کوریڈور منصوبے ترجیحات میں شامل ہیں، حکومتی یقین دہانی
اسلام آباد: پاک چائنا اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کے روٹس کے حوالے سے جاری تنازعہ کے دوران حکومت نے جمعرات کو سینیٹ کے ایک پینل کو یقین دہانی کرائی کہ توانائی کا یہ کئی ارب ڈالرز کا فلیگ شپ پروگرام تبدیل نہیں کیا جائے گا، لیکن اس ضمن میں مرحلہ وار انداز کو ترجیح دی جائے گی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کو ایک بریفنگ کے دوران پانی و بجلی کے سیکریٹری یونس ڈھگا کا کہنا تھا کہ چاروں صوبوں اور آزاد جموں و کشمیر میں قائم کیے جانے والے توانائی کے منصوبوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جارہی ہے۔
اس اجلاس کی صدارت عوامی نیشنل پارٹی کے زاہد خان نے کی جو اس کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، انہوں نے بولی اور معاہدے کے پروسیس میں بے قاعدگیوں کے الزامات کے بعد خیبر پختونخوا میں گولن گول ہائیڈرو پروجیکٹ کے لیے ٹھیکوں کی منسوخی کی سفارش کی۔
یونس ڈھگا نے کہا کہ چاروں صوبوں میں کوئلے سے چلنے والے توانائی کے منصوبوں کی تنصیب کا ارادہ تھا، لیکن ان کی ڈیویلپمنٹ کو دو مرحلوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔ پہلے مرحلے میں صرف ان منصوبوں کو ترجیح دی گئی تھی، جو تین سے چار سال میں مکمل ہونے تھے، جیسے کہ تھر، پورٹ قاسم اور ساہیوال کے منصوبے۔ ان منصوبوں میں مقامی کوئلے کا استعمال کیا جائے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ ساہیوال پر کوئلے سے چلنے والے 1320 میگاواٹ کے صرف ایک منصوبے کو ترجیح دی گئی تھی،اس لیے کہ ابتدائی مرحلے میں پاکستان ریلوے صرف اسی منصوبے کے لیے کوئلے کی فراہمی کی استعداد رکھتی تھی۔ ریلوے کو اپنی استعداد میں اضافے کی ضرورت ہوگی، اور اضافی پاور پلانٹس کو کوئلے کی فراہمی کے اس کو بوگیوں اور لوکوموٹیو کا اضافہ کرنا ہوگا۔
لہٰذا حکومت نے فیصلہ کیا کہ صرف ان منصوبوں کو پہلے مرحلے میں رکھا جائے، جنہیں کسی قسم کی اضافی سرمایہ کاری کے بغیر تعمیر کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کا ارادہ ہے کہ دوسرے مرحلے میں مزید پاور پروجیکٹس تھر، حب، گوادر، کلر کہار، مظفرگڑھ، رحیم یار خان اور خیبر پختونخوا میں قائم کیے جائیں۔ اس کے علاوہ گڈانی کول پاور پارک کا منصوبہ فزیبیلیٹی رپورٹ کے مکمل ہونے کے بعد شروع کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ اس سال اپریل میں تھر میں اینگروز کول پاور پروجیکٹ کا مالیاتی عمل مکمل ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے صرف چینی سرمایہ کاری کو متوجہ کرسکتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ چین کے نجی سرمایہ کار کسی سرکاری سرمایہ کاری کے بغیر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کے لیے آرہے تھے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے پانی و بجلی کے ترقیاتی ادارے واپڈا کے چیئرمین ظفر محمود نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر میں نیلم جہلم منصوبے کو 47 کروڑ ڈالر کے فنڈز کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور وفاقی حکومت اس منصوبے کے پی سی ون پر نظر ثانی کرے گی، اس لیے کہ اس کے پچھلے تخمینے 275 ارب روپے سے اس کی لاگت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بروقت ضروری فنڈز دستیاب نہیں ہوئے تو اس منصوبے کو نومبر 2016ء تک مؤخر کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے ایک نظرثانی شدہ پی سی ون کو منظوری کے لیے حتمی صورت دی جارہی ہے۔اس لیے کہ اس کی نظرثانی شدہ لاگت 84 ارب روپے سے بڑھکر 275 ارب روپے ہوگئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ نظرثانی کے بعد اس منصوبے کی لاگت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔