شاہ عبداللہ کو ایک محتاط خراجِ تحسین
میں نے نوے سال کی عمر میں وفات پا جانے والے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا کام اپنے سر لیا ہے۔ لیکن براہِ مہربانی مجھے معاف کر دیجیے گا، کیونکہ میرا جذبہ شاہ کے 14 سالہ دورِ حکومت میں ان کی کارکردگی کے سامنے ماند پڑ رہا ہے۔
2005 میں تخت نشین ہونے پر شاہ عبداللہ کو ترقی اور اصلاحات پسند قرار دیا گیا تھا۔ کچھ اقدامات اٹھائے گئے تھے تاکہ مملکت کو ان سماجی معیارات تک لایا جاسکے، جن کی امید اکیسویں صدی کے ایک معاشی طور پر مستحکم ملک سے کی جاتی ہے۔
خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق رہتا ہے تو خواتین پہلی بار اپنے اس حق کو رواں سال استعمال کریں گی۔ ویسے تو موجودہ زمانے کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی بہت غیر معمولی بات نہیں، لیکن انتہائی قدامت پسند سعودی نظام میں اس کا مطلب ہے کہ سعودی عرب اب مکمل طور پر مردانہ حاکمیت والی مملکت نہیں رہے گی۔
اس کے علاوہ انہوں نے زیادہ قدامت پسند شیخوں کے جذبات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک بے مثال قدم اٹھایا: یعنی 12 ارب ڈالر کی لاگت سے ایک 'کو ایجوکیشن' یونیورسٹی کی تعمیر۔ یہ اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی نوجوانوں کو بیرونِ ملک پڑھنے کے لیے بے تحاشہ اسکالر شپس دینا ان کے مثالی اقدامات کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
ان کی حکومت نے غریب شہریوں کو رہائش فراہم کرنے کے لیے 130 ارب ڈالر خرچ کیے، جبکہ تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سینئر علما کو داعش کے خلاف زبردست قوت سے نہ بولنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ سعودی حکومت کے کچھ سیاہ پہلو بھی شامل تھے، جنہیں میں ایسی دنیا میں بیان کرنے سے ڈرتا ہوں جہاں مرنے والے کی صرف تعریفیں اور خوبیاں بیان کی جاتی ہیں۔
پڑھیے: سعودی عرب میں ذلّت اور موت
حال ہی میں ٹوئٹر پر گردش کرنے والے ایک انفو گرافک میں سعودی عرب کی جانب سے دی جانے والی سزاؤں کا موازنہ داعش کی سزاؤں سے کیا گیا ہے۔ ان میں کوڑے، سنگساری، اعضا کاٹنا، اور سر قلم کرنا شامل ہیں، جبکہ یہ سزائیں گستاخی، ہم جنس پرستی، بہتان بازی، جنسی تعلقات، اور جادوگری جیسے 'جرائم' پر دی جاتی ہیں۔
|
حال ہی میں ایک سعودی بلاگر کو سعودی علما کی توہین کرنے پر 1000 کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ سعودی حکام کی جانب سے ایک چیختی عورت کا سر عوام کے سامنے قلم کیے جانے کی ویڈیو نے بھی کافی اشتعال پھیلایا۔
کچھ بہتریوں کے باوجود سعودی خواتین دوسرے درجے کی شہری کے طور پر رہتی ہیں، اور انہیں آزادی سے گھر سے باہر نکلنے کی بھی اجازت نہیں۔
سعودی عرب میں لادینیت بھی اب دہشتگردی کے زمرے میں آنے لگی ہے۔ سعودی عرب کے تارکینِ وطن اور مذہبی اقلیتیں اب مکمل طور پر امید کا دامن چھوڑ دینے کے قریب ہیں۔
عالمی سطح پر دیکھا جائے تو سعودی حکومت پر بار بار مذہبی انتہاپسندی کے بیج بونے کا الزام لگتا رہا ہے۔ اور اب مملکت 600 میل طویل دیوار تعمیر کر رہی ہے تاکہ داعش کو دور رکھا جاسکے۔
مزید پڑھیے: 'داعش سے بچاؤ کیلئے دیوار کی تعمیر'
خود شاہ عبداللہ کے گھر میں ایک تنازع تب کھڑا ہوا، جب ان کی دو بیٹیوں سحر اور جواہر نے ان پر الزام لگایا کہ شاہ نے اپنی سابقہ بیوی کو تکلیف پہنچانے کے لیے ان دونوں کو گھر میں قید کر رکھا ہے۔
شہزادی جواہر نے کہا کہ اگر وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں، تو یہ سوچیں کہ باقی کے ملک میں کیا ہوتا ہوگا۔
جن مسائل کا میں نے ذکر کیا ہے، ان میں سے زیادہ تر کو انتظامی ناکامی قرار دیا جاسکتا ہے، جن کا شاید شاہ عبداللہ کی ذاتی شخصیت سے لینا دینا نہ ہو۔ لیکن یاد رکھیے کہ یہ جمہوریت نہیں ہے جہاں ریاست کے سربراہ کے جانب سے لائی جانے والی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ بننے پر پارلیمنٹیرینز اور ججز وغیرہ کو برابر کا ذمہ دار قرار دیا جائے۔
بادشاہ کے پاس تو مطلق اختیار ہے، کوئی ان سے سوال نہیں کر سکتا۔
پڑھیے: مسلم دنیا میں عدم استحکام کا ذمہ دار سعودی عرب، وفاقی وزیر
ان کے پاس جتنی طاقت اور دولت تھی، اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا، اس سے کہیں زیادہ کر سکتے تھے۔
ہمیں امید ہے کہ شاہ عبداللہ کے جانشین شاہ سلمان سعودی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے سیاسی طور پر غیر مستحکم ممالک میں بنیاد پرستی ایکسپورٹ کرنے کے بجائے اپنے گھر میں موجود مسائل پر توجہ دیں گے۔
تبصرے (10) بند ہیں