نادرا کے عملے کی بڑھتی ہوئی بہانے بازیاں
لاہور: ’’سسٹم (کمپیوٹر) معطل ہے، لہٰذا آپ کو مزید انتظار کرنا ہوگا۔‘‘ یہ وہ جواب ہے جو نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے مراکز پر درخواست گزاروں کو دیا جاتا ہے۔
کالج روڈ، ٹاؤن شپ میں نادرا کے مرکز کے باہر کھڑے حسیب احمد نے شکایت کرتے ہوئے کہا ’’اب تک مسئلہ اسی طرح جوں کا توں ہے، جس طرح میں پچھلی بار جب یہاں آیا تھا تو مجھے بتایا گیا تھا۔ مجھے اس مرتبہ بھی وہی جواب سننے کو ملا ہے۔‘‘ انہوں نے نادرا کے عملے کو نااہل قرار دیا اور کہا کہ اس کے ملازمین تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں۔
ڈان کے نمائندے کو نادرا کے کچھ مراکز کے وزٹ کے دوران یہ معلوم ہوا کہ ان مراکز کے سربراہ صارفین کی شکایتوں پر کوئی خاص پریشانی نہیں تھی۔
کالج روڈ پر واقع رجسٹریشن سینٹر پر آنے والے ایک صارف سلیم محمود نے شکایت کی کہ جب انہوں نے اپنے شناختی کارڈ کا معاملہ لے کر اس مرکز کے اسسٹنٹ منیجر اختر علی کے پاس گئے تو انہوں نے نے ان کو نظرانداز کردیا۔
سلیم محمود کا کہنا تھا ’’شناختی کارڈ کی تجدید کے لیے تین گھنٹے انتظار کرنے کے بعد جب میری باری آئی تو ڈیٹا انٹری آپریٹر نے مجھ سے کہا کہ ایک نیا ٹوکن لے کر آؤ، اس لیے کہ پہلا ٹوکن میری اہلیہ کے نام پر جاری کردیا گیا ہے۔جب یہ معاملہ میں نے اسسٹنٹ منیجر اختر علی کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس کو نظرانداز کردیا۔‘‘
اس مرکز پر تین ڈیٹا انٹری آپریٹروں میں سے صرف ایک اپنے فرائض انجام دے رہا تھا، جبکہ باقی دو اپنی سیٹ پر موجود نہیں تھے۔ جب اس مرکز کے سربراہ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی گئی تو انہوں نے لاپرواہی کے ساتھ کہا کہ ’’ہمیں کچھ آرام کی بھی ضرورت ہے، اس لیے کہ ہم چوبیس گھنٹے کام نہیں کرسکتے۔‘‘
مزید یہ کہ شہر میں نادرا کے مراکز پر آنے والی خواتین کی علیحدہ نشستوں کے کوئی انتظامات نہیں ہیں۔ رش اور کارڈ کے اجراء میں تاخیر کی وجہ سے صارفین کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
نادرا کے ایگزیکٹیو سینٹرز جہاں ایک ہزار روپے وصول کرنے کے بعد فاسٹ ٹریک سسٹم کے تحت شناختی کارڈ جاری کیے جاتے ہیں، وہ بھی صارفین کو سہولت دینے میں ناکام رہے ہیں۔
ان مراکز کے سربراہوں کی قابلیت اور صلاحیت پر بہت سے سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔ ایک ذرائع نے بتایا ’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نادرا کے ایک مرکز کے سربراہ کی تقرری کے لیے کوئی مخصوص معیار طے نہیں کیا گیا ہے، جبکہ یہ عہدہ براہِ راست پبلک ڈیلنگ سے متعلق ہونے کی وجہ سے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ لاہور میں ایک مرکز کا سربراہ انڈرگریجویٹ ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نادرا کی انتظامیہ اپنے رجسٹریشن مراکز میں کام کو بہتر بنانے میں کس قدر سنجیدہ ہے۔
مذکورہ ذرائع نے کہا ’’کچھ کیسز ایسے بھی سامنے آئے ہیں کہ نادرا کا عملہ درخواست فارم بھی پُر نہیں کرسکتا، اس لیے کہ ان کا تعلیمی ریکارڈ بہت کمزور ہے۔‘‘
نادرا کی انتظامیہ حکومت کی جانب سے دیے گئے مخصوص ٹاسک حاصل کرنے کے لیے زیادہ فکر مند ہے، بجائے اس کے کہ اپنے مراکز پر عوام کے لیے پریشانی سے آزاد ماحول کو یقینی بنایا جائے۔
انتظامیہ نے تسلیم کیا کہ اس کے مراکز پر مسائل موجود ہیں، اور مزید کہا کہ نئے چیئرمین عثمان مبین ان مسائل سے نمٹنے کے لیے دلچسپی لے رہے ہیں۔
نادرا کے ترجمان فائق علی چھاچھڑ نے ڈان کو بتایا کہ ’’اپنا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد صرف چند دن پہلے چیئرمین نے لاہور میں مختلف مراکز پر اچانک دورہ کیا تھا۔ انہوں نے یہ واضح ہدایات بھی جاری کی ہیں کہ ان مراکز پر صارفین کے لیے خدمات کو بہتر بنایا جائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ شہریوں کو بہتر خدمات فراہم کرنے کے لیے چیئرمین تنظیم نو اور نئی سمت بندی میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں۔ نادرا کے مراکز پر صارفین کے کاموں کی مناسب دیکھ بھال اور واضح رہنمائی کے سلسلے میں ایک پالیسی بھی تشکیل دی جارہی ہے۔ کارڈ کی فراہمی میں تاخیر کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ خدمات کے معیار کو بنانے کے لیے اصلاحات اور اقدامات کے ایک سلسلے پر نادرا کی سینئر انتظامیہ کام کررہی ہے۔
نادرا کے ترجمان نے کہا ’’نادرا کے عملے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے انہیں تربیت دی جائے گی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ نادرا کے عملے کی جانب سے بداخلاقی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اس سوال پر کہ نادرا کے عملے خاص طور پر رجسٹریشن سینٹر کے سربراہ کے لیے کیا قابلیت درکار ہوتی ہے، تو فائق چھاچھڑ نے کہا ’’انہیں نادرا کے مقررہ معیار کے مطابق بھرتی کیا جاتا ہے۔‘‘
مزید مراکز کے قیام کے کسی امکان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ نادرا کے رجسٹریشن سینٹرز کی تعداد 2011ء میں تقریباً تین سو تھی، جو 2014ء میں بڑھ کر 560 ہوگئی تھی۔ انہوں نے کہا ’’مراکز کی تعداد مسئلہ نہیں ہے۔تاہم حالیہ دنوں میں موبائل فونز کی سموں کی بایومیٹرک تصدیق کی وجہ سے دباؤ بڑھ گیا ہے، اور نادرا کے مراکز پر رجسٹریشن کا بوجھ تین گنا ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نادرا کو افرادی قوت، بنیادی ڈھانچے اور خدمات کو بہتر بنانے میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں، سموں کی تصدیق کے عمل کے بعد اس کو بہتر بنایا جائے گا۔
لاہور میں نادرا کے آپریشن ڈائریکٹر نعمان احمد جو ایک ریٹائرڈ کرنل بھی ہیں، کہتے ہیں کہ عوام کو اس لیے نادرا کے مراکز پر پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے، کہ ان مراکز پر سموں کی بایومیٹرک تصدیق اور پنجاب کے اسلحہ لائسنس منصوبے کی وجہ سے رش بڑھ گیا ہے۔
نادرا ایک سم کی بایومیٹرک تصدیق کے لیے دس روپے وصول کررہی ہے، اور بالفرض سم ہولڈر کے انگوٹھے کے نشان میں مماثلت نہیں ہوتی تو ان سے نئے شناختی کارڈ کے لیے درخواست دینے کے لیے کہا جاتا ہے۔
لاہور میں نادرا کے 18 مراکز موجود ہیں، اور تین مزید قائم کیے جانے والے ہیں۔ موجودہ مسائل جن کا سامنا صارفین کو کرنا پڑ رہا ہے، ان کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی حیرت سے یہی سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ نئی بھرتیوں کے بغیر کس طرح ان مراکز کو چلایا جائے گا۔