'سابق چیف جسٹس کی مراعات غیرآئینی قرار'
اسلام آباد : سینیٹ چیئرمین نیئر حسین بخاری نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جن مراعات سے لطف اندوز ہورہے ہیں وہ آئین کی خلاف ورزی لگتی ہیں۔
منگل کو پی پی پی سینیٹر سعید غنی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون پرویز رشید نے ایوان کو بتایا کہ چھ ہزار سی سی بلٹ پروف حکومتی گاڑی تاحال سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) کے حکم کے تحت استعمال کررہے ہیں، حکومت اس کے ایندھن اور مرمت کے اخراجات بھی ادا کررہی ہے۔
اس بات کا انکشاف پہلے سینیٹ میں جمعے کو ایک تحریری جواب میں ہوا تھا اور چیئرمین نیئر بخاری نے اس سوال پر بحث منگل تک ملتوی کردی تھی کیونکہ وزیر قانون ایوان میں موجود نہیں تھے۔
منگل کو وزیر قانون نے کئی نئی معلومات کا اضافہ نہیں کیا اور وہی بات دہرائی جو تحریری جواب میں بتائی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل اور اس کی جلد سماعت کے لیے درخواست آئی ایچ سی میں زیرالتواءہے، تاہم انہوں نے واضح نہیں کیا کہ حکومت کا اس فیصلے کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کرنے کا منصوبہ ہے یا نہیں۔
وقفہ سوالات کے دوران وزیر قانون نے تصدیق کی کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے 1985 سے اب تک ریٹائر ہونے والے چیف جسٹز کے حوالے سے معلومات کے حصول کے لیے لکھے گئے خط کا جواب نہیں دیا ہے۔
اس پر سینیٹ چیئرمین نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19A کے تحت ہر شہری کو عوامی دلچسپی کے معاملات میں ہر قسم کی معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے بدھ کو اس معاملے پر اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کو ایوان میں طلب کیا ہے تاکہ وہ آرٹیکل 19A پر عملدرآمد کی وضاحت کرسکیں اور بتائیں کہ آرٹیکل 205 کے ففتھ شیڈول میں ترمیم کے بغیر سابق چیف جسٹس کی مراعات آئین کی خلاف ورزی تو نہیں۔
آرٹیکل 205 سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے جج کی تنخواہوں اور سروس کے دیگر اصول و ضوابط کی فہرست پر مشتمل ہے۔
آرٹیکل 205 کے ففتھ شیڈول کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد ایک جج صدر کی متعین کردہ اپنی تنخواہ کے ستر فیصد کے برابر پنشن کا حقدار ہوتا ہے، ایک چیف جسٹس ریٹائرمنٹ کے بعد اٹھارہ سو سی سی اپنے استعمال کے لیے خریدنے کا حقدار ہوتا ہے جبکہ اسے تین سو لٹر پٹرول ماہانہ استعمال کے لیے دیا جاتا ہے۔
سینیٹ چیئرمین نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو حاصل مراعات اور خصوصی استحقاق آئین کی خلاف ورزی ہے۔
تحریری جواب میں چونکہ سپریم کورٹ رجسٹرار کے لکھے گئے خطوط کا ذکر نہیں تھا اس لیے سینیٹر سعید غنی نے وزیر قانون سے پوچھا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے ردعمل سامنے آیا ہے۔ جس پر پرویز رشید نے کہا کہ اب تک سپریم کورٹ سے کوئی تحریری جواب اب تک موصول نہیں ہوا ہے اور چونکہ سپریم کورٹ ایک آزاد و خودمختار ادارہ ہے اس لیے اسے جواب کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ زبانی معلومات ایوان کے سامنے پہلے ہی پیش کی جاچکی ہیں۔
ایوان کے اراکین نے سپریم کورٹ رجسٹرار کی خاموشی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک جواب سپریم کورٹ کی آزادی کے لیے چیلنج نہیں ہوگا۔
سینیٹر رشید غنی نے نکتہ اٹھایا کہ رجسٹرار نے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے بھی انکار کیا تھا، سینیٹر کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے حقوق پر مفاہمت کی گئی ہے۔
سینیٹر ایم حمزہ نے چیئرمین سے اطلاعات کے حصول کے لیے ایوان کے حق پر ایک رولنگ جاری کریں " اگر ہمیں معلومات فراہم نہیں کی تو کیا یہ ایوان کی توہین نہیں ہوگی"۔
چیئرمین نے آرٹیکل 19A کا حوالہ دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو اس معاملے پر جواب دینے کے لیے ایوان میں طلب کرلیا۔
انہوں نے ایوان میں موجود قانونی ماہرین جن میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن، رفیق رجوانہ اور بابر اعوان وغیرہ کو بھی بدھ کو ایوان میں موجودگی یقینی بنانے کی ہدایت کی۔
تبصرے (1) بند ہیں