سندھ کا صوفی کلچر اور سانحہ شکارپور
سندھ حملے کی زد میں ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالے کی ملکائیں مارئی، سسئی، نوری، سورٹھ، لیلاں، سوہنی، اور مومل کالے لباس زیب تن کر کے ماتم کناں ہیں۔ ان ملکاؤں کے لیے مسائل اور پریشانیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔
دہلی پر قبضے کے بعد شاہِ ایران نادر شاہ نے سندھ پر حملہ کیا اور یہاں کے اس وقت کے حکمران نور محمد کلہوڑو کو عمر کوٹ کے قلعے میں قید کر دیا۔ شاہ لطیف نے اُس منظر کو اپنی شاعری میں بیان کیا ہے جب مارئی کو بھی اسی قلعے میں قید کر دیا گیا تھا، اور وہ لمحہ بہ لمحہ اپنے گھر والوں سے ملنے کو ترستی تھی۔
میری آنکھیں وطن کی جانب ہیں، میرے پیاروں کو لاش دے آنا
آخری ہچکیوں سے پہلے ہی، میری میت ملیر لے جانا
اے عمر تھر میں ماروؤں کے ساتھ، ٹھنڈی مٹی میں مجھ کو دفنانا
دیس کی کچھ مہکتی بیلوں کو، قبر کے آس پاس سلگانا
کیا عجب عشق یہ بھی دکھلائے، تنِ مردہ میں روح لوٹ آئے
(سر مارئی، چھٹی داستان)
شکارپور کی مرکزی امام بارگاہ پر حملہ جتنا دہشت انگیز اور افسوسناک ہے، اتنا ہی منحوس بھی ہے۔
طویل عرصے سے سندھ کی صوفی اقدار کو پاکستان میں بڑھتی انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے موثر قرار دیا جاتا رہا ہے۔ نہ صرف پاکستان کے لبرل دانشوروں نے، بلکہ کئی مغربی تھنک ٹینکس اور این جی اوز نے بھی صوفی ازم کو مسلم معاشروں میں بڑھتی ہوئی قدامت پسندی پر قابو پانے کے لیے بہترین حل قرار دیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جدید معاشروں میں صوفی ازم بحیثیت نظریہ کس قدر کامیاب ہو سکتا ہے؟
دیکھیے: شکارپور دھماکے کے بعد کا منظر
سب سے پہلے تو یہ کہ صوفی ازم کسی ایک نظریے کا نام نہیں ہے۔ صوفی ازم کے اندر بھی کئی حلقے ہیں جو ایک دوسرے کے مکمل طور پر مخالف بھی ہیں، اس لیے ان کا نتیجہ مکمل طور پر متضاد نظریات کی صورت میں نکلتا ہے۔ سب سے اہم تفریق وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی ہے۔
عقیدہ وحدت الوجود کے مطابق ایک ہی خالق ہے اور وہ اپنی مخلوق سے کبھی جدا نہیں ہوتا، اور یہ کہ خدا ہر چیز میں موجود ہے۔ اس کے برعکس عقیدہ وحدت الشہود کے مطابق خدا اپنی مخلوق سے (وجودی اعتبار سے) جدا ہے۔
یہ اختلاف بہت معمولی لگ سکتا ہے، لیکن اس کے دو مکمل طور پر مختلف منطقی نتائج نکلتے ہیں۔
وحدت الوجود کے مطابق خدا ہر چیز میں موجود ہے۔ اس لیے مذاہب اور مکاتبِ فکر کے درمیان موجود اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ وسیع تر معنوں میں ایسے کہا جا سکتا ہے کہ ہر چیز میں خدا کی موجودگی کی وجہ سے کسی بھی مذہب کے ماننے والے سے نفرت نہیں کی جا سکتی۔
محی الدین ابنِ عربی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے وحدت الوجود کو نظریاتی بنیاد فراہم کی اور اسے مسلم دنیا میں متعارف کروایا۔
دوسری جانب وحدت الشہود کا مکتبہ فکر شیخ احمد سرہندی نے پروان چڑھایا اور پھیلایا تھا، جو بذاتِ خود اکبر کی سیکولر ذہنیت کے خلاف تھے۔ انہوں نے ابنِ عربی کو کافر قرار دیا، اور ان سب عقائد کے خلاف جدوجہد شروع کر دی جو ان کے نزدیک کفریہ تھے۔
سماجی و سیاسی تناظر میں دیکھیں تو عقیدہ وحدت الشہود مختلف مذاہب اور مکاتبِ فکر کے درمیان علیحدگیوں اور تنازعات کی جانب لے کر جاتا ہے۔ احمد سرہندی ان کچھ صوفیاء میں سے ہیں جن کا ذکر پاکستانی نصابی کتب میں شامل ہے۔
تاریخی طور پر دیکھیں تو آج کے پاکستان میں موجود صوفیاء 4 سلسلوں سے وابستہ رہے ہیں: قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ، اور نقشبندیہ۔
یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ تمام صوفی سلسلے اسٹیبلشمنٹ کے مخالف نہیں رہے ہیں۔
چشتیہ اور قادریہ سلسلوں کے صوفی ہمیشہ دہلی کے حکمرانوں سے خود کو دور رکھتے اور عوام کے لیے آواز اٹھاتے، لیکن سہروردیہ سلسلہ تاریخی طور پر ہمیشہ سے طاقت کے مراکز کے قریب رہا ہے۔ سہروردیہ سلسلے کے بہاءالدین ذکریا کے دربارِ دہلی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے، اور ان کے بعد اس سلسلے کے قائدین نے ہمیشہ ہی عوامی امنگوں کے خلاف حکمرانوں کا ساتھ دیا ہے، چاہے مغل ہوں یا برٹش راج۔
پڑھیے: ماضی، حال اور مولانا آزاد
برِصغیر میں عموماً اور سندھ میں خصوصاً صوفی ازم بادشاہ اور ملا پنڈت اتحاد کے خلاف تحریک کی صورت میں وجود میں آیا۔ اس نے نہ صرف انتہاپسندی کے شکار بے آواز لوگوں کو آواز دی، بلکہ سیاسی نظام کو بھی چیلنج کیا۔ مارکس کے الفاظ میں کہیں تو 'یہ بے روح افراد کے لیے روح' کی طرح تھا۔
نوٹ کرنے کے لیے جھوک شریف کے صوفی شاہ عنایت کا کیس بھی ہے، جنہوں نے سندھ میں ایک کسان تحریک کی قیادت کی تھی جس پر انہیں حکمرانوں کی جانب سے سزائے موت دے دی گئی۔ شاہ لطیف نے اپنے رسالے میں شاہ عنایت کے نام ایک بے نام مرثیہ بھی لکھا ہے۔
لیکن جن سیاسی و سماجی حالات نے برِصغیر میں صوفی ازم کو بڑھاوا دیا ہے، وہ اب موجود نہیں ہیں۔ ایک مضبوط مزاحمتی نظریے کے طور پر صوفی ازم کا واپس آنا اب اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ہے۔ صوفیا تہذیبی تصوف کی بنیاد سے ابھرے تھے، اور مذاہب کی قیود اور سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد تھے۔
لیکن صوفی ازم کے مراکز جنہیں خانقاہ کہا جاتا تھا، آج سیاسی اشرافیہ اور طاقتور ملائیت کا ایک لازمی جزو ہیں۔ خود کو موجودہ زمانے میں صوفی کہلوانے والے قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور دیگران کسی نہ کسی صورت میں ریاست اور اس کے نظریات کے حامی رہے ہیں۔
صوفی ازم ایک انسان دوست اور کائناتی نظریہ ہے۔ اسے جدید نیشن اسٹیٹس کی حدود میں قید کرنا تقریباً ناممکن ہے، اور خاص طور پر ان نیشن اسٹیٹس میں جو نظریاتی بنیادوں پر قائم ہیں اور صرف اپنا نظریہ ہی درست مانتی ہیں۔
منصور الحلاج نے سندھ میں کافی سفر کیا۔ ان کا مشہور نعرہ اناالحق ہندو کتابوں اپنشد کے جملے 'احم برہماسمی' (میں ہی لامحدود حقیقت ہوں) سے ملتا جلتا ہے۔ ہندو عقیدہ 'ادویت' اور مسلم وحدت الوجود میں کافی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ دونوں نظریات ایک دوسرے کو مکمل کرتی ہیں، اور الگ الگ کرنے پر اپنا اثر کھو دیتی ہیں۔
پنجاب بھکتی تحریک کا مرکز رہا ہے، جو کہ نہرِ سوئز کے اس جانب سے اٹھنے والی روحانی تحاریک میں سب سے زیادہ انسان دوست ہے، لیکن تحریک کی تمام انسان دوست تعلیمات تقسیم کے دوران لاکھوں پنجابیوں کا قتلِ عام روکنے میں ناکام رہیں۔
بدھ ازم سب سے قدیم امن پسند نظریہ ہے، لیکن یہ بھی بدھ افراد کو برما میں مسلمانوں کا قتل کرنے سے نہیں روک سکا۔
موجودہ زمانے کی یہی تلخ حقیقتیں ہیں جو کسی بھی روحانی تحریک کے موثر ہونے پر سوالات اٹھا سکتی ہیں۔
مزید پڑھیے: فرقہ واریت کا عفریت
سندھ میں صوفی ازم اب نظریے کے بجائے صرف زندگی کا طریقہ بن کر رہ گیا ہے۔ یہ انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو ہے۔ لیکن پاکستان میں ویسے بھی زندہ رہنا ہی مزاحمتی عمل بن کر رہ گیا ہے۔
سندھ آج خون میں لت پت ہے اور اپنے لوگوں اور اپنی ثقافت کے قتلِ عام پر آنسو بہا رہا ہے۔ شاہ بھٹائی بے یار و مددگار انداز میں صرف یہی کہہ رہے ہیں:
او رنگریز! میرے کپڑوں کو سیاہ رنگ میں رنگ دو
میں ان کے لیے ماتم کناں ہوں، جو واپس نہیں آئے
(سر کیڈارو، پہلی داستان)
تبصرے (2) بند ہیں