• KHI: Zuhr 12:39pm Asr 5:01pm
  • LHR: Zuhr 12:09pm Asr 4:31pm
  • ISB: Zuhr 12:15pm Asr 4:36pm
  • KHI: Zuhr 12:39pm Asr 5:01pm
  • LHR: Zuhr 12:09pm Asr 4:31pm
  • ISB: Zuhr 12:15pm Asr 4:36pm
شائع January 30, 2015

تحریر و تصاویر: فاروق سومرو


سکرنڈ ریلوے اسٹیشن سے ہوسکتا ہے کہ آخری ٹرین کو چلے 24 سال کا عرصہ ہونے والا ہو مگر اس کی عمارت اب بھی مقامی افراد کے لیے اجتماع کا مقام ہے۔ وقت نے اسٹرکچر پر اثرات ضرور مرتب کیے ہیں مگر اس کی شان و شوکت اب بھی محسوس کی جاسکتی ہے جو کہ برصغیر بھر میں تعمیر کیے جانے والی ریلوے عمارات کا خاصہ ہے اور یہ ریلوے لائنوں سے جڑی یادیں اور جذبات کو جگا دیتا ہے۔

ہم کراچی سے نوابشاہ جارہے تھے جب میں نے سکرنڈ کے قصبے میں کچھ دیر رکنے کا فیصلہ کیا۔ سکرنڈ کی جانب بڑھتے ہوئے گلیوں کی دیواروں نے میری نظروں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرالی جو کہ سب کی سب ٹیلی کام پیکجز کے اشتہارات سے بھری ہوئی تھیں۔

سکرنڈ اسٹیشن اس پرسکون قصبے کے مضافات میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔

اس اسٹیشن کی باہری دیواروں پر مقامی سیاسی لیڈرز کے پوسٹرز اور نعرے بھرے پڑے تھے اور جب میں اندر داخل ہوا تو میں نے احاطے کے وسط میں لوگوں کے ایک گروپ کو کھڑے ہوئے پایا۔ یہاں ہونے والا شور شرابہ کسی چھوٹے بازار کی یاد دلاتا ہے اور درحقیقت یہ موبائل فونز کی چھوٹی سی مارکیٹ ہی بن چکی ہے۔ ہماری قوم میں موبائل فون ڈیوائسز کا کنٹرول سے باہر اشتیاق ہے اور اس طرح کی مارکیٹیں ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کے لیے ہمیں سہولیات فراہم کرتی ہیں۔

عمارت کے اندر یہاں وہاں لوگوں کا ہجوم چھوٹے چھوٹے گروپس کی شکل میں احاطے میں گھوم رہا تھا اور باہر موجود ریلوے ٹریک غائب جبکہ وہاں بھینسیں سردیوں سے ٹھٹھرتی سورج کی شعاعوں میں آرام کررہی تھیں۔ اسٹیشن کے ایک کونے میں پارسل گودام ہے جسے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ وہاں اب وسط میں پول ٹیبل رکھی ہوئی ہے اور کچھ بچے ہمارے سامنے کھیلنے میں مصروف تھے۔ وہاں کچھ تاریک کیلنڈرز بھی دیواروں پر لٹکے ہوئے تھے جبکہ ایک بلب چھت سے لٹک رہا تھا۔

ہم وہاں سے باہر نکلے۔ لوگ جاننا چاہتے تھے کہ کیا ہمارا تعلق ریلوے ہیڈکوارٹرز سے ہے اور کیا ہم سکرنڈ میں ریلوے سروس کی بحالی کے لیے کچھ کرسکتے ہیں یا نہیں۔

اپنے ماضی میں سکرنڈ اسٹیشن ایک مصروف جنکشن تھا جس کی تعمیر 1936 میں ہوئی تاکہ بھٹ شاہ اور نوابشاہ کی دیگر بستیوں کو باقی ملک کے ساتھ جوڑا جاسکے۔ لوگوں نے ہمیں بتایا کہ یہاں سے آخری ٹرین 1991 میں نکلی تھی جس کے بعد پاکستان ریلوے نے اس خطے سے آمدنی نہ ہونے کے باعث سروس کو ختم کردیا۔ تاہم مقامی افراد اب بھی پرامید ہیں کہ ایک دن یہ سروس پھر بحال ہوگی۔

تبصرے (14) بند ہیں

munawar Jan 30, 2015 05:01pm
انگریز کو اگر پتاہوتا کےہم اس کی ریلوے سے کیا سلوک کریں گے تو وہ ریلوے بناتا ھی نیں
Zargam Mehdi Jan 30, 2015 05:53pm
Jab Ghulam Baloor Aur Saad Rafique Jesy Jahil Aur Matlab Parast Banddy Railways K Federal Minister Banein Gy To Phir Hamari Railways Ka Yahi Haal Ho Ga Na. Abhi To Skrind Railway Station Band Huwa Hai, Aik Aur Example Hamary Area Sy BHi Hai Jahan Narowal Sy ShakarGarh Jaany Wali Trains Bhi Band Ho Chuki Hain Aur Rasty Main Kai Aik Railway Station Band Pary Hain Aur Agr Yahi Haal Raha To Wo Waqt Door Nahi'n Jab Baaqi Areas Main Bhi Yahi Haal Ho Ga. But I Pray To Allah That He Might Give Us Freedom From These Selfish Politicians. Regards: Zargam Mehdi Sidhu From Narowal
waheed qureshi Jan 30, 2015 07:15pm
hamari aj ki government se tu british government achhi thi jinhon ne railways track ka jal bichha kr diya aur hum ne usay khatam kr diya is ki waja hamaray many ministers transport ka business krtay hain ghulam ahmad bloor ka business kisi se dhaka chhupa nahi jab aisay ministers railway ka control sambhalein gay tu phir railway ka ALLAH hafiz hai ALLAH hamain corrupt ministers aur government se nijat dilay ameen
Read All Comments