'ضیا کی جگہ مجید ملک کا تقرر کرتے تو بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی'
اسلام آباد: پنجاب کے سابق گورنر غلام مصطفٰے کھر نے آج یہ انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو انہون نے مشورہ دیا تھا کہ وہ لیفٹننٹ جنرل عبدالمجید ملک کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کریں۔تاہم کھر کے ساتھ ان کے اختلافات بڑھنے کے بعد، بھٹو نے اپنا ذہن تبدیل کرلیا اور ضیاءالحق کا انتخاب کرلیا۔
کھر نے کہا ’’اگر بھٹو نے عبدالمجید کا تقرر کیا ہوتا، تو انہیں پھانسی نہیں دی گئی ہوتی۔‘‘
چھیانوے برس کے ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل عبدالمجید ملک کی خودنوشت ’ہم بھی وہیں موجود تھے۔ داستانِ حیات‘ کی رونمائی کے موقع پر غلام مصطفٰے کھر نے کہا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری کے لیے ان کے ساتھ مشورہ کیا تھا۔
کھر نے کہا ’’میں نے عبدالمجید ملک کا نام پیش کیا، جسے بھٹو نے منظور کرلیا۔ بھٹو نے میرے دفتر میں عبدالمجید ملک کے ساتھ ایک ملاقات بھی کی تھی اور انہیں پیشگی مبارکباد بھی دے دی تھی۔‘‘
سابق گورنر نے کہا کہ اسی دوران ان کے بھٹو کے ساتھ کچھ اختلافات بڑھتے گئے اور انہوں نے گورنر کے عہدے سے استعفے کا فیصلہ کرلیا۔
کھر نے کہا ’’میرے استعفے کے بعد بھٹو نے اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے ضیاء الحق کا تقرر کردیا، جو ان کی ایک بڑی غلطی تھی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بھٹو کی مانند وزیراعظم نوازشریف نے بھی ایک بڑی غلطی کی تھی، جب انہوں نے پرویز مشرف کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا تھا۔
کھر نے کہا کہ مشرف کے بجائے اس وقت لیفٹننٹ جنرل علی قلی خان کو اس اعلیٰ ترین عہدے پر مقرر کیا جانا چاہیے تھا۔
اس موقع پر وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کہا کہ مصنف نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ بغاوت کے وقت ان آمروں کا اقتدار میں طویل عرصے تک رہنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
سرتاج عزیز نے اس کتاب کے ایک اقتباس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’وہ اپنی بیرکوں سے مختصر مدت کے لیے باہر آئے تھے۔ لیکن بعد میں ان کے قریبی ساتھیوں نے ان کے سامنے غلط تصویر پیش کی اور ان آمروں کو یقین دلایا کہ ملک کو ان کی ضرورت ہے اور انہیں اپنی حکومت کو جاری رکھنا چاہیے۔‘‘
انہوں نے اس کتاب کو ایک اہم دستاویز قرار دیا، جس میں کارگل کی دراندازی اور فوجی سربراہان کی تقرری جیسے بہت سے اہم واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنر عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ وہ بھی جنرل مجید کے پیروکا رہیں۔
انہوں نے کہا ’’ریٹائرمنٹ کے بعد ہم دونوں نے سیاست میں شمولیت اختیار کی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ فوج اور سیاست میں جنرل مجید کی خدمات لائقِ تحسین ہیں۔
سابق سینیٹر ایس ایم ظفر نے کہا کہ مصنف نے اپنی زندگی اصولوں کی بنیاد پر گزاری۔ جبکہ اپنی کتاب لکھتے ہوئے انہوں نے ہر اس چیز کا ذکر کیا جس کا انہوں نے اپنے طویل فوجی اور سیاسی کیریئر کے دوران مشاہدہ کیا۔
سابق وفاقی وزیر سیدہ عابدہ حسین، سابق گورنر پنجاب ریٹائرڈ جنرل سرور خان، مسلم لیگ ن کے نو منتخب سینیٹر عبدالقیوم اور سابق وزیرخارجہ گوہر ایوب خان نے بھی اپنی زندگی کے واقعات بیان کرنے پر نامور مصنف کو سراہا۔
کتاب کے مصنف، ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل رہے اور پانچ مرتبہ چکوال سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ وفاقی وزیر اور بطور سفیر اپنی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کئی اہم فوجی اور سیاسی پیش رفت پر روشنی ڈالی، جس کا انہوں نے اپنی کتاب میں ذکر کیا تھا۔
انہوں نے کہا ’’یہ ایک سادہ کتاب ہے، ایک سپاہی کی جانب سے لکھی گئی ایک سپاہی کی داستان ہے۔‘‘
تبصرے (1) بند ہیں