اب بھی پھوڑ سکتے ہیں!
اگر ہم جذباتی فینز کی بات نہ کریں تو شاید ہی میچ کے بعد کے اس بلاگ کو کوئی پڑھ رہا ہو۔ سچ کہوں تو مجھے لگتا ہے کہ آفریدی کے آؤٹ ہوتے ہی کئی لوگوں نے اپنے ٹی وی بند کر دیے ہوں گے۔
جیسا کہ ہم سب کو ہی شک تھا، ہمارا ریکارڈ 0-6 ہو چکا ہے۔ ورلڈ کپ میں لگاتار چھٹی دفعہ انڈیا نے پاکستان کو زبردست شکست دی ہے۔ اگر یہ کچھ مزید ٹورنامنٹس تک جاری رہا، تو ان کے خلاف ہمارا ریکارڈ فٹبال ورلڈ کپ کے سیمی فائنلز میں برازیل کے جرمنی کے خلاف ریکارڈ سے بھی برا ہو جائے گا۔
لیکن ہندوستان کو مبارک ہو۔ ان کی بیٹنگ لائن بلاشبہ ہماری سے بہت اچھی ہے۔
کوہلی کا سب سے بڑا اثاثہ ان کی ذہنی صلاحیت ہے جو ان کے بیٹنگ کے ہنر سے میچ کرتی ہے، اور ایک پاکستانی بیٹسمین، جن کے اور بھی بھائی ٹیم میں ہیں، کو ان سے کچھ سیکھنا چاہیے۔
ٹیم مینیجمنٹ نے مقابلے کے لیے تقریباً بہتر ٹیم کا ہی انتخاب کیا تھا۔
یاسر شاہ شاندار تو نہیں کھیل سکے، لیکن وہ پھر بھی ٹورنامنٹ میں ہمارے اچھے اسٹرائیک بولر ہو سکتے ہیں، اور اس میچ کے بعد ان کی کارکردگی بہتر ہونے کی توقع ہے۔ عمر اکمل نے بھلے ہی اسٹمپس کے پیچھے کچھ کیچز چھوڑ دیے ہوں، لیکن سرفراز احمد کافی عرصے سے وکٹ کیپنگ کی فارم میں نہیں ہیں۔ حقیقت میں سرفراز احمد آسٹریلیا میں اچھی بیٹنگ بھی نہیں کر پا رہے۔
پڑھیے: ہار کو بھلا کر آگے بڑھنا ہوگا، مصباح
عمر اکمل کا آؤٹ دیا جانا متنازع تھا۔ اسنکومیٹر نے کوئی نشاندہی نہیں کی لیکن پھر بھی تھرڈ امپائر نے انہیں آؤٹ قرار دیا، اور باریک بینی سے کیے گئے فیلڈ امپائر کے فیصلے کو پلٹ کر رکھ دیا۔ اس سے موہالی میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میچ کی یاد تازہ ہوگئی جہاں سچن ٹنڈولکر کو بھی متنازع ڈیسیشن ریویو سسٹم نے بچا لیا تھا۔
امید کی کرن سہیل خان کی پانچ وکٹیں ہیں۔ ان کے ساتھی فاسٹ بولرز محمد عرفان اور وہاب ریاض نے بھی توقعات سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح حارث سہیل اور احمد شہزاد بھی جتنی دیر کریز پر ٹھہرے، اچھے رہے۔ ہمیشہ کی طرح مصباح الحق نے پاکستان کو مکمل شرمندگی سے بچا لیا۔
میرے خیال میں پاکستان کی غلطی ٹارگٹ کے حصول کے لیے اپنائی گئی اپروچ میں تھی۔
یہ بالکل پچھلے گیمز کی طرح سے ہی تھا۔ ہندوستانی بولرز شروع میں کافی ڈھیلے ڈھالے لگ رہے تھے اور اس وقت پاکستانی ٹاپ آرڈر بیٹسمین اتنے محتاط تھے کہ وہ کئی بیکار بالز سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے۔
اس کے علاوہ شہزاد اور سہیل نے بھی کریز پر ٹھیک ٹھاک اسکور بنائے بغیر رکے رہنے کی غلطی کی۔ سہیل خان تو چلیں ایک بہترین بال پر آؤٹ ہوئے، لیکن شہزاد صرف ڈاٹ بالز کے پریشر کی وجہ سے آؤٹ ہوئے۔ انڈین بولرز نے دونوں کو آسان سنگلز لینے سے بھی محروم رکھا، اور یوں وہ دونوں ہی پریشر میں رہتے ہوئے پویلین واپس لوٹ گئے۔
اب یونس خان۔
جب میں چھوٹا تھا، تو ایک بار کچھ مہمان ہمارے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہمارا ٹی وی روم مہمانوں کے لیے بیڈ روم میں تبدیل کرنا پڑا۔ ٹی وی امی ابو کے کمرے میں شفٹ کر دیا گیا، جہاں ابو سونے کی کوشش کر رہے ہوتے اور میں ٹی وی دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوتا۔ اور اگر مہمان کچھ مہینے اور رک جاتے، تو یہ پریشانی مزید بڑھ جاتی۔
مزید پڑھیے: کب پھوڑیں گے یار۔۔۔
یونس خان مجھے ایسے ہی مہمان لگتے ہیں جو ضرورت سے زیادہ ٹک گئے ہیں۔
یہ ان مہمانوں کی طرح ہیں جنہیں جانے کے لیے کہا جائے تو وہ برا مان جاتے ہیں۔ اس بار وہ اوپنر کی حیثیت سے انڈین بولرز کے سامنے بالکل پریشان نظر آئے۔ اگر وہ نمبر 3 پر بھی کھیلنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، تو ان سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک نئی بال کے ساتھ ایک نئی اننگز کا آغاز کریں؟
مجھے کسی کے لیے برا سوچنا پسند نہیں ہے، لیکن صرف امید ہی کی جا سکتی ہے کہ ان کے ساتھ کچھ ایسا ہو کہ ان کی جگہ فواد عالم کو لایا جائے۔ کم از کم اتنا تو کیا جا ہی سکتا ہے کہ اگلے کھیل میں اوپنر ان کے بجائے سرفراز احمد یا ناصر جمشید کو کر دیا جائے۔
وسیع تناظر
ٹاپ ٹیمیں بلاشبہ ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مرحلے میں پہنچیں گی، اور اس میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ساؤتھ افریقہ شامل ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایشیائی ٹیموں میں سے صرف ایک ہی ٹیم ہے جو ٹاپ 3 کو اپنی بالنگ سے بے بس کر سکتی ہے، اور وہ پاکستان ہے۔
یہ اس لیے نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس سری لنکا اور انڈیا سے زیادہ ہتھیار ہیں۔ بلکہ اس لیے کہ پاکستان کے دو لیگ اسپنر ان تین فیورٹس کی دھجیاں اڑا سکتے ہیں۔
باقی رہی بات 0-6 کے ریکارڈ کی، تو شاید پاکستان ناک آؤٹ مرحلے میں یہ ریکارڈ توڑ دینے میں کامیاب ہو جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ورلڈ کپ میں ہمارا ایک بار پھر ٹاکرا ہو، اور 2015 میں ہی پٹاخے پھوڑنے کا موقع مل جائے۔
تبصرے (2) بند ہیں