'پاکستانی جزیرہ جس کے45 مرد ہندوستان میں قید'
جویریہ حنا
کہتے ہیں پانی کسی کا دوست نہیں ہوتا، لیکن ماہی گیروں کا سب سے بہترین دوست ہی پانی ہوتا ہے، جس کے سینے پر قدم رکھ کر وہ اپنے اور اپنے خاندان کے جینے کا سامان کرتے ہیں، لیکن کبھی کبھی یہی پانی انیںک جیل کی کال کوٹھری تک پہنچا دیتا ہے، جب سمندری حدود سے لاعلم یہ غریب مچھیرے غلطی سے ہندوستان کی حدود میں چلے جائیں تو پھر مہینوں بلکہ سالوں کی قید ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
لیکن ٹھاٹیں مارتا ہواسمندر اپنی دلیری اور بے خوفی کے ساتھ اس بات کا اظہار کرتا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی کی ملکیت نہیں اور نہ ہی یہاں کوئی حد قائم کی جا سکتی ہے۔
سندھ کے ضلع ٹھٹہ ، تعلقہ کھارو چھان میں شاہ بندر کے قریب ایک جزیرے پر واقع گاؤں آتھرکی کی داستان بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں جہاں کے 45 مرد سمندری حدود کی خلاف ورزی کے جرم میں ہندوستان کی مختلف جیلوں میں قید ہیں اور ان کے لواحقین اپنے پیاروں کی رہائی کے لیے دَر دَر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
آتھرکی میں ایک ماہی گیر کشتی ساحل پر لگاتے ہوئے |
واضح رہے کہ بحیرہ عرب میں سمندری حدود کی مناسب طور پر تقسیم نہ ہونے اور ماہی گیروں کے پاس سمت کا تعین کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی حامل کشتیوں کی عدم دستیابی کے باعث دونوں جانب سے ماہی گیروں کی گرفتاریوں کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
ان ماہی گیروں کے اس دکھ اور کرب کا اندازہ ہمیں آتھرکی کے دورے کے دوران ہوا، جب پاکستان فشر فولک فورم اور پاکستان کونسل آف میڈیا ویمن کے زیر اہتما م خواتین صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ کراچی سے ایک کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم اس جزیرے پر پہنچے۔
جزیرے پر قدم رکھتے ہی بے شمار پُر امید آنکھوں نے ہمارا استقبال کیا، خواتین ، مرد، بچے اور بوڑھے اپنے اُن پیاروں کے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات ہاتھوں میں لیے ہمارے گرد جمع ہوگئے، جو ہندوستان کی قید میں ہیں۔
ہر چہرے پر ایک الگ داستان تھی۔ ضعیف العمر حاجی صدیق کاٹھیار کے آنسو اور ان کی اہلیہ حنیفاں کا باربار ہمیں جھنجھوڑ کر اپنی طرف متوجہ کرنا اور اپنے بیٹے کے بارے میں بتانا ہمیں اس شرمندگی سے دوچار کر رہا تھا کہ ہم اُن کے دکھوں کا مداوا صرف’چند لفظوں‘ کے ذریعے ہی کر سکتے ہیں۔
حاجی صدیق کاٹھیار اور ان کی اہلیہ حنیفاں |
حاجی صدیق اور حنیفاں کا 20 سالہ جوان بیٹا انور گذشتہ تین سال سے ہندوستانی ریاست گجرات کے ضلع بھوجکی پالار جیل میں قید ہے اور اب انور کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری بھی حاجی صاحب کے بوڑھے کندھوں پر ہے۔
انور کی سب سے بڑی بیٹی روشین نے بھی ہم سے ہاتھ ملایا ، جب اُس سے سوال کیا گیا کہ’ کیا اُسے اپنےوالد یاد آتے ہیں؟‘ تو وہ اپنے دادا کے پیچھے چھپ گئی، لیکن اس کی معصوم آنکھوں کی ویرانی سب کچھ عیاں کرگئی۔
تین سال سے ہندوستان کی قید میں موجود انور کی بیٹی روشین |
آتھرکی میں ہماری ملاقات 45 سالہ عبد الغنی کاٹھیار سے ہوئی، جنو ں نے ہندوستان کی قید میں موجود آتھرکی کے ان 45 ماہی گیروں کی فہرست ہمیں دکھاتے ہوئے کہ اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کھلے سمندر میں اُترنے والے ماہی گیر صرف اور صرف خدا کے آسرے پر ہوتے ہیں۔ انیں نہیں پتہ چلتا کہ کب وہ ہندوستان کی حدود میں چلے جائیں اور پھر سمندری حدود کی خلاف ورزی کے جرم میں انیں پڑوسی ملک کی جیلوں میں ڈال دیا جائے۔
عبدالغنی کی دکھائی گئی دستاویزات کے مطابق(جس میں چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھا گیا خط اور قیدی ماہی گیروں کی فہرست شامل ہے) آتھرکی کے 40 افراد ریاست گجرات کی جیل جام نگر جبکہ 5 بھوج جیل میں قید ہیں۔ بھوج جیل میں قید ماہی گیر وں میں تین بھائی اور دو کزن شامل ہیں۔
چیف جسٹس کے نام لکھے گئے خط کا عکس |
یہاں اس بات کی وضاحت کرتے چلیں کہ کراچی سے ہندوستان کی سرحد تک 17 مقامات ایسے ہیں، جہاں دریا کا پانی سمندر سے ملتا ہے۔ ان مقامات کو ’کریک ‘کہا جاتا ہے۔ سب سے آخری کریک’ کاجر کریک‘ اور’ سرکریک‘ ہیں، جو پاکستان اور ہندوستان کے مابین تنازع کا باعث ہیں، خصوصاً سرکریک کی ملکیت کا دعویٰ دونوں ملک کرتے ہیں۔
ہندوستان کی قید میں موجود آتھرکی کے ماہی گیروں کی فہرست |
عبد الغنی نے بتایا کہ کھلے سمندر کی حدود سے ناواقف ان ماہی گیروں کو خبر دار کرنے کے لیے صرف ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران چار ماہی گیر ہلاک بھی ہوچکے ہیں اور اس کے بعد انیں گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔ ہندوستانی جیلوں میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے یہ ماہی گیر جب کبھی رہا ہوکر واپس آتے ہیں تو انیںب ان کی لانچیں بھی واپس نہیں کی جاتیں۔
ان کی یہ بات سن کر ہمیں بے اختیار وہ ’مشتبہ‘ کشتی یاد آگئی، جس کے بارے میں ہندوستانی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا، جبکہ بعد میں اصل کہانی اس وقت واضح ہوئی جب ہندوستانی کوسٹ گارڈ کے افسر نے انکشاف کیا کہ پاکستانی ماہی گیروں کو’بریانی ‘کھلانے سے بچنے کے لیے انوکں نے خود کشتی اڑانے کا حکم دیا تھا۔
اس گاؤں کے دورے کے دوران ماہی گیروں کی زبانی ایک انکشاف یہ بھی ہوا کہ ہندوستانی حکام کو اپنے ماہی گیروں کی رہائی میں کوئی دلچسپی نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستانی ماہی گیروں کی رہائی میں بھی عدم دلچسپی کا ثبوت دیتے ہیں۔
عبدالغنی ماہی گیروں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم سرکاری ادارے فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی سے بھی نالاں نظر آئے اور بتایا کہ چیئر مین ڈاکٹر نثار مورائی نے ضلع ٹھٹھہ اور بدین کے ماہی گیروں کے لیے ممبر شپ کا اعلان کیا تھا لیکن وہ معاملہ بھی تاحال کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔
انو ں نے مزید بتایا کہ فشری کی جانب سے ماہی گیروں سے باقاعدہ ٹیکس لیا جاتا ہے لیکن ممبر شپ کے لیے اب تک کچھ نہیں کیا گیااور اس ضلع کے ماہی گیر حقیقتاً خدا کے آسرے پرہیں۔
یہاں ہماری ملاقات 35 سالہ محمد علی سے بھی ہوئی جنھیں 2008 ء میں کاجر کریک پر سمندر سے گرفتار کرکے بھوج جیل میں رکھا گیا اور ایک سال بعد 2009 ء میں رہائی ملی۔
آتھرکی کے لوگوں کی پانی اور کشتی سے محبت کا ثبوت ہمیں جا بجا نظر آیا، ایک گھر کی دیوار پر ال محبت نامی کشتی کی پینٹنگ نے ہمیں اس کی تصویر لینے پر مجبور کردیا۔
ایک گھر کی دیوار پر کی گئی پینٹنگ |
اس گاؤں میں جہاں غربت و افلاس کے دیگر مناظر دیکھنے کو ملے، وہیں ہمارے علم میں یہ بات بھی آئی کہ دریا اور سمندر سے نزدیک رہائش پذیر یہ لوگ صاف پانی سے بھی محروم ہیں اور وہاں قائم ایک ہی تالاب نما حوض سے گاؤں کے لوگ بھی پیاس بجھاتے ہیں اور اپنے جانوروں کو بھی سیراب کرتے ہیں۔
اس حوالے سے فشر فولک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ کا کہنا تھا کہ دریا کے پانی پر سب سے زیادہ حق ان ماہی گیروں کا ہے، لیکن یہ لوگ پینے کے صاف پانی کو بھی ترستے ہیں او ر ’یہ انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہے‘۔
تالاب نما حوض |
اس جزیرے پر گزارے گئے اُس ایک دن نے ہمیں زندگی کا ایک نیا رخ دکھایا، ایک تلخ رُخ۔ برانڈڈ چیزوں اور آسائشوں کے بل بوتے پر زندگی گزارنے والے کبھی بھی آتھرکی کے لوگوں جتنے امن پسند اور صابر نہیں ہوسکتے۔
یہ لوگ بجلی، صاف پانی، ہسپتال اور دیگر بنیادی ضروریات کے نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے حال پر صابر و شاکر ہیں اور ان کا دونوں حکومتوں سے صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ پانی سب کا سانجھا ہے، لہٰذا روزی روٹی کے لیے سمندر میں اترے والے کسی بھی پاکستانی یا ہندوستانی ماہی گیر کو گرفتار نہ کیا جائے۔
اپنے رشتے داروں کی ہندوستانی قید سے واپسی کی منتطرآتھرکی ایک خاتون |
اور یہ مطالبہ کچھ انوکھا بھی نہیں کہ اقوام متحدہ کے قانون برائے سمندری حدود کا آرٹیکل 73 بھی ماہی گیری کے دوران مچھیروں کی گرفتاری پر پابندی عائد کرتا ہے۔
پاکستان اور ہندوستان 2008 ء میں کیے گئے ایک معاہدے کے تحت ہر سال یکم جنوری اور یکم جولائی کو قیدیوں کی فہرست کا تبادلہ کرتے ہیں۔
لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے کشیدہ سفارتی تعلقات اور ماہی گیروں کی رہائی کے حوالے سے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے اکثر قیدی اپنی سزا کی مدت پوری ہونے کے باوجود بھی جیلوں میں قید رہتے ہیں۔