دیارام گدومل: سندھ کا ناقابل فراموش کردار
دیوان دیارام گدومل کا شمار سندھ کی ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کو خدمت اور اصولوں کا عملی نمونہ ثابت کیا۔ برطانوی راج کے دور میں گدومل کا شمار سندھی ہندوؤں کے 'گاڈفادر' کے طور پر ہوتا تھا۔ دیارام نے اپنی ابتدائی تعلیم فارسی میں حاصل کی۔ اس وقت تک سندھ میں سندھی زبان میں تعلیم کا کوئی رواج نہ تھا۔ ان کا جنم 1857 میں ہوا۔1867 میں انہوں نے انگریزی اسکول میں داخلہ لیا۔
جس وقت دیارام کراچی میں رہائش پذیر تھے، ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ سندھیوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کے لیے کالج بنایا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے بھائی میٹھا رام کو جو ایک معروف وکیل تھے اور دوسرے ایک اور وکیل دیوان رام جیٹمل کو تیار کیا۔ جس کے بعد کراچی کے ایک مشہور کالج کی سنگ بنیاد ڈالی گئی۔ اسی طرح انہوں نے اپنی کوششوں سے حیدرآباد میں بھی نیشنل کالج کی بنیاد رکھی۔ فارسی کے علاوہ انہیں گورمکھی اور عربی پر بھی مکمل دسترس تھی۔ پیشے کے حوالے سے وہ سیشن جج تھے لیکن ان کے فیصلوں میں تعصب کی ہلکی سی بھی جھلک نہیں تھی۔ پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب ”اھی ڈیھن اھی شیھن“ (وہ دن وہ لوگ) کے صفحہ نمبر 714 پر لکھتے ہیں کہ:
1889 میں دیارام کا احمد آباد سے شکار پور تبادلہ ہوا تو شکار پور کا ایک ہندو سیٹھ میولداس شیطان کے بہکاوے میں آکر ایک عورت سے زبردستی کربیٹھا۔ حکومت انگریز کی تھی۔ مونچھوں سے پکڑ کر گرفتار کیا گیا۔ مقدمے کی سماعت دیارام کی عدالت میں ہوئی۔ شکارپور کے ہندوؤں کو یقین تھا کہ ہندو برادری کو بدنامی سے بچانے کے لیے ان کا ہندو بھائی ضرور رعایت سے کام لے گا لیکن دیارام نے ملزم کو سات سال قید کی سزا سنائی اور شکار پور کے ہندو بھائی چلاتے ہی رہ گئے۔
سندھ میں درویش یا مجذوب دور قدیم سے دورجدید تک ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ ان میں نام نہاد مجذوب اور درویش بھی ہیں جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان پر الہامی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ ایسے درویشوں اور مجذوبوں کی ہدایت پر بے شمار لوگوں نے ناصرف خود کو بلکہ اپنے اہل خانہ کو بھی جانی نقصان پہنچایا۔ ایسے ہی ایک خوساختہ اور نام نہاد درویش کا مقدمہ جب دیوان صاحب کی عدالت میں پیش ہوا تو انہوں نے اس بات کو قطعاً کوئی اہمیت نہ دی کہ ان کے فیصلے کے نتیجے میں ان کے ہندو ہونے کو جواز بنا کر ان کے خلاف کوئی محاذ کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ راشدی نے اس مقدمے کی روائیداد یوں بیان کی ہے:
ایک مجذوب نے ایک شخص کو جان سے مار دیا تھا اور دلیل یہ دی کہ مجھ پر الہام نازل ہوا تھا کہ فلاں کو قتل کرو اس لیے میں نے خدائی فرمان کی بجا آوری کی۔ اس واقعے کے نتیجے میں بہت زیادہ اشتعال پھیل گیا تھا۔ لیکن دیارام پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اپنے فیصلے میں انہوں نے لکھا کہ اگر درویش کو چھوٹ دی گئی تو وہ الہام کی آڑ میں لوگوں کو مارتا رہے گا۔ سندھ میں اتنے زیادہ درویش ہیں کہ کسی ایک آدمی کو زندہ نہ چھوڑیں گے۔ ملزم کو انہوں نے عمر قید کی سزا دی۔ پھر کسی درویش پر یہ الہام نازل نہ ہوا۔
مسلمانوں اور ہندوؤں میں مندر مسجد اور اس کی ملکیتوں پر تنازعے کوئی نئی بات نہیں اور جب ایسے مقدمات عدالتوں میں پیش ہوتے تھے تو طوالت کا شکار ہوجاتے تھے۔ ججوں کی جان عذاب میں پڑ جاتی تھی۔ اگر جج ہندو ہو تو مسلمانوں کے حق میں فیصلہ کیسے صادر کرے؟ لیکن دیارام ایسی مصلحتوں سے بالاتر تھے۔ احمد آباد میں ایک مسجد کے پلاٹوں پر ملکیت کے حوالے سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں 9 سال سے مقدمے بازی جاری تھی۔ فساد کے خوف سے کوئی بھی جج منصفانہ فیصلہ کرنے سے ڈرتا تھا۔ علی محمد راشدی کے مطابق جب معاملہ دیارام کی عدالت میں پیش ہوا تو انہوں نے فیصلہ بغیر کسی پرواہ کے فیصلہ مسجد کے حق میں صادر کیا۔
دیا رام 1911 میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائر منٹ کے بعد وہ بمبئی منتقل ہوگئے۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ہومیو پیتھک کا طریقہ علاج سیکھا اور غریب اور مسکین لوگوں کا علاج کرنے لگے۔ بمبئی میں انہوں نے امراء کے بچوں کو غریبوں کی خدمت کرنے کی ترغیب دینے کے لیے ایک آشرم قائم کیا۔ آشرم میں امیر ہندوؤں کی لڑکیاں اور لڑکے روزانہ گھنٹے دو گھنٹے کے لیے آتے جہاں انہیں لیکچرز کے ذریعے یہ درس دیا جاتا تھا کہ انہیں غریبوں کی خدمت کرنی چاہیے۔
یہ آشرم کئی برسوں تک جاری رہا۔ آشرم کے تمام لڑکے اور لڑکیاں دیارام کو پتاجی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ایک دن اچانک دیارام گدومل نے آشرم بند کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد انہوں نے آشرم کی ایک نوجوان لڑکی سے شادی کرلی۔ آشرم بند کرنے اور نوجوان لڑکی سے شادی کرنے پران کے خلاف ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ اخبارات میں ان کے خلاف مضامین لکھے گئے، ان پر پتھر برسائے گئے، لیکن انہوں نے اس کی ذرہ برابر پر واہ نہ کی۔ اس کے بارے میں دیوان سنگھ مفتون اپنی کتاب ”ناقابل فراموش“ کے صفحہ نمبر 280، 281، 289 پر یوں رقم طراز ہیں:
دیوان صاحب بمبئی سے چند میل کے فاصلے پر باندرہ گئے۔ وہاں آپ نے ایک ایسی کوٹھی کرایہ پر لی جو سمندر کے کنارے سے چند قدم کے فاصلے پر تھی۔ کوٹھی کرائے پر لینے کے بعد بمبئی واپس آئے۔ آشرم کے طلبہ اور طالبات کو بلایا اور ان سے کہا کہ آج کے بعد یہ آشرم بند کیا جاتا ہے۔ اس اعلان کے بعد لڑکے اور لڑکیاں اپنے گھروں کو چلے گئے۔ دیوان صاحب نے آشرم کو تالا لگایا اور لڑکی کو لے کر سکھوں کے گوردوارے گئے اور گرنتھی سے درخواست کی کہ آپ کی اس لڑکی سے شادی کرادی جائے۔ گرنتھی نے اس سترہ اٹھارہ سال کی نوجوان لڑکی اور ستر سال کے سفید ریش (دیوان صاحب کے سفید لمبی داڑھی تھی) بوڑھے کی شادی گروگرنتھ صاحب کے سامنے کرادی۔ دیوان صاحب اپنی نوجوان ”بیوی“کولے کر کرباندرہ اس کوٹھی میں چلے گئے جو آئندہ زندگی گزارنے کے لیے کرائے پر لی تھی۔ ”میاں بیوی“ نے اس کوٹھی میں رہائش اختیار کی۔
دیوان دیارام آل انڈیا شہرت کے مالک تھے اور انڈین سوشل کانفرنس کے کئی برس سے صدر تھے۔ اخبارات میں مضامین شائع ہوئے جن کے عنوانات تھے ”باپ کی بیٹی سے شادی“، "نفس پرستی کی انتہا"، ”سوشل کانفرنس کے صدر کی گراوٹ“، ”دیوان دیارام گدومل کا ذلت آفرین فعل“ وغیرہ۔ دیوان رام گدومل کی مخالفت صرف اخبارات تک ہی محدود نہ رہی۔ اسی سال آپ کو اپنی خاندانی جائیداد کی رجسٹری کروانے کے لیے حیدرآباد جانا پڑا تو جب آپ بازار میں سے گزرے، لوگوں نے آپ پر اینٹیں پھینکیں اور یہ کہہ کر ماں بہن کی گالیاں دیں کہ اس حرکت نے حیدرآباد کو تمام دنیا میں رسوا و ذلیل کردیا ہے۔
مسٹر ویرومل بیگھ راج (ایڈیٹر ”سندھی“ سکھر) نے جب اس شادی کی اطلاع سنی تو ان کو بہت صدمہ ہوا کیونکہ دیوان صاحب ویرومل جی کے ساتھ بیس پچیس برس تک سندھ کے اندر سوشل اصلاح میں مصروف رہے تھے۔ آپ نے شادی کی خبر سنتے ہی دیوان دیارام کو باندرہ خط لکھا جس کے الفاظ یہ تھے:
”میں اخبارات میں پڑھ رہا ہوں اور لوگوں سے سن رہا ہوں کہ آپ نے اتنے بڑے سوشل لیڈر اور سوشل کانفرنس کے صدر ہوتے ہوئے اس بڑھاپے میں سترہ اٹھارہ برس کی لڑکی سے شادی کی۔ مجھے اس خبر پر یقین نہیں آتا کہ آپ اتنا بڑا پاپ کر سکتے ہیں۔ آپ مہربانی فرما کر بواپسی ڈاک اصل حالات سے مطلع فرمائیے۔ کیونکہ اگر واقعہ سچ ہے تو میرا بھی بطور ایک پبلک ورکر اور اخبار نویس کے فرض ہے کہ میں آپ کی اس شیطنت کے خلاف لکھوں۔“
دیوان دیارام نے اس طویل خط کا جواب ایک پوسٹ کارڈ پر دیا جس کے الفاظ یہ تھے: ”میں نے اپنا فرض ادا کیا۔ آپ اپنا فرض ادا کیجیے۔“
اس جواب کے بعد دیوان رام کے قدیمی دوست اور دیر ینہ ساتھی مسٹر ویرومل بیگھ راج (جو سندھ میں ہندو مہا سبھا کے صدر بھی تھے) نے اپنے اخبار میں دیوان دیارام کے خلاف متعدد سخت مظامین لکھے۔
دیوان دیارام کی ”بیوی“ کے بطن سے اس حمل کا نتیجہ ایک بیٹی پیدا ہوچکی تھی۔ دیوان صاحب شادی کے بعد دنیا سے بالکل الگ رہے۔ وہ اپنی ”بیوی اور بچی کے ساتھ سمندر کے کنارے اس کوٹھی میں تنہائی کی زندگی بسر کرنے لگے اور اس طرح دس سال گزر گئے۔ دنیا کو کچھ علم نہیں کہ کیا ہوا۔ شادی کے دس سال بعد دیوان صاحب کی بیوی تپ دق میں مبتلا ہوگئیں۔ کئی ماہ تک اس موذی مرض میں مبتلا رہیں اور جب زندگی کی کوئی امید نہ رہی تو اس کے والدین اپنی بیٹی کی عیادت کے لیے بمبئی سے آئے۔ یہ لوگ کئی روز تک باندرہ میں رہے۔ ایک روز دیوان صاحب کی ”بیوی“ نے اپنی ماں سے تنہائی میں کہا:
”اماں!میں اب چند روز کی مہمان ہوں۔ مگر ایک راز میں تم سے ظاہر کرنا چاہتی ہوں تاکہ اس راز کو لے کر اس دنیا سے رخصت نہ ہو جاؤں۔ وہ راز میں تمہیں بتاتی ہوں۔ اور وہ راز یہ ہے کہ دیوان صاحب نے میرے ساتھ شادی میری عزت کو بچانے کے لیے کی۔ مجھے ایک لڑکے کا ناجائز حمل تھا۔ اس لڑکے نے حمل کے بعد مجھ سے شادی کرنا تو کیا بات تک کرنے سے انکار کردیا۔ کوئی دوسرا بھی مجھے پناہ دینے کو تیار نہ تھا۔ میری عزت کو بچانے کے لیے دیوان صاحب نے اپنی آل انڈیا شہرت اور عزت کو میرے لیے قربان کردیا اور مجھ سے کھلے طور پر شادی کرلی۔ ورنہ دراصل حقیقت یہ ہے کہ میرے اور ان کے آج تک تعلقات باپ بیٹی کے ہیں۔ دنیا مجھے ان کی بیوی سمجھتی ہے مگر میں ان کی ویسے ہی بیٹی ہوں جیسے شادی سے پہلے تھی“۔
اس راز کے اظہار کے بعد دیوان صاحب کی ”بیوی“ کا انتقال ہوگیا۔ ماں نے یہ راز اپنے شوہر کو بتایا۔ اس نے اپنے خاص دوستوں کو سنایا۔ وہاں سے یہ راز مسٹر ویرومل بیگھ راج کے پاس پہنچا اور مسٹر ویرومل بیگھ راج سے ایڈیٹر ”ریاست“ کو یہ حالات معلوم ہوئے جن کے بعد بمبئی کے کئی اصحاب نے بھی تصدیق کی۔
یہ تھی دیوان صاحب کی کہانی۔ جنہوں نے ایک معصوم لڑکی کی عزت بچانے کے لیے اپنی عزت کو نا صرف داؤ پر لگایا بلکہ عمر کے آخری حصے میں روحانی، ذہنی اور جسمانی اذیتں بھی برداشت کیں۔ اپنا مذہب بھی تبدیل کیا، اور اپنی سماجی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے ختم کیا۔ اگر وہ لڑکی اپنی ماں سے حقیقت بیان نہ کرتی تو لوگ کبھی دیوان صاحب کی عظمت سے واقف نہ ہوتے اور مرنے کے بعد بھی ان پر لعن طعن جاری رہتا۔
تبصرے (22) بند ہیں