پاکستان: ہم سدھاریں گے
”اور تم اتنی اچھی جاب آفر چھوڑ کر...؟؟“ میں نے بے یقینی اور حیرت سے اُس کی طرف دیکھا۔
”کیوں...کس لیے...؟؟“ میرے لہجے میں ایک بار پھر حیرت تھی جیسے مجھے اس کی بات کا یقین نہ ہو۔
وہ مسکرایا۔ ایک اطمینان بھری مسکراہٹ...“ بہت ساری وجوہات ہیں...“ اس کا لہجہ مستحکم اور آواز ٹھوس تھی جیسے اسے اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہ ہو۔
”لیکن جہاں تک میں جانتی ہوں کوئی ایسی وجہ نہیں تھی جو تمہیں روک سکتی۔ ایک اچھا مستقبل ہر کسی کا خواب ہوتا ہے۔ وہ بھی باہر؟ ایسی جاب ملنا کم لوگوں کی قسمت میں ہوتا ہے...“ مجھے اُس کی نادانی پر حیرت سے زیادہ افسوس تھا۔
اُس نے نظر اُٹھا کر میری طرف دیکھا اور پوچھا...“ تم جاننا چاہتی ہو میں لندن میں ایک بہت اچھی جاب آفر چھوڑ کر کیوں آیا؟
”ہاں“ میں نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔ مجھے لگا جیسے وہ کوئی ایسا راز بیان کرنے والا ہو جو بہت سنسنی خیز ہو گا۔ اس نے میری طرف غور سے دیکھا اور بولا "میں واپس آیا ہوں کیونکہ یہ ملک میری پہلی محبت ہے اور مجھ جیسا شخص سب کچھ چھوڑ سکتا ہے سوائے اپنی محبت کے۔"
"گھسی پٹی لائن... خوامخواہ کا ایموشنل ڈرامہ" میں نے دلِ میں سوچا اور ہنسی۔
"میں جانتا ہوں یہ بہت روایتی جملہ لگتا ہے سننے میں..." اس نے جیسے میری سوچ پڑھ لی تھی۔ "لیکن سچ تو یہ ہے کہ میرا یقین ہے اس بات پر۔"
"یہاں اب رکھا ہی کیا ہے؟ ہم اور ہمارے لیڈرز نوچ نوچ کر کھا چکے ہیں اس ملک کو۔ پاکستان نہیں مسائلستان ہے یہ ملک۔ سوائے نفرت، دہشت گردی اور مصائب کے یہاں اب کچھ بچا ہے؟" میں نے تلخی سے پوچھا۔
یہاں میرے والدین ہیں جنہوں نے مجھے پالا، پڑھایا، میرے لیے باہر جا کر پڑھنے کو ممکن بنایا۔ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی دھن میں انہی سے دور ہو جاؤں؟ میرے بھیجے پاؤنڈز ان کے لیے میرا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ یہاں وہ درسگاہیں ہیں جہاں سے میں نے بہت کچھ سیکھا، ان تعلیمی اداروں کا قرض ہے مجھ پر۔ یہ میرا وطن ہے، ساری دنیا میں اسی شناخت سے پہچانا جاتا ہوں، آج اسے ہی چھوڑ کر چلا جاؤں۔ کسِ لیے؟ کیونکہ دیارِ غیر میں ایک بہترین نوکری کی آفر ہوئی ہے مجھے؟ اپنے دماغ کو، اپنی صلاحیتوں کو انُ پر صرف کروں جو میری، میرے وطن کی، میرے والدین کی جدوجہد میں ساتھ تھے ہی نہیں؟ اپنی کمائی کا زیادہ تر حصّہ انہیں ٹیکسز کی صورت میں ادا کروں، ان کی معیشت کو مضبوط کروں، اپنا خاندان وہاں بساؤں اور پھر اپنی اولاد کو ایک بٹی ہوئی شخصیت سیکنڈ گریڈ سٹیزن شپ کی صورت میں دے کر اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں؟ اور جسے ہم نے مسائلستان بنایا ہے اسے سنوارنا بھی تو ہمارا ہی کام ہے۔" اس کا چہرہ شدتِ جذبات سے سرخ ہو رہا تھا۔
وہ ایک لمحے کو رکا۔ میں نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر اس نے پھر کہنا شروع کر دیا "میں بڑے لوگوں اور لیڈرز کی بات نہیں کرتا، لیکن اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس ملک میں نہ رہتے تو کیا یہ ملک آج نیوکلئیر پاور ہوتا؟"
مثال اچھی تھی۔ میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور میں نے کہا… "جذباتی باتیں کرنے والے تم کوئی پہلے انسان نہیں ہو۔ جوانی میں عام طور پر لوگ ایسا ہی جوش دکھاتے ہیں۔ بات تو تب ہے جب آئندہ آنے والے سالوں میں تمہیں اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہ ہو۔"
"میں کوئی فرشتہ نہیں جو ان تمام منفی خیالات اور جذبات سے عاری ہو لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ جب آپ میں لینے سے زیادہ دینے کا جذبہ ہو، توقعات کم ہوں، تصورات کی دنیا سے زیادہ حقیقت نظر آتی ہو، مشکلوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہو... اور سب سے بڑھ کر شام گھر لوٹنے پر گھر والوں کے مسکراتے چہرے ہوں تو تکلیف کا احساس کم ہو جاتا ہے۔ میں صرف اس ملک کو وہ سب کچھ لوٹانا چاہتا ہوں جو اس نے مجھے دیا ہے۔ مجھے اس شناخت کی ضرورت ہے... تم چاہو تو اسے میری خود غرضی بھی کہہ سکتی ہو۔"
یہاں جو نوکری تم کر رہے ہو، تم سمجھتے ہو کہ اس سے اپنے مقاصد حاصل کر لو گے؟" میرے لہجے میں طنز کی چبھن تھی جو شاید اسے بھی محسوس ہوئی، تبھی وہ مسکرایا… "بات تو یہ ہے کہ میں جو بھی کروں نیک نیتی کے ساتھ کروں۔ کیا میں ایک اچھا کارآمد پاکستانی بن کر اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتا؟ میں کوئی این جی او یا سیاسی پارٹی بنانا نہیں چاہتا لیکن اگر میں اس ملک کے نوجوانوں میں پاکستان کے لیے اونر شپ کا جذبہ بیدار کر پاؤں تو یہی میری کامیابی ہوگی، اور یہی مقصد ہے میرا۔ نئی نسل کو سچّا پاکستانی بنانا! جو صرف ملی نغموں پر جھومنے اور کرکٹرز کے چھّکوں پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے سے بڑھ کر اس ملک کی سربلندی کے لیے اپنی صلاحیتیں صرف کرے۔ "اب یہاں کچھ نہیں رکھا" کہنے کے بجائے "سب کچھ صرف یہیں ہے" کے فرق کو سمجھے اور تسلیم کرے۔ اسِ زمین کو محبتوں سے سینچنا ہے، محنت سے آبیاری کرنی ہے، پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اور ایسا ہو گا، ضرور ہو گا... بہت جلد ہوگا۔
میں نے ایک گہری سانس لی اور اس کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں پختہ عزم جھلک رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ وہ جذبہ ہے جسے اس ملک کے نوجوانوں میں اب جاگ جانا چاہیے۔ اپنے وطن سے عشق، اپنی شناخت کو بہتر بنانے کا یہ جنون اگر نئی نسل کے دلوں میں اتر جائے تو شاید وہ فضول سرگرمیوں کے بجائے اس ملک کی ترّقی اور اس کی بقا کے لیے سرگرم نظر آئیں۔ جب وہ اس ملک کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں اپنا مستقبل بنانے کے بجائے اس ملک سے جڑے رہنے کو ترجیح دیں۔ اور جسِ دن ایسا ہوگا، اس دن پاکستان کا نام دنیا کے افق پر سنہری حروف سے جگمگائے گا۔
میں نے جانے سے پہلے کچھ کہنے کا سوچا، مگر اسے جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے اس خواب سے بیدار کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ اور میں چپُ چاپ وہاں سے چلی آئی، اسِ دعا کے ساتھ کہ یہ خواب بہت جلد تعبیر پائے گا۔
تبصرے (6) بند ہیں