جنوبی اسپین کے قدیم علاقے غرناطہ اور قرطبہ
جنوبی اسپین کے بارے میں بات ہورہی ہو تو سب سے پہلے کسی کے بھی ذہن میں وہاں کے محل، سٹاکہوم، ہسپانوی گٹار اور بل فائٹس گھومنے لگتی ہیں لیکن جب ایک پاکستانی اسپین کے سفر کو جاتا ہے تو اس کے ذہن میں پہلی دو چیزیں جو آتی ہے وہ ہیں الحمرہ اور قرطبہ کی مسجد ۔
اقبال کی شاعری، تاڑڑ کے سفر ناموں اور حجازی کی لکھی گئی کہانیوں میں جس قسم کے اسپین کا ذکر کیا گیا ہے اس سے ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں کچھ نا کچھ خاکہ تو بن ہی جاتا ہے۔
اسپین کو کھونے کا غم تو صدیوں سے ہمارے ساتھ موجود ہے تاہم کچھ لوگ ان دونوں اسلامی تاریخ کی نشانیوں کو دیکھ کر اسے ہلکا کرلیتے ہیں۔
والیںسیا
مجھے ایک بار کچھ دنوں کیلئے اپنے دوست کے ساتھ بارسلونا جانے کا اتفاق ہوا۔ بارسلونا کے کونے کونے کو دیکھنے کیلئے ہم نے ایک کار کرائے پر حاصل کی۔
اس کے بعد ہم نے والیںسیا کے ذریعے غرناتہ جانے کا پروگرام بنایا اور ہم نے اپنا پہلا اسٹاپ والینسنا کے ایک ساحلی علاقے کو بنایا۔
والینسیا میں جدید دور کے ساتھ ساتھ قدیم رومن اقتدار کی کئی اہم نشانیاں اب بھی موجود ہیں۔
ہمارے راستے میں میرا پسندیدہ والینسیا کا مشہور فٹ بال اسٹیڈیم بھی موجود تھا جس کی ٹیمیں مسلسل کئی بار چیمپئن لیگ فائنل کھیلنے اور اسپین پریمیم ڈیژون میں بارسلونا اور ریال میڈرڈ کے سخت ترین حریف کے طور پر بھی سامنے آچکی ہیں۔
کیونکہ یہ ساحلی پٹی ہمارے سفر کے دوران ہائی وے سے کچھ دور تھی اس لئے ہم نے جلدی جلدی کھانا ختم کیا اور اپنی منزل کیلئے واپس ہائی وے کی جانب روانہ ہوگئے۔
گرینادا
یہ علاقہ سیرا نووادا کے پہاڑی سلسلے کے ساتھ واقع ہے۔ اس سے مشہور ترین دریا بیرو اور دوڑ گذرتے ہیں اور یہاں کی زمین اپنی ذرخیزی کی وجہ سے مشہور ہے۔
روم کے بعد 8ویں صدی میں یہ علاقہ عربوں کے زیر تسلط رہا ہے۔ یہ علاقہ کئی سالوں تک مسلمانوں کا اہم مزکر رہا تاہم 1492 میں عیسائیوں نے اس شہر پر قبضہ کرکے اس کو ملکہ ایلزبتھ کا محل بنادیا تھا۔
اس علاقے کی تقافتی تاریخ اور اس کا جغرفیائی محل وقوع اس کو یورپ کے دیگر شہروں سے ممتاز کرتا ہے۔ ویسے تو یہاں کے کئی مقامات قابل دید ہیں تاہم الحمرہ اپنی نوعیت کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اس محل نما شہر میں بہت سے گھر اور باغات موجود ہیں جو اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیتے ہیں۔
مذکورہ محل نما شہر ویسے تو 11ویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا لیکن اس کو مزید نکھار ابن نثار کے دور میں دیا گیا۔
الحمراہ
ہمیں مشورہ دیا گیا تھا کہ ہم الحمراہ دن میں پہنچے تاکہ اس کے داخلی راستوں پر موجود بھیڑ سے بچا جاسکے۔ ان کی سرکاری ویب سائٹ میں بھی پہلے سے بکنگ کی سفارش کی گئی تھی۔
الحمراہ کے داخلی راستے نصرید کے محالات سے ہو کر گذرتے ہیں جو الحمراہ میں ایک اہمیت کی حامل جگہ ہے۔ اس موقع پر موجود لوگوں کو کچھ دیری کے بعد اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ اس مقام کو دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے لوگوں کی ایک کثیر تعداد میں قطار میں کھڑی انتظار کررہی تھی۔ ہمیں یہ انتظار ناگوار نہیں گزررہا تھا کیونکہ ہم اس جگہ کو خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔
نصرید کا محل
نصرید کے محلات الحمرہ میں اپنی نوعیت کے علیحدہ جگہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی بیرونی دیواروں اور اندرونی دیواروں کے درمیاں ایک ربط موجود ہے۔ یہاں پر موجود صحن اور پانی کی نالیاں کسی شاعری میں موجود جنت کی منظر کشی کرتی ہیں۔ ترتیب میں موجود کمروں، صحن اور ان کی چھتوں پر موجود لکٹری کی کھڑکیاں اور ان پر بنے ہوئے نقش و نگاری لوگوں کو اپنی جانب تواجہ کرتے تھے۔
ہم محل میں اس مقام سے داخل ہوئے جہاں پر بادشاہ اور شہریوں کے درمیاں رابطے کیلئے کونسل چیمبر بنائے گئے تھے۔ اس کی چھت کو لکڑی پر نقش و نگاری کے ساتھ سجایا گیا تھا۔
شیروں کی عدالت
اس عمارت کے صحن سے داخل ہو تو سامنے کی جانب ایک چھوٹا سا دروازہ موجود ہے جس میں داخل ہونے کے بعد ہم پہنچے شیروں کی عدالت میں۔ یہ ایک فوارہ تھا جس کے گرد 12 شیر نما مورتیاں موجود تھیں جن سے صحن کے درمیاں میں پانی گرایا جارہا تھا۔
یہاں صحن کے اطراف میں چار پانی کی نالیاں موجد تھیں جو درمیان میں نوجود فوارے سے جا ملتی تھیں۔ اس صحن کے چاروں جانب انتہائی سجائے گئے حال قائم تھے۔
چارلس پنجم کا محل
اس کے بعد ہم ایک محل میں داخل ہوئے جس کو چارلس پنجم نے بنایا تھا اس نے یہ اپنے محل کے کمرے بنانے کیلئے یہاں پہلے سے موجود مورش زمانے کی تعمیرات کو گرادیا تھا۔ اس چورس نما عمارت کا اندورنی حصہ گول شکل کا ہے یعنی ایک ہی عمارت میں دو مختلف قسم کی تعمیرات کی گئی تھیں۔ مذکورہ تعمیرات 1533 میں شروع کی گئی تھیں تاہم یہ 20 ویں صدری عیسوی میں مکمل ہوئی۔
نئی تعمیرات اٹیلین طرز پر ہیں اور اب یہ تعمیرات اپنی نوعیت کی منفرد اسپین اور اٹلی کا مشترکہ شہکار ہیں۔ یہاں دو مختلف میوزیم بھی موجود ہیں۔
القزابہ
یہ پرانے الحمراہ کا حصہ ہے اور اس کو فوجی اہلکاروں کی رہائشی گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس میں انتہائی مضبوط حفاظتی ٹاور اور طے خانے بنائے گئے تھے۔ ان میں سے ایک انتہائی بلند ٹاور ’ٹورے دی لا دیلا‘ سے الحمراہ، سیرا نویداڈا اور باقی کی وادی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
الحمرہ میں موجود دلکش باغات سے ریو دارو دریاں گذرتا ہے یہ دریا پہاڑوں سے وادی میں گرتا ہے۔ یہ دریاں کئی چھیلوں اور تیلابوں کو پانی فراہم کرتا ہے جن سے الحمراہ کے باغات سیراب کئے جاتے ہیں۔
سیرا نیواڈاسکی ریزورٹ
اس کے بعد ہم نے گاڑی کا رخ سیرا نیواڈا کی جانب کیا جو یورپ میں سب سے زیادہ چمکتا ہوا اور سطح سمندر سے 2100 میٹر بلند مقام ہے۔ یہاں پر سکاینگ کا موسم نومبر سے مئی تک مسلسل رہتا ہے۔ ہمیں یہاں پہنچنے کیلئے 32 کلومیٹر کی سخت ترین ڈرائیو کرنا پڑی۔ یہاں اسکاینگ کے علاوہ فیملیز، گاڑیاں چلانے والوں اور ٹریکرنگ کیلئے آنے والوں کے لئے دلچسپی کے بڑے ذرائع موجود ہیں۔
یہاں گرانڈا میں بہت سے ہوٹل موجود ہیں جہاں پر اکثر سیاحوں کی طلب عربی کھانے ہوتے ہیں اور دکانوں پر تحائف کی کثرت بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
دوسرے دن کی صبح ہم نے یہاں سے اپنا رخ قرطبہ کیلئے کرلیا اس سفر کے دوران سڑک کے دونوں جانب سبزہ اور زیتون کے درخت موجود تھے لیکن دور دور تک کوئی انسان نظر نہیں آتا تھا۔
روم کے دور اقتدار میں قرطبہ اسپین کے جنوبی حصے کا دارلخلافہ ہوا کرتا تھا بعد میں اس کو 711 میں اُمیاد کی فوجوں کی جانب سے قبضے میں لینے کے بعد دمشق کا دارلخلافہ بنادیا گیا اور یہ پھر آزاد ریاست العندلس کا دارلخلافہ بنا دیا گیا۔
اس شہر کی شہرت میں اس وقت اضافہ ہوا جب خلیفہ الحاکم دوم نے یہاں بہت سی تعلیمی یونیورسٹیاں اور لائبریاں قائم کی اور اس کے بعد قرطبہ یورپ کا ایک اہم شہر بن گیا۔
مسجد قرطبہ
مسجد قرطبہ دراصل ایک کیتھولک چرچ ہوا کرتا تھا۔ جب قرطبہ کو اُمیاد کے امیر عبدالرحمان نے فتح کیا تو اس نے اس عمارت میں موجود دیگر چرچوں کو عسائیوں کی عبادت گاہوں کے طور پر چھوڑ دیا لیکن اس عمارت کی دلکشی کے باعث اس کو مسجد بنانے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کے بعد مسجد قرطبہ کی شہر بھر میں سیاسی اور مذہبی حیثیت بڑھ گئی تھی اس میں 856 کالم موجود ہیں اور یہ ماربل کے علاوہ سرخ اور سفید رنگ کے بھاری پتھروں پر کی جانے والی نقش ونگاری سے بنائی گئی ہے۔
صبح اس مسجد میں جانے کیلئے ایک لمبی قطار میں ہم بہت زیادہ گھبرارہے تھے تاہم دروازے تک ہم با آسانی پہنچ گئے۔
گیٹ پر موجود گارڈ نے ہم سے سوال کیا کہ کیا ہم مسلمان ہیں؟ اور ہمارے ہاں کہنے پر اس نے نرمی سے کہا کہ اندر نماز پڑھنے سے گریز کیجئے گا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں آنے والے بیشتر مسلمان اندر جا کر نماز ادا کرتے ہیں جس کے بارے میں یہاں آنے والے سیاح اکثر شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔
عمارت کے اندرونی حصے کی آرائش اور اس کی در و دیوار پر موجود نقش ونگار انتہائی متاثر کن ہے جو ہمیں جگہ جگہ رک کر دیکھنے کو مجبور کررہی تھی۔
قرطبہ ٹاون
قرطبہ کی مسجد کو دیکھنے کے بعد ہم نے قرطبہ شہر کو بھی دیکنھے کا فیصلہ کیا اس شہر میں داخل ہو تو اس کی تعمیرات روم کے زمانے اقتدار کی یاد دلاتی ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں