhooke reh lena .. aj wo log har roz yeh hi aah bhar rahe hain k kash hamen bhi chance mil jaye hum inse bhi behtar kar sakte hain ....
Junaid Jul 02, 2015 06:43pm
Hello Shazia, I don't think so that game shows should be criticized which are offering gifts to their viewers and participants. They do raise questions and sometimes they offer gifts courtesy to deserving people, like they do offer Umra tickets to oldies and poor. So I don't believe they should be criticized. On the other hand if you didn't host's attitude, you can mark a question then..
Muntazir MEHDI Jul 03, 2015 12:11am
True the media is not in control of any authority, which can regularize it, do something positive rather than this kind of rubbish.
sheikh Aamir Jul 03, 2015 01:40am
Aap theak keh rhy hn Namaz k bhajay yeh log bhakari bna rhy hn. Sham ko yeh log chanda mang rhy hotay hn ar rat ko bike car dhy rhy hoty hn.
Ammara Jul 03, 2015 08:11am
I completely agree. We have arguably some of the worst media channels in the world . They portray Pakistan as a nothing country. I work with foreigners and when a first timer comes, they are amazed that how beautiful and welcoming it is. The channels were done bad mouthing the country so now they are degrading the nation. I have never seen a game show on Indian or western channels that has a chaotic stupid hooplah going on where you can barely understand who is saying what. And people who disagree with the author, I would like to ask them if they want the gifts thrown at them from even a friend, let alone a game show host. We as a society are very prone to destructive trends and very resistant to constructive changes. It's about time that we open our eyes, raise our voice and act as ONE!

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024