وقار اور ورلڈ کپ: کیا بدشگونی کا خاتمہ ہوگا؟
مارچ 1992ء کے آخری ایام تھے۔ لاہور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ایک جم غفیر عالمی کپ جیت کر وطن واپس آنے والے قومی کھلاڑیوں کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھا۔ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی لیکن مسرت پورے مجمع سے پھوٹ رہی تھی۔ لاؤنج سے باہر آنے والے کھلاڑیوں نے استقبال کرنے والوں میں ایک شناسا چہرے کو پایا اور خوشی سے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ بس ورلڈ کپ جیتنے میں وقار یونس کا اتنا ہی کردار تھا، فاتح کھلاڑیوں کا استقبال کرنے کی حد تک۔
وقار یونس پاکستانی تاریخ کے عظیم ترین باؤلرز میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے 373 ٹیسٹ اور 416 ون ڈے وکٹیں حاصل کیں، کئی ریکارڈز، اور ساتھ ساتھ حریف بلے بازوں کی ہڈیاں توڑیں، چند تاریخی و یادگار کامیابیاں سمیٹیں لیکن ورلڈ کپ ان کے نصیب میں نہیں تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جب وقار اس سب سے بڑے اعزاز کے قریب پہنچتے تو یہ ان سے دور بھاگ جاتا، یا اگر وقار دور ہوتے تو یہ پاکستان کرکٹ کے گلے لگ جاتا۔
پڑھیے: شاہد آفریدی دوبارہ کپتان، ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے
وقار یونس کو پہلا موقع 1992ء کے ورلڈ کپ میں ملا، جو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں طے تھا یعنی تیز باؤلرز کے لیے سازگار وکٹوں پر۔ وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی ان میدانوں میں تہلکہ مچا دیتی۔ پھر وقار یونس بہترین فارم میں بھی تھے۔ ورلڈ کپ سے صرف چار مہینے پہلے انہوں نے پاکستان کی تاریخ کی یادگار ترین فتوحات میں سے ایک حاصل کی تھی جب شارجہ میں انہوں نے تنِ تنہا ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستان کو مقابلہ جتوایا تھا۔ لیکن آسٹریلیا روانہ ہونے کے بعد وہ زخمی ہوگئے اور پھر انہیں عالمی کپ 1992ء کے تمام مقابلے گھر بیٹھ کر دیکھنے پڑے۔ لیکن وقار یونس کے بغیر بھی پاکستان نے ناقابل یقین طور پر ورلڈ کپ جیت لیا۔
بالآخر بین الاقوامی کریئر کے آغاز کے 7 سال بعد وقار یونس نے پہلا ورلڈ کپ 1996ء میں کھیلا۔ پاکستان اپنی تاریخ کی مضبوط ترین ٹیم کے ساتھ اپنے ہی میدانوں میں اعزاز کے دفاع کے لیے فیورٹ تھا۔ توقعات کے عین مطابق پاکستان باآسانی ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچا جہاں اس کا کوارٹر فائنل میں ہی ہندوستان سے ٹکراؤ ہوگیا۔
بنگلور میں ہونے والے تاریخی کوارٹر فائنل مقابلے میں جب ٹکر کا مقابلہ ہو رہا تھا تو وقار یونس نے آخری دو اوورز میں 40 رنز دے دیے۔ اجے جدیجا نے اپنے کریئر کی یادگار ترین اننگز میں سے ایک کھیلی اور وقار یونس کو پڑنے والے یہی رنز بعد ازاں فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ سعید انور اور عامر سہیل کی شاندار ابتدائی شراکت داری بھی پاکستان کو مقابلہ نہ جتوا سکی اور بھارت نے 39 رنز سے میچ جیت کر پاکستان کو ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر کردیا۔ ہر پاکستانی سکتے میں تھا اور وقار یونس انتہائی دل گرفتہ۔
مزید پڑھیے: میچ کون جتوا سکتا ہے؟
1999ء میں انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ میں بھی وقار یونس ٹیم کے ساتھ تھے لیکن شعیب اختر جیسے نوجوان اور تیز رفتار باؤلرز اور ساتھ ہی عبدالرزاق اور اظہر محمود جیسے کارآمد آل راؤنڈرز کی موجودگی میں ان کی ٹیم میں جگہ نہیں بنی۔ پاکستان نے تقریباً تمام ہی مقابلے وقار یونس کے بغیر کھیلے۔ انہیں صرف ایک میچ بنگلہ دیش کے خلاف کھلایا گیا، اور اسی میں پاکستان کو شکست ہوئی۔ بہرحال، پاکستان وقار یونس کی مدد کے بغیر دوسرا عالمی کپ فائنل کھیلا، یہ الگ بات ہے کہ وہاں شکست کھائی۔
پھر 2003ء میں وقار یونس کو آخری ورلڈ کپ کھیلنے کا موقع ملا وہ بھی کپتان کی حیثیت سے۔ لیکن تاریخ کی بدترین کارکردگی ان کی منتظر تھی۔ پاکستان ہندوستان، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ سے شکست کھا کر پہلے ہی مرحلے میں باہر ہوگیا اور ساتھ ہی وقار یونس کے کریئر کا افسوسناک انداز میں اختتام بھی ہوا۔
لیکن وقار یونس کو 2011ء میں کوچ کی حیثیت سے اس سلسلے کو ختم کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان نے گروپ مرحلے میں آسٹریلیا اور میزبان سری لنکا کے خلاف بہترین فتوحات حاصل کر کے کوارٹر فائنل میں جگہ پائی اور ویسٹ انڈیز کو روندتے ہوئے سیمی فائنل میں پہنچا۔ ایک بار پھر ہندوستان سامنے تھا اور وقار یونس کے ذہن میں 1996ء کے مناظر تازہ تھے۔ 30 مارچ 2011ء کو پورے برصغیر نے دم سادھے اس مقابلے کو دیکھا جہاں پاکستان نے اپنی فیلڈنگ کی وجہ سے جیتی ہوئی بازی ہاری۔ وقار یونس کوچ کے طور پر بھی اس بدشگونی کا خاتمہ نہ کرسکے۔
دیکھیے: پاکستان کے تاریخی ورلڈ کپ لمحات
اب 2015ء میں ایک بار پھر وقار یونس پاکستان کے ہیڈ کوچ ہیں۔ جو کام وہ 1992ء میں نہیں کر پائے تھے، وہ اب بھی ادھورا ہے اور اسے پورا کرکے سکون کا سانس لینا چاہتے ہیں۔ حالات وہی، مقام وہی، جذبات اور کیفیات بھی وہی، کیا وقار یونس تاریخ کا دھارا پلٹ پائیں گے؟ شاید ان کے پاس یہ آخری موقع ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں