کراچی: زندہ لاشوں کا شہر
حال ہی میں ایک ویب سائٹ Numbeo.com کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان کو رہنے کے لیے سستا ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی ملک مرنے کے لیے بھی سستا ترین ہے۔
ملک کے سابقہ دارالحکومت، ملک کے سب سے بڑے شہر، اور ریاست کے معاشی مرکز کراچی میں زندگی کی قیمت صرف 2000 روپے ہے۔
لیکن پاکستان کے موجودہ دارالحکومت، ملک کے اعلیٰ ترین شہر، اور ریاست کے بیوروکریٹک مرکز اسلام آباد میں یہ قیمت دس گنا کم ہے، جہاں غربت کی وجہ سے صرف 200 روپوں کے لیے قتل کر دیے جاتے ہیں۔
اور اگر آپ کو یہ قیمت شرمناک حد تک کم لگی، تو سندھ کے نوڈیرو علاقے کو دیکھیے، جہاں صرف سو روپوں، یعنی ایک ڈالر سے کم کے تنازع پر بھی آپ کی جان جا سکتی ہے۔
نوڈیرو اور اسلام آباد میں ہونے والے قتل سکیورٹی صورتحال بہتر بنا کر بھی روکے نہیں جا سکتے تھے، کیونکہ جب مایوسی، غصہ، اور جذبات اپنے عروج پر ہوں، تو قتل روکنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ محرومی و غربت کو ختم کر دیا جائے۔
لیکن کراچی میں دن دیہاڑے مقامی بھتہ خور کے ہاتھوں ایک تاجر کا قتل آسانی سے روکا جا سکتا تھا۔
لیکن ماضی کی تمام زیادتیوں کی طرح اس کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے ملک میں سب سے اہم بحث انتخابی دھاندلی اور سیاستدانوں کی شادیاں ہیں۔ ہماری پولیس روشنیوں کے شہر میں صرف تماشائی بن کر رہ گئی ہے، جبکہ ہمارا کام صرف ہر روز رات کو ان جوکروں کے تماشے دیکھنا ہے جو خود کو ہمارا لیڈر کہتے ہیں۔
شہرِ قائد سے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ کس طرح وہ ہر سگنل پر رکتے ہی اپنا ہینڈ بیگ چھینے جانے کے خوف، بلکہ توقع، سے مضبوطی سے تھام لیتی ہیں۔
مجھے لگا کہ یہ خوامخواہ خود کو پریشان کرنے والی بات ہے لیکن کچھ ہفتوں بعد دوستوں کا ایک گروپ شہر میں ایک ہی روڈ پر دو دن کے فرق سے لوٹ مار کا شکار ہوا۔
بھتہ خوری، چوری، ڈاکہ، اغوا، اور قتل، سماجی برائی کا نام لیں اور کراچی میں وہ موجود نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ سیاسی سرپرستی رکھنے والے گینگ بے خوفی سے اپنا کام کرتے ہیں، جبکہ پولیس صرف نمائشی اقدامات تک محدود رہتی ہے تاکہ قانون کی حکمرانی کم از کم نام کی حد تک قائم رہے۔
ساحر لدھیانوی نے اپنی مشہور نظم میں کہا تھا کہ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ مجھے حیرت کہ ہمارے ملک، ہماری زندہ قوم کے لیے ظلم کب مٹے گا۔
جب امریکیوں نے فیصلہ کر لیا کہ بس اب بہت ہو چکا، تو نیو یارک میں جرائم کی شرح 1990 سے 2010 کے دوران 90 فیصد کم ہو گئی۔ تاریخ میں جرائم پر اتنی سختی سے قابو کبھی بھی نہیں پایا گیا۔ اس کے بارے میں فرینکلن زمرنگ اپنی کتاب 'The City that became safe' میں جرائم کو بالکل برداشت نہ کرنے والی پولیسنگ اور نئی طرح کی مینیجمنٹ کو اس کامیابی کا کریڈٹ دیتے ہیں۔
پڑھیے: کراچی میں فرقہ ورانہ دہشتگردی
اس کے بعد جب برازیل نے کہا کہ بس اب بہت ہو چکا، تو UPP (پیسی فائنگ پولیس فورس) نے مجرموں کو ریو ڈی جنیرو سے ایک وقت پر ایک زون کے تحت باہر نکالنا شروع کیا۔ خفیہ ہیلپ لائنز قائم کی گئیں تاکہ عوام گمنام رہتے ہوئے پولیس کو مجرموں کی معلومات فراہم کر سکیں۔ منشیات اور اسلحہ ضبط کیا گیا اور ان تمام علاقوں میں سخت پولیسنگ شروع کی گئی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مجرم واپس نہ آسکیں، اور اس طرح اپنے شہر کو محفوظ بنایا گیا۔
اسی طرح جب ہندوستانی ریاست بہار کے اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار (2014-2005) نے فیصلہ کر لیا کہ بس اب بہت ہو چکا، تو تیز ٹرائل کا سسٹم لایا گیا، اور برازیل اور امریکا کی طرح مجرموں کے لیے عدم برداشت کی پالیسی اپنائی گئی۔ صرف چھ سالوں میں 70،000 مجرموں کو سزائیں دی گئیں۔ پلان اتنا کامیاب اور موثر تھا کہ اس پر باقاعدہ پرنسٹن یونیورسٹی میں تحقیق کی گئی۔
اور پھر پاکستان نے تین دہائیوں میں متعدد بار کی طرح ایک بار پھر بہت ہو چکا کا نعرہ لگایا۔ پلٹزر سینٹر کے لیے کرائسز رپورٹنگ پر لکھنے والے میتھیو ایٹکنز نے آپریشن کو ان الفاظ میں بیان کیا:
'کراچی کے گینگ اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ جب گذشتہ بہار پاکستان پیپلز پارٹی نے شہر کی قدیم ترین بستی لیاری میں ایک گروپ کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا، تو گینگ یعنی پیپلز امن کمیٹی نے ایک ہفتے تک لیاری کی تنگ گلیوں میں آٹومیٹک ہتھیاروں اور راکٹ لانچروں سے مقابلہ کیا، اور پولیس اور رینجرز کی بکتربند گاڑیوں کو لیاری کے باہر ہی رہنے پر مجبور کر دیا۔ آخر میں آپریشن کو روک دینا پڑا۔'
مقاصد کے حصول کے لیے بس اتنی ہی ثابت قدمی دکھائی گئی۔
کراچی میں امریکی قونصل خانے کے 2011 کے ایک خط، جسے وکی لیکس نے دنیا کے سامنے ظاہر کیا، میں حالات کی خوفناک لیکن حقیقی صورتحال پیش کی گئی ہے۔ اس کا ایک حصہ کہتا ہے:
'کراچی پولیس شہر کے کئی مسلح گروپوں میں سے صرف یاک ہے، اور یہ نہ ہی تعداد میں زیادہ ہے اور نہ جدید اسلحے سے لیس ہے۔ کئی علاقے پولیس کے لیے بھی نو گو ایریا ہیں۔ زیادہ تر مجرم گروہ یا تو سیاسی جماعتوں کے ہیں، کسی تحریک کے، یا پھر کسی دہشتگرد تنظیم کے۔'
ریاست کی عملداری کی یہ حالت ہے۔
اسی سال ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق، 'ایک محتاط سرکاری اندازے کے مطابق 70 فیصد پولیس اسٹیشن جب جان کے تحفظ کی بات آئے تو بے کار ہیں۔ اسی اندازے کے مطابق تمام پولیس اسٹیشنز کو اپنی حدود میں موجود مسائل کی جڑوں کے بارے میں اچھی طرح معلومات ہیں۔'
اور جب میں یہ لکھ رہا ہوں، تو احمد چنائے شہر میں ہونے والی ایک اغوا کے بارے میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ اس کے نیچے ہی ایک اور سرخی چمک رہی ہے کہ ڈیفنس میں ایک وکیل کو سڑک پر لوٹ مار کے دوران اہلیہ کے سامنے قتل کر دیا گیا۔
اگر یہ خبریں بھی آپ کو ان گروہوں کے خلاف بولنے پر مجبور نہیں کر سکتیں، تو کچھ نہیں کر سکتا۔
ایک دو عزیر بلوچوں کو پکڑنے، یا ایک دو لاڈلے بابوں اور رحمان ڈکیتوں کو مار ڈالنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ ان کی جگہ لینے کے لیے بہت لوگ تیار ہیں۔ 'میرے سیاسی کارکن پر ظلم کیا جا رہا ہے' اور 'میری قومیت کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے' والی سیاستدانوں کی ذہنیت بھی کسی کام کی نہیں۔
شہر کو گینگز اور اسلحے سے مکمل طور پر پاک کرنا ہو گا۔ اندازہ ہے کہ شہر میں تقریباً دو کروڑ غیر قانونی ہتھیار موجود ہیں۔
اور جب تک ایسا نہیں کیا جاتا، تب تک لیاری ایکسپریس وے پر ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم، ڈیفنس میں وکیل، اور فیکٹری سپروائزر کی اپنے آفس میں لاشیں ملتی رہیں گی۔
دعا ہے کہ کبھی تو زندہ لاشوں کے اس شہر میں امن قائم ہو۔
تبصرے (1) بند ہیں