کراچی لٹریچر فیسٹیول 2015: اونچی دکان، پھیکا پکوان
دنیا بھر میں ادبی میلے سجانے کی روایت اب خاصی پرانی ہو چلی ہے، لیکن زیادہ تر معاملات میں ہم پڑوسیوں کی طرف دیکھتے ہیں، اسی لیے جب 2008میں ہندوستان میں ”جے پور لٹریچر فیسٹیول“ کا پہلی مرتبہ انعقاد کیا گیا تو حسبِ روایت پاکستان میں بھی ادبی حلقوں کی توجہ اس طرف گئی، اور پھر انہیں بھی خیال آیا کہ اس طرح کا ادبی میلہ پاکستان میں منعقد ہونا چاہیے۔ یوں ٹھیک 2 برس بعد پاکستان میں بھی ایسے ہی ادبی میلے کا انعقاد ممکن بنایا گیا۔
رواں برس چھٹا کراچی لٹریچر فیسٹیول منعقد ہوا۔ ہم اس پر بات کرنے سے پہلے اگر گذشتہ برسوں کا جائزہ لیں تو دکھائی دیتا ہے کہ کراچی میں اس ادبی میلے نے اپنی بھرپور ابتدا کی تھی۔ پاکستان، ہندوستان، امریکا اور یورپی ممالک سے مصنفین شریک ہوتے رہے، ہرچند کہ ابتدائی کچھ برس اس میں انگریزی لکھنے والے اہل قلم کی تعداد زیادہ تھی، لیکن پھر ادبی میلے کی انتظامیہ نے اس تاثر کو بھی دور کیا اور اردو زبان سمیت دیگر علاقائی زبانوں میں لکھنے والے ادیبوں کو بھی اس میں شریک کیا، یوں یہ ادبی میلہ ہر سال اہلیان کراچی کے لیے ایک اہم سرگرمی بننے لگا۔ اس مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے اس کو لاہور اور اسلام آباد میں بھی منعقد کرنا شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ چلڈرن لٹریچرفیسٹیول کی بنیاد بھی رکھی گئی۔
ذرائع ابلاغ کی بھرپور حمایت نے اس ادبی میلے کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ ہر برس لوگ اس میں بڑی تعداد میں شرکت کرنے لگے، لیکن پھر وہی ہوا جو اکثر ہوتا آیا ہے، مقبولیت کا نشہ چال کے توازن کو بگاڑ دیتا ہے۔ اس ادبی میلے کے معاملات بھی منتشر ہونے لگے، لیکن چونکہ یہ ملک کی ایک اہم ادبی سرگرمی تھی، اس لیے غیر ضروری تنقید سے پرہیز کیا گیا، لیکن اس فراخدلی سے یہ ادبی میلہ اپنا معیار مزید کھونے لگا۔ ادبی میلے کے بنیادی خیال سے اس میلے کی انتظامیہ دور ہوتی چلی گئی اوریہ ادبی سرگرمی کے بجائے تماشے میں تبدیل ہوگیا۔
میلے سے تماشے تک کا فاصلہ بہت جلدی طے ہوا۔ کھیل کود، کھانا پینا، سیاسی گرما گرمی، شوبز کی سرگرمیاں، تجارتی اداروں کی شمولیت اور سب سے بڑھ کر اس کا پھیلاؤ، جو کئی شہروں تک پھیلا لیا گیا جس کے نتیجے میں معیار متاثرہوا۔ یہ جے پوروالوں کی طرح (جن سے اس ادبی میلے کا خیال ان کو آیا) ایک ہی شہر تک محدود رہتے اور بھرپور توجہ دیتے تو شاید ٹھیک رہتا، لیکن یہ ادبی میلہ ادب سے زیادہ تجارتی رنگ میں ڈھلنے لگا۔
ہمارے ملک اور خاص طور پر کراچی کے حالات میں ایسے پروگرامز ایک نعمت ہوتے ہیں، لیکن اب اگر یہ پروگرام ذوق کی آبیاری کرنے کے بجائے صرف تعلقات کو وسعت دینے کا ذریعہ بن جائیں تو پھر ادب سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ نعمت کسی زحمت سے کم نہیں ہوگی۔ اس ادبی میلے کی تعریفیں تو سب نے بہت کیں، مگر اب کچھ تنقیدی تجزیہ کر لیتے ہیں، کیونکہ ہمارے ہاں ادب میں کبھی تنقید بھی ایک فعال شعبہ ہوا کرتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب ہمارے ادب میں تنقیدی روایات دم توڑ رہی ہیں، کیونکہ تنقید ہمارے ہاں پسند نہیں کی جاتی۔ اسی لیے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں اس صنف پر کبھی کوئی سیشن نہیں رکھا گیا۔ بہرحال، اس ادبی میلے میں کیا کب اور کیوں ہوا، اس کا ایک طائرانہ تجزیہ پیش خدمت ہے۔
شرکاء کی تعداد میں بتدریج کمی
یہ ایک بنیادی بات ہے کہ اس مرتبہ اس ادبی میلے میں شرکا کی تعداد کافی کم تھی، کافی سیشنز ایسے بھی تھے، جس میں شرکت نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ کئی جگہ تو لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔ مجموعی طور پر گذشتہ برسوں کے مقابلے میں اس بار لوگوں نے اس طرح شرکت نہیں کی، جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ ادبی میلے کی انتظامیہ نے تمام بڑے قومی روزناموں میں اشتہارات بھی دیے تھے مگر وہ بات نہ بنی جس کا ماضی میں چرچا تھا۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول کی ویب سائٹ کے مطابق شرکا کی تعداد پہلے برس 5000 اور پانچویں سال میں یہ تعداد 70000 تک جا پہنچی تھی، لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں تھا۔ اس رجحان میں کمی واضح طور پر اشارہ ہے کہ اس ادبی میلے کی ساکھ گر رہی ہے۔
اُردو زبان و ادب نظرانداز
اس میں کوئی شک نہیں کہ چند ایک موقعوں پر اردو کے کئی بڑے ادیبوں کو شامل کیا گیا، مگر پھر بتدریج یہ سلسلہ کم ہوگیا۔ صرف چند نام ہر مرتبہ شامل کر لیے جاتے ہیں۔ خاص طورپر کراچی میں اچھی کہانی اورافسانہ لکھنے اور شاعری کرنے والے تخلیق کاروں کی معقول تعداد ہے، لیکن انتظامیہ کا زور رہتا ہے کہ باہر سے لوگ مدعو کیے جائیں۔
چاہے اردو ادب ہو یا اردو زبان، اس کے سیشنز نہ ہونے کے برابر تھے۔ صرف رسم پوری کرنے کے لیے چند ناموں کو ہی بار بار شامل کیا جاتا ہے۔ شاید اس معاملے میں انتظامیہ کراچی آرٹس کونسل سے متاثر ہے، کیونکہ اسپیکرز کے نام دیکھ کر ایک اندازہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کراچی لٹریچر فیسٹیول اور عالمی اردو کانفرنس کے مابین بھی کوئی تحسینِ باہمی کا معاملہ ہے۔
جان پہچان اورذاتی تعلقات کے فروغ کا ذریعہ
اس مرتبہ اسپیکرز کے ناموں کی فہرست کو دیکھا توایسا محسوس ہوا کہ چند ایک ناموں کے علاوہ سب خانہ پری تھی، جنہیں اسپیکرز اور موڈریٹرز کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ اسی طرح میاں بیوی یا دیگر رشتے ناطے کے افراد اکثریت میں دکھائی دیے۔ ایسا محسوس ہوا کہ صرف بھرتی کی گئی ہے نہ کہ موضوع کے پس منظر کے لحاظ سے کوئی انتخاب۔ اس سے آگے کیا کہا جائے۔ اسی طرح اسپیکرز کے لیے موضوع کچھ ہے، لیکن اس سیشن کی نظامت کرنے والا کسی اور شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔ موضوع، مہمان، اور میزبان میں مماثلت کا خیال نہیں رکھا گیا۔
پھر اس بات سے اندازہ کریں کہ اس ادبی میلے کے شریک تخلیق کار (کو فاؤنڈر) نے صرف اپنی 4 کتابیں لانچ کیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے اکثر مواقع پر واضح ہدایات دی گئی تھیں (میں خود بھی اس بات کا گواہ ہوں کہ ایک بار مجھے بھی بتایا گیا) کہ کوئی انتخاب یا ترجمہ کی گئی کتاب نہ تو ادبی میلے میں شامل کی جائے گی، نہ ہی وہ کسی انعامی دوڑ میں شامل ہوسکتی ہے۔ لیکن یہاں تو ایک نہیں کئی ایسی کتابیں شامل ہوئیں۔
یکسانیت اور ایک جیسے نام بار بار شامل کرنا
پاکستان سے انگریزی ادب کے بہت سارے نام ایسے ہیں، جن کا نام مستقل اور مسلسل ہر برس شامل کیا جاتا ہے، لیکن کئی برسوں سے انہوں نے نہ تو کوئی کتاب لکھی ہے اور نہ ہی عصرِ حاضر کے مقامی انگریزی ادب میں ان کا کوئی مقام ہے، لیکن یہ لوگ مستقل شامل کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے اب یہ فیسٹیول یکسانیت کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اس ادبی میلے میں کئی ایسے بھی نام ہیں جن کی شرکت کی ایک وجہ ان کا اپنے اخراجات پر بیرون ملک سے پاکستان آمد ہے۔
غیر ادبی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی بحیثیت اسکالر شمولیت
اس لٹریچر فیسٹیول میں بہت سارے ایسے نام ہیں، جن کا لٹریچر سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن ایسے ناموں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو یا تو بزنس مین ہیں، یا کوئی این جی او چلاتے ہیں، یا پھر آرٹ کے دلدادہ ہیں، حتیٰ کہ شوبز کے لوگ ہیں، مگر ایسی لوگوں کی بڑی تعداد لٹریچر کے نام پر اس میں شامل کی جاتی ہے۔
غیرادبی سرگرمیاں 60 فیصد اور ادبی 40 فیصد
یہ دنیا کا واحد لٹریچر فیسٹیول ہے، جہاں لٹریچر کے نام پر 60 فیصد دیگر سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں، لیکن اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ ادبی میلہ ہے۔ مثال کے طورپر فوڈ کورٹ لگایا جاتا ہے، جہاں خاصا مہنگا کھانا ملتا ہے۔ بچوں کے لیے کرتب اورتماشے کا اہتمام ہے۔ مختلف موضوعات کے نام پر سیاست کے سیشنز منعقد کیے جاتے ہیں اور سیاست دانوں کو بھی شریک میلہ کیا جاتا ہے، جس میں ادب نام کی کوئی چیز زیرِ بحث نہیں آتی۔
غیر ضروری لوگوں کا شامل ہونا
2015 کے کراچی لٹریچر فیسٹیول کی پریس کانفرنس کراچی آرٹس کونسل میں منعقد کی گئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ادارے مل کر کام کریں گے، بلکہ ہر سال کراچی آرٹس کونسل کے سربراہ اس پریس کانفرنس میں تشریف فرما ہوتے ہیں، لیکن اب کی بار آرٹس کونسل کا نام اور لوگو کہیں دکھائی نہیں دیا۔ اس کی وجہ سمجھ نہیں آئی کہ اگر کراچی آرٹس کونسل کا اس فیسٹیول سے تعلق نہیں ہے تو اس ادارے کے سربراہ پریس کانفرنس میں کیا کر رہے ہوتے ہیں اوراگر کوئی آفیشل تعلق ہے تو نام اور لوگو کہاں ہے؟ ایسے بہت سارے لوگ اور ادارے شامل ہیں، جن کی شمولیت کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔
اردو ادب کے لکھاریوں سے عدم واقفیت
اس فیسٹیول کی انتظامیہ ہمیشہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ اردو کے تمام لکھنے والوں کو نمائندگی دیتے ہیں، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، چند ایک نام بھرتی کے طور پر ہمیشہ شامل کیے جاتے ہیں اور ہر برس وہی نام ہوتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی ادیب ہی اردو زبان کے پاس نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اردو ادیبوں کے ساتھ امتیازی سلوک بھی کیا جاتا ہے، جس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔ کراچی ہی سے کئی شاندار لکھنے والوں کو کبھی شامل نہیں کیا گیا اور جن چند لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے، وہی نام بار بار دہرائے جاتے ہیں۔
دوسرے ممالک کے کم اہم اور سطحی اسکالرز کی شرکت
جن ممالک کا اس فیسٹیول میں اشتراک یا تعاون ہوتا ہے، ان کے بڑے اور اہم لکھنے والے کم ہی شامل ہوتے ہیں اور جولوگ ان ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ بہت ہی عام اورسطحی نام ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان سے ایسے بھی لوگوں کو اس فیسٹیول کی دعوت دی جاتی ہے، جن کو وہاں ہونے والے جے پور کے فیسٹیول میں بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ حوالے کے طور پر جے پور فیسٹیول کا شیڈول دیکھا جا سکتا ہے۔
ہمارے ملک اور شہرِ کراچی کو ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کی اشد ضرورت ہے چاہے اس کا انعقاد کوئی بھی کرے، لیکن معیارکڑی شرط ہے۔ اس کے بغیر ایسی سرگرمیاں کسی کام کی نہیں۔ امید ہے کہ کراچی لٹریچر فیسٹیول کی انتظامیہ آنے والے برسوں میں اس کا خیال رکھے گی۔ ضروری نہیں کہ میلہ صرف تب ہی کامیاب ہو جب اس میں بڑے نام شامل ہوں۔ بڑے نام ضرور شامل کریں لیکن نوآموز اور کم مشہور لوگوں کو بھی نظر انداز نہ کریں۔ ویسے بھی اردو کا ایک محاورہ ہے نا کہ اونچی دکان پھیکا پکوان، تو کہیں یہ بھی ایسا معاملہ ہی نہ ہو جائے۔ امید ہے کہ کراچی لٹریچر فیسٹیول کی انتظامیہ آنے والے برسوں میں معیار کا اسی طرح خیال رکھے گی، جس طرح ابتدائی برسوں میں رکھا گیا تھا۔
تبصرے (11) بند ہیں