دو متضاد کپتان
ہماری قوم ہمارے ہیروز سے بے پناہ عقیدت قائم کر لیتی ہے، اور ایسا کرتے ہوئے اکثر یہ بھی بھول جاتی ہے کہ 'عام لوگ' بھی کبھی کبھی زبردست کام کر سکتے ہیں۔
عمران خان 1992 میں ورلڈ کپ جیتنے سے پہلے ہی لیجنڈ بن چکے تھے۔
میدان میں کرشماتی شخصیت، متاثر کن ٹیم مینیجمنٹ ، اور کھیل کی زبردست سمجھ ان کے ایسے ہنر تھے، جنہیں کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ اور یہی ہنر لے کر وہ ٹورنامنٹ میں اترے تھے۔
دوسری جانب مصباح بالکل ہی مختلف قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ نرم انداز میں کام کرتے ہوئے اچھے فیصلے کرنے کے عادی ہیں، بیٹسمین کے طور پر وہ قابلِ اعتماد اور ٹھنڈے مزاج کے ہیں۔ وہ بیٹنگ لائن کو بکھرنے سے بچانے میں مہارت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے بدقسمتی سے انہیں ٹک ٹک بھی کہا جاتا ہے۔
پڑھیے: گو مصباح گو
عمران خان کی قابلیت اور خود اعتمادی نے انہیں پاکستان کے لیے کھیلتے ہوئے کئی مشکل حالات سے باآسانی گزرنے میں مدد دی ہے۔ قائدانہ صلاحیتوں میں ان کے بے مثال اعتماد اور ملک کے پسندیدہ ترین کھیل کی کپتانی کے لیے ان کے جیسے کسی دوسرے کی عدم موجودگی نے انہیں موقع دیا کہ وہ کرکٹ کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ میں انضمام، مشتاق، اور عامر سہیل جیسے نوجوانوں کے ساتھ تجربہ کر سکیں۔
دوسری جانب مصباح الحق کے پاس کرکٹ بورڈ، ٹیم کے اہم کھلاڑیوں، اور عام عوام کی بہت ہی روایتی حمایت موجود ہے۔ ان کا طریقہ کار کافی نپا تلا معلوم ہوتا ہے، جہاں بورڈ، سینیئر کھلاڑیوں، اور عوامی جذبات معجزے دکھانے کے لیے مطلوبہ اقدامات کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
پاکستان ٹیم کو عمران خان کے دور میں بھی ویسا ہی غیر متوقع سمجھا جاتا تھا جیسا کہ آج ہے۔ لیکن آج کل میچ کے بعد کی تنقید بالکل مختلف سمت میں جاتی دکھائی دیتی ہے۔
عمران خان کے دنوں میں بیٹنگ، بولنگ، اور فیلڈنگ کی خامیوں کو بہتری لانے کے لیے ڈسکس کیا جاتا تھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ میڈیا اور عوام مصباح الحق کو ناقابلِ معافی سمجھتے ہیں۔
اگر کھیلتے کھیلتے بیٹنگ لائن تباہ ہونے لگے تو جو الزامات عام طور پر لگائے جاتے ہیں وہ ٹیم کے اندر سیاست، میچ پریکٹس کی کمی، اور میچ فکسنگ کے ہوتے ہیں۔
عمران خان کے لڑکے جب 20 سال پہلے میدان سے باہر آتے تھے، تو انہیں سوشل میڈیا پر بے رحم تبصروں کا خوف نہیں ہوا کرتا تھا۔
مزید پڑھیے: مصباح کے بعد کون؟
عمران خان آگے بڑھ کر کامیابی سے قیادت کرتے تھے، جس کے نتیجے میں انہیں ٹیم کے باغی ترین کھلاڑیوں سے بھی عزت اور اطاعت ملتی تھی۔
مصباح نے کبھی بھی مڈل آرڈر میں اپنی پوزیشن سے تجربہ نہیں کیا ہے۔ اب یہ اسٹریٹجی خامیوں سے بھرپور لگنے لگی ہے، خاص طور پر پریشر والی صورتحال میں۔
مصباح کے پاس بھی اس کی کچھ وجوہات ہیں، جن میں ان پر ان کی ٹیم کا حد سے زیادہ اعتماد، کہ باقی کی بیٹنگ لائن کے بکھر جانے کے بعد وہ ہی کچھ رنز اسکور کر کے ٹیم کو شرمندگی سے بچا پائیں گے، شامل ہے۔
ہمیں کبھی بھی معلوم نہیں ہو گا کہ مصباح صحیح تھے یا غلط جب تک وہ کسی نازک میچ میں اوپری آرڈر میں نہیں آتے۔
بولنگ میں نت نئی تبدیلیاں اور جارحانہ فیلڈنگ عمران خان کی ذہانت کا ثبوت تھیں۔ مصباح نے حال ہی میں اپنی دفاعی اور کبھی کبھی عاجز حکمتِ عملی کو تبدیل کیا ہے تاکہ اپنے انداز کو تھوڑا جارح کیا جا سکے، جس کی بہت ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں 1992 کے ورلڈ کپ کے فارمیٹ کو بھی کریڈٹ دینا چاہے جس نے آخری لمحات میں ہمیں فتح دلانے میں زبردست کردار ادا کیا اور جس کی وجہ سے ہمارے کرکٹ ہیرو لیجنڈز میں تبدیل ہوئے۔ اس ورلڈ کپ کا فارمیٹ اس کے مقابلے میں کافی غیر متوقع ہے جو شاید مصباح کے لیے بے رحم ثابت ہو اگر ان کی ٹیم شروع سے ہی پرفارم کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
عمران اور مصباح ورلڈ کپ کھیلنے والے دو متضاد کپتان ہیں، البتہ عمران خان کے پاس بھی تقریباً ویسے ہی وسائل اور محدود ٹیلنٹ والی ٹیم تھی جیسی مصباح کی ہے۔
جانیے: ٹک ٹک سے ورلڈ ریکارڈ تک
مصباح نے گذشتہ کچھ سیریز میں خود کو ایک کامیاب لیڈر کے طور پر ثابت کیا ہے لیکن ان کا موازنہ عمران خان جیسے لیجنڈ سے کرنا صرف ان کی کارکرگی پر برا اثر ڈالے گا۔ وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ہم ان کی قابلیت پر یقین رکھیں، بجائے اس کے کہ انہیں دیوار سے لگا دیا جائے۔
عمران خان اور ان کی ٹیم کو ان لوگوں کی جانب سے بے پناہ اور غیر مشروط حمایت حاصل تھی جن کی وہ نمائندگی کر رہے تھے۔
اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ٹیم اس ورلڈ کپ میں کچھ کارنامہ کر دکھائے، تو ہمیں بھی مصباح اور ان کی ٹیم کے لیے غیر مشروط حمایت کرنی ہوگی۔
تبصرے (4) بند ہیں