غداری کیس، حکومت کی ' پراسرار خاموشی'
اسلام آباد : مسلم لیگ نواز کی حکومت اور سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف غداری کیس کے حوالے سے ایک ہی پیج پر کھڑے نظر آتے ہیں۔
ان دونوں فریقین نے خصوصی عدالت کے اس حکم کو چیلنج نہیں کیا ہے جس میں عدالت نے حکومت کو تین شریک ملزمان کو غداری کیس کے ٹرائل میں شامل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
عدالتی حکم کو چیلنج کرنے کی ڈیڈلائن گزر چکی ہے ۔
خیال رہے کہ کسی عدالتی حکم سے ناخوش فریقین ایک مقررہ مدت کے اندر اسے چیلنج کرسکتے ہیں۔
سابق سنیئر سول جج سعید خورشید ایڈووکیٹ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا " خصوصی عدالت کا حکم عارضی حکم تھا اور اس کے خلاف درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں نوے روز کے اندر دائر کی جاسکتی تھی"۔
خصوصی عدالت نے اکیس نومبر کو وفاقی حکومت ہدایت کی تھی کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق چیف جسٹس عبدالرشید ڈوگر اور سابق وفاقی وزیر اور اب مسلم لیگ ن کے رہنماءزاہد حامد کو پرویز مشرف کے ساتھ شریک ملزمان کی حیثیت سے مقدمے میں شامل کرے۔
اس فیصلے کو چیلنج کرنے کی مدت بروز ہفتہ (اکیس فروری) کو ختم ہوگئی۔
علاوہ ازیں آئین کی شق 185 کے تحت اس حکم کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا جاسکتا تھا مگر کسی فریق نے اس آپشن کو نہیں اپنایا۔
حکومت کی ' پراسرار' خاموشی یا بے عملی نے ان افواہوں کو مزید تقویت دی ہے کہ مسلم لیگ نواز فوج کو خوش کرنے کے لیے غداری کیس کو مزید آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
گزشتہ برس ایسے مضبوط شواہد سامنے آئے تھے کہ حکومت کی جانب سے پرویز مشرف کے خلاف غداری مقدمہ چلانے کے فیصلے سے اس کے فوج سے تعلقات میں بگاڑ آیا تھا۔
پاکستان انسیٹیٹوٹ آف لیگیسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کی حالیہ گول میز کانفرنس میں اس نکتے کو اٹھایا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کے باہر دھرنے کا براہ راست تعلق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس چلانے سے ہے۔
تاہم اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اس حکم کو ان فریقین کی جانب سے چیلنج کیا گیا ہے جن پر اس کا اطلاق ہورہا ہے۔
سابق وزیراعظم شوکت عزیز، جسٹس ریٹائرڈ عبدالرشید ڈوگر اور زاہد حامد نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے الگ الگ درخواستیں دائر کی ہیں۔
تاہم مقدمے کے حقیقی فریقین کی جانب سے عدم دلچسپی بالکل واضح حقیقیت ہے کیونکہ وفاقی حکومت اور پرویز مشرف نے ان تینوں درخواستوں پر جوابات تک جمع کرانے کی زحمت نہیں کی۔
تین فروری کو ان درخواستوں کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے اس بات کا نوٹس لیا کہ نہ تو وفاقی حکومت اور نہ ہی پرویز مشرف نے جوابات جمع کرائے ہیں۔
انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا " حکومت اس معاملے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی لیتی نظر نہیں آتی"۔
سابق اٹارنی جنرل طارق محمود جہانگیری کا بھی ماننا ہے کہ حکومت غداری کیس کے حوالے سے سنجیدہ نہیں " اگر وہ کیس کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتی تو اکیس نومبر کے حکم کو چیلنج کرتی، حکومتی قانونی ٹیم نے تو اس معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف بھی کچھ نہیں کیا"۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی فریق عدالتی حکم کو چیلنج نہ کرے تو یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ اس فریق کے لیے قابل قبول ہے۔
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق فوجی صدر خصوصی عدالت کے حکم پر خوش ہیں۔
سابق صدر اور ان کی لیگل ٹیم کے قریبی ذرائع نے بتایا " پرویز مشرف اکیس نومبر کے فیصلے کو چیلنج نہیں کریں گے کیونکہ یہ ان کے حق میں ہے"۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی پراسیکیوشن ٹیم جس نے غداری کیس کی تحقیقات کی، کے پاس کوئی واضح نظریہ یا پالیسی نہیں۔
کچھ پراسیکیوٹرز کا نظریہ ہے کہ حکومت کو عدالتی حکم کو چیلنج کررنا چاہئے مگر دیگر کا خیال ہے کہ ان کا کام ہوچکا ہے اور انہیں مقدمے کی صرف تحقیقات ہی کرنا تھی۔
ان کے بقول اس مقدمے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کرنا حکومتی ذمہ داری ہے۔
اس مقدمے کے ایک سنیئر پراسیکیوٹر سردار عصمت اللہ کا کہنا ہے کہ آئین کی شق 184/2 کے تحت پراسیکیوشن سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرسکتی ہے اور آرٹیکل 199 کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرسکتی ہے۔
اس معاملے پر جب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت عدالتی حکم کے خلاف تین انفرادی پٹیشنز اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہے اس لیے حکومت نے حکم کو چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے مزید کہا " اکیس نومبر کے حکم کے خلاف پٹیشن دائر کرنے سے یہ تاثر پیدا ہوتا کہ حکومت کسی ایک فرد کے خلاف مقدمہ چلانا چاہتی ہے اور ہم یہ تاثر قائم نہیں کرنا چاہتے"۔
تاہم انہوں نے اصرار کیا " ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی اور وزیراعظم آئین کے مطابق کارروائی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں"۔
تبصرے (1) بند ہیں