شَبّو! نام میں کیا رکھا ہے؟
اسکول کا دور اور اسکول کی مستیاں واہیات قسم کی ہوتی ہیں۔ جب استانی جی کلاس میں ہمیں پڑھاتی تھیں تو ہم کاغذ کا ٹکڑا منہ میں ڈال کر خوب چباتے، اور جب کاغذ خوب نرم ہو جاتا تو منہ سے نکال کر تختہ سیاہ (اس زمانے میں وائیٹ بورڈ نہیں ہوتا تھا) کی جانب پھینک دیتے جہاں استانی کچھ لکھ رہی ہوتی تھیں۔ آواز آتی 'چَق' اور گیلا اور گَلا ہوا کاغذ بورڈ سے چپک جاتا۔ اور پھر جب استانی صاحبہ چیختیں کہ ’’کون بدتمیز ہے یہ؟‘‘ تو کلاس کے سارے بچے چُپ ہو جاتے اور ایک دوسرے سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے۔
ویسے بھی اسکول میں تفریح کے نت نئے طریقے تلاش کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ ڈسٹر، جس کے انگ انگ میں چاک کا پوڈر بھرا ہوا ہوتا تھا، پنکھے کی طرف پھینکتے اور ایک سیکنڈ میں ساری کلاس سفیدی مائل ہو جاتی۔ گھر جاتے تو امی کہتیں چونے کی دکان سے آئے ہو کیا۔ ہماری کلاس میں سب لڑکے دانستہ ایک دوسرے کے تسمے کو بار بار کھولتے اور ایک دوسرے کو تکلیف دے کر بہت خوش ہوتے۔
اسی طرح کسی بھی کلاس فیلو کے بیٹھنے سے پہلے اس کی کرسی پر چھوٹا سا چاک رکھتے اور جب وہ بیٹھ جاتا تو چاک کی وجہ سے اس کی نیلی پینٹ پر سفید داغ بن جاتا۔
آخری دنوں میں ہماری کلاس میں ایک تکیہ کلام مشہور ہوگیا تھا۔ میرے خیال میں یہ ارشاد کی تخلیق تھی۔ یا اس نے کہیں اور سے سنا تھا۔ جب بھی کوئی لڑکا کچھ کہتا تو اس کا جواب ہم یوں دیتے کہ 'شاؤ بیا' یعنی 'رات کو آؤ۔' مجھے آج تک اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔ مگر یہ جملہ کہنے کے بعد اگلے بندے کے چہرے کے تاثرات ہوتے تھے وہ بیان سے باہر ہیں۔ خیر، آج اسکول کی یاد اس لیے آئی کیونکہ ٹھیک 8 سال کے بعد آسٹریلیا سے میرا کلاس فیلو ’’نادر چھوٹا‘‘ پاکستان آنے والا تھا۔ نادر کلاس میں قد میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے سب اسے نادر چھوٹا پکارتے تھے۔ میں صبح 5 بجے سے ہوائی اڈے پر اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس 8 سال کے عرصے میں اس نے ایک دفعہ بھی فون نہیں کیا تھا اور نہ ہی میں نے اس کی خبر لی تھی۔ مگر جب کچھ دن پہلے اس کا فون آیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اس نے مجھے یاد کیا۔
کہیں پڑھا تھا کہ اسکول کی دوستی سب سے مضبوط ہوتی ہے کیونکہ یہ اس وقت بنتی ہے جب سارے بچے عزت سے ماورا ہوتے ہیں۔ اسکول میں کوئی ڈاکٹر نہیں ہوتا، کوئی سرمایہ کار نہیں ہوتا، کوئی وکیل یا آرمی چیف نہیں ہوتا۔ اس لیے انا بھی نہیں ہوتی بھرم بھی نہیں ہوتا۔ سب کے سب بے عزت۔ اس لیے سب ایک دوسرے کو محبت اور شفقت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بعد کی زندگی میں عزت دیتے ہیں۔ شاید اسی لیے میں اس مصروف زندگی میں صبح 5 بجے سے ہوائی اڈہ میں بیٹھا تھا۔ ورنہ پچھلے ہفتے ہی چچا زاد بھائی آنے والا تھا اور میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ میں مصروف ہوں حالانکہ سارا دن فلمیں دیکھتا رہا۔
جب میں نے نادر کو دیکھا تو عجیب سا محسوس ہوا۔ وہ بالکل بدل گیا تھا۔ اس کے گھنگریالے بال اب کافی کمزور لگ رہے تھے۔ وہ بہت زیادہ پُر تکلف اور مہذب اندازمیں باتیں کر رہا تھا جیسے ہم ایک دوسرے کو زیادہ نہیں جانتے۔ پہلے تو مجھے بہت برا لگا پھر جیسے جیسے ہم باتیں کرنے لگے، وہ آہستہ آہستہ کھلنے لگا۔ جب میں نے تکلف کا سبب پوچھا تو کہنے لگا 'یار تم اب بڑی کمپنی میں کام کرتے ہو۔ میں نے سوچا ایسا نہ ہو تم کو برا لگے۔' اور جب میں نے اسے دو تین اسکول والی گالیاں دی تب خوش ہو کر بولا، یہ میرا دوست! بالکل نہیں سدھرے تم۔ میں نے اپنی تعریف سن کر اسے گلے سے لگا لیا۔
پھر ہم نے بہت ساری باتیں کیں۔ آسٹریلیا کی، پاکستان کی، امریکا کی، سیاست کی، مذہب کی، والدین کی، میرے بچوں کی، اس کے بچوں کی، بیوی کے بارے میں تو نہ اس کی ہمت ہوئی نہ میری ہمت ہوئی کہ کچھ کہہ سکیں۔ اور پھر میرا پسندیدہ موضوع آ گیا۔ اسکول۔ میں نے اسکول میں اپنے زندگی کا بد ترین دور گزارا ہے مگر اسکول سے جڑی یادیں میری زندگی کی بہترین یادیں ہیں۔ نادر کہنے لگا یار آسٹریلیا میں صادق کا بہت بڑا کاروبار ہے۔ وہ ماشااللہ بہت بڑا سرمایہ کار بن گیا ہے۔
میں نے پوچھا کون صادق؟ اس نے کہا یار اپنا صادق جو کافی لمبا پتلا تھا کلاس میں۔ ارے یار 8 ڈی سے ہمارے ساتھ ساتھ پڑھتا رہا۔ میں نے بہت زور دیا۔ مگر یاد نہیں آیا۔ اصل میں ہماری کلاس میں تین صادق تھے۔ میں نے پوچھا صادق گاجر؟ نادر نے کہا نہیں یار۔ گاجر تو اٹلی میں ہے۔ یار وہی صادق جس کے ابو پچھلے سال فوت ہو گئے۔ میں نے دوبارہ سوچ کے پوچھا صادق لنگڑا؟ نادر تھوڑا غصے میں آ کے بولا بھائی پاگل ہوگیا ہے کیا؟ صادق لنگڑا تو امام بارگاہ کلان کے واقعے میں شہید ہوگیا۔ میں نے دوبارہ سوچنا شروع ہی کیا تھا کہ اچانک مجھے یاد آ گیا اور پھر ایک عجیب سا سکوت طاری ہوگیا۔ بالکل خاموشی۔ وہ میرے انتظار میں تھا کہ میں بولوں اور میں اس کے انتظار میں۔ آخر میں نے دھیمی آواز میں بولا 'صادق گوبر؟' اس نے سر ہلایا۔
صادق گوبر ہماری کلاس کا سب سے پڑھاکو، شریف اور با ادب لڑکا تھا۔ اسے صادق گوبر صرف اس لیے کہا جاتا تھا کیونکہ ایک دفعہ پنجم کلاس میں اس کی طبیعت بہت خراب تھی تو بخار کی حالت میں اس نے... بس۔ یہ ہونا تھا کہ اسی دن سے اس کا نام صادق گوبر سارے اسکول میں مشہور ہوا۔ آج اس کا شمار کامیاب کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے مگر آج تک سارے دوست اسے اس کے اس غلیظ نام سے جانتے ہیں۔ یہ نام پکارنے کے بعد مجھے بے حد شرمندگی ہوئی۔
یہ واقعہ ہونے کے بعد میں نے سوچنا شروع کر دیا (ویسے کبھی کبھی انسان کو یہ کام بھی کر لینا چاہیے)۔ میں نے کچھ لوگوں سے اس بارے میں پوچھا، اور مختلف ممالک کی ثقافت کے بارے میں دریافت کیا جو آپ کے پیش نظر رکھتا ہوں۔ نام عموماً تین قسم کے ہوتے ہیں۔ اسم اول، اسم وسط اور اسم فامیل۔ بیرونی دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت اسم فامیل کو دی جاتی ہے، مگر ہمارے معاشرے میں اس کی اہمیت بہت کم ہے۔ فرض کیجیے میرا نام سید علی زیدی ہے (اس میں فرض کرنے کی کیا بات ہے، میرا نام سید علی زیدی ہی ہے)۔ میرا اسم اول 'سید'، اسم وسط 'علی'، اور اسم فامیل 'زیدی' ہے۔
بہت سے ایسے خوش نصیب لوگ ہیں جو تینوں ناموں کے مالک ہیں۔ مگر بہت سارے ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو صرف دو ناموں سے ہی گزارا کر رہے ہیں۔ مثلاً عابد علی، محمد عاطف، غلام رسول، ساجد حسن وغیرہ وغیرہ۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ ان حضرات کے اسم میں ان کے والد صاحبان کا نام اسم فامیل کے طور پر ڈالا جاتا ہے۔ مثلاً اگر محترم محمد عاطف کے والد گرامی کا نام شاہد سلیم ہے تو ان کا نام محمد عاطف سلیم کیا جاتا ہے۔ اگر ہم دوسرے ممالک کو دیکھیں، خاص طور پر افغانستان اور ایران کو، تو بہت سارے دلچسپ اسم فامیل سننے میں آتے ہیں۔ یہ اسم فامیل عام نام سے ذرا مختلف ہوتا ہے اس لیے ہمیشہ یاد رہتا ہے۔
اسم فامیل رکھنے کے مختلف طریقے ہیں۔ سب سے معروف اور آسان طریقہ تو یہ ہے کہ کسی بھی لفظ کے آخر میں 'ی' کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً عاطفی، انقلابی، ناصری، انکساری، اصغری، امینی، عمرانی، محمدی، شافعی، راحتی، مینائی، شمیمی وغیرہ وغیرہ۔ ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی لفظ کے آخر میں لاحقہ (suffix) لگایا جاتا ہے، مثلاً نژاد، والا، دوست، باز، ساز، آبادی، دراز، گر، رو، شامل کیا جاتا ہے۔ ان کی مثال ہوں گے احمدی نژاد، ہفت نژاد، حق نژاد، مرچی والا، پیٹی والا، پان والا، قلم دوست، شفق دوست، عرب دوست، دل باز، پتنگ باز، سگ باز، آلا آبادی، خانہ آبادی، رنگ ساز، رمز ساز، کمر ساز، عمر دراز، نصب دراز، آہن گر، زر گر، سرخ رو، کم رو، شب رو وغیرہ وغیرہ۔
ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اپنے نام کے ساتھ کسی جگہ کا نام شامل کیا جاتا ہے۔ مثلاً دہلوی، لکھنوی، کوئٹہ والا، لاہوری، سیستانی، بولانی، کابلی وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح بہت سے لوگ اپنے آباؤ اجداد کے پیشے کو اسم فامیل کے طور پر استمال کرتے ہیں مثلاً کبابی، زرگر، منشی، کفن دوز، کفش باف، نجار، معمار، سنگ تراش وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح یہ اسم اتنا دلچسپ بن جاتا ہے کہ وہی پکارنے کو دل چاہتا ہے۔ اور ایران اور افغانستان میں رسم بھی یہی ہے کے ایک دوسرے کو اسم فامیل کے نام سے ہی مخاطب کرتے ہیں جو اپنے آپ میں انفرادیت کا حامل ہے۔
اگر دیکھا جائے تو میری زندگی میں ہی چار جمشید رضا، پانچ محمد عمر، تین غلام حسین، اوردو ندیم اختر گزرے ہیں۔ اب اگر کسی کو ان صاحبان کے بارے میں بتانا ہو تو پہلے ان کے عرف نام سے پکارنا پڑتا ہے۔ مثلاً جمشید کوّا، عمر لڑکی، ناصر پینسل، راحت چُمّی، بشیر اُنگلی، ساجد ڈاکو، ندیم خارش، افضل گُدگُدی وغیرہ وغیرہ۔ اگر ان کے عرف نام نہیں ہیں تو اور زیادہ مشکل ہو جاتی ہے، تفصیلات بتانی پڑتی ہے۔ مثلاً جانتے ہو نہ ہادی کو، جو اتنا گنجا ہے کہ مکھی بھی اس کے سر سے پھسل جائے، ارے اپنا کاشف جس کے موزے پپیتے کی طرح بدبودار ہوتے ہیں۔ یار وہی غفور جس کا سر گھوڑے کی طرح لمبا ہے، ہاں ہاں وہ نثار جس کی آواز لاؤڈ اسپیکر کی طرح ہے، جی بالکل وہی کاظم جس کا منہ انیس انچ بڑا ہے۔
میرا ایک دوست ہے جس کا نام حسین اجتہادی ہے۔ حالانکہ میرے ایک کزن کا نام بھی حسین ہے، ایک کلاس فیلو کا نام بھی حسین ہے، ایک ہمسایہ بھی ہے جس کا نام حسین ہی ہے، مگر حسین اجتہادی کا نام سب سے الگ ہے۔ کبھی کسی کو بتانے میں دشواری نہیں ہوئی۔ ایک لفظ 'اجتہادی' اور وہ شخصیت ذہن میں آ گئی۔ اب سوال یہ کہ بھائی، اگر آپ اپنے آپ کو اتنا ہی عقلمند تصور کرتے ہیں تو اس کا حل بھی بتائیں۔ جن حضرات کا اسم فامیل نہیں ہے وہ کیا کریں؟ چرس یا خود کشی؟
نہیں بھئی اس کا ایک آسان طریقہ کار ہے جو میں خود عملی طور پر کر چکا ہوں۔ جی ہاں، پہلے ب فارم میں میرا نام سید علی تھا۔ زیدی تو بعد میں، میں نے گمراہ کرنے کے لیے شامل کیا۔ کیسے؟ کچہری میں جائیں اور ایک حلف نامہ بنوائیں جس میں یہ لکھا ہو کہ میں اپنے نام میں زیدی لفظ کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ تقریباً 500 سے 1000 روپوں کا خرچہ آئے گا۔ اور آپ کا نام درج ہو جائے گا۔ اسی حلف نامے کے موافق آپ کا شناختی کارڈ اور ب فارم بھی تبدیل کیا جائے گا۔
لو جی، میں کن باتوں میں الجھ گیا۔ میں تو نادر کے بارے میں بتا رہا تھا۔ خیر، آخرش یہ کہ نادر سے بہت ساری باتیں کی۔ کچھ وہ پردیس کی غربت کے بارے میں بتاتا رہا، اور کچھ میں اپنے ملک کی شکایات کرتے ہوئے جذباتی ہوتا رہا۔ وہ کہتا کہ پردیس کی زندگی جانوروں کی زندگی ہے، صبح شام کام اور بس کام، تو میں کہتا 'کم سے کم پانی بجلی کا مسئلہ تو نہیں ہے نا؟ یہاں تو نہ پانی میسر ہے نہ بجلی۔' وہ کہتا 'تنہائی میں مر بھی جاؤ تو کوئی پوچھنے نہیں آئے گا۔' تو میں کہتا 'کم سے کم سکون تو ہے، یہاں تو باتوں باتوں میں کفر کے فتوے لگتے ہیں اور خوشی سے قتل کرتے ہیں۔' وہ کہتا 'ارے یہاں والدین اور رشتہ دار پاس تو ہیں جو خوشی اور غم میں شریک ہوں۔' تو میں کہتا 'کیا فائدہ، روز روز دھماکے اور قتل وغارت سے نہ امی سکون میں ہے نہ رشتہ دار۔ آواز دھماکے کی آئے تو سیدھا فاتحہ پڑھتے ہیں۔'
جذبات میں یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ بے ساختہ ایک پیاری آواز میں خاتون نے کوئٹہ جانے والوں کو جہاز میں جانے کو کہا۔ نادر اور میں اچانک افسردہ ہو گئے۔ کتنا اچھا وقت گزر رہا تھا۔ خیر کچھ لوگ آتے ہی ہیں جانے کے لیے۔ نادر نے مجھے زور سے گلے لگایا۔ میں نے بھی بھری آواز میں اسے الوداع کہا۔ اس نے بہت ساری دعائیں دینے کے بعد کہا 'خدا حافظ شَبّو' اور اس طرح نادر کے آخری جملے نے پہلے تو تلخ اور پھر بعد میں بہت ساری شیریں یادوں کو تازہ کر دیا۔
نوٹ: مندرجہ بالا دیے گئے سارے نام خیالی ہیں اور کسی بھی شخص سے مشابہت محض اتفاقیہ ہوگی۔
تبصرے (9) بند ہیں