شامین خان | 21 جنوری، 2015
کراچی سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ماہی گیروں کے ایک گاﺅں مبارک ولیج کی جانب جاتے ہوئے مجھے ہمیشہ ہی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں ٹرانس کی کیفیت میں ہو۔
ہم عام طور پر کراچی سے رات گئے باہر نکلتے ہیں اور مبارک ولیج کا نصف سفر دلکش سورج طلوع ہونے کے وقت تک طے کرلیتے ہیں۔ آسمان پر پہاڑیوں کے عقب سے پھیلتی سنہری کرنیں اور سرد ہوا میرے چہرے سے اس وقت ٹکرا رہی تھی جب ہم پہاڑی راستوں اور دھندلے نظاروں کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے، یہ ہر اس فرد کے لیے مثالی فرار ہے جو فطرت کا شوقین ہو۔
مبارک ولیج کراچی کا دوسرا بڑا ماہی گیر گاﺅں ہے جس کی سرحدیں گڈانی (بلوچستان) سے لگتی ہیں، یہاں کے نظارے سنہری چٹانوں اور نیلگوں شفاف پانی کے انوکھے امتزاج کے گھیرے میں لپٹے نظر آتے ہیں۔
شہر کے شوروغل سے دور یہ مقام آپ کا بے پناہ محبت کے ساتھ استقبال کرتا ہے۔
میرے دوست نے مبارک ولیج کے ایک مقامی ماہی گیر کے گھر میں چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا " یہاں کے رہائشیوں کے پاس کچھ نہیں مگر پھر بھی یہ اپنی زندگی سے مطمئن ہے اور ان کے پاس دینے کے لیے بہت کچھ ہے"۔
الاﺅ پر تیار کی جانے والی اس چائے کا ذائقہ منفرد ہے اور میں اکثر یہاں اپنے دوروں کا آغاز اور اختتام مقامی افراد کے ساتھ اس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کرتی ہوں۔
یہاں سمندر کی ماورائی خوبصورتی اور دیہاتیوں کی گرمجوشی میرے لیے تو اپنے ذہن کو بے لگام چھوڑ دینے کے لیے بہترین مقام ہے اور جہاں تک میرے شوہر کی بات ہے تو ان کے لیے یہ مقام زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ وہ یہاں اپنے مچھلی کے شکار کا شوق پورا کرسکتے ہیں۔
جیسے ہی آپ ساحل کے قریب پہنچتے ہیں وہاں شیشے کی طرح شفاف پانی میں ڈولتی لنگرانداز کشتیاں نظر آنے لگتی ہیں۔
کتے ساحل پر کھیل رہے ہوتے ہیں، پرجوش بچے ارگرد بھاگ رہے ہوتے ہیں اور گاڑی سے قدم باہر نکلتے ہی یہ مقام مجھ پر حاوی ہونے لگتا ہے۔
ایک لڑکا اور اس کا والد ریڈیو پر نصرت فتح علی خان کو سنتے ہوئے سر ہلا ہرے تھے، ایک مرغی، ایک بکری اور ایک بلی اکھٹے گھوم رہے تھے، اس مقام کی ہر چیز ہی حیرت میں مبتلا کردینے والی ہے۔
سامراجی عہد سے قبل کی یہ بستی یعنی مبارک ولیج ابھی بھی بنیادی ضروریات جیسے صاف پانی تک رسائی، بجلی، ایک جیٹی، گیس، طبی نگہداشت اور تعلیم وغیرہ سے محروم ہے۔
ایک جیٹی کا کسی بھی طرح ذکر یہاں کے لوگوں کو ناراض کردیتا ہے کیونکہ اب ان کے اندر اس کی امید باقی نہیں رہی اور انہیں لگتا ہے کہ انہیں جھوٹے وعدوں کے ذریعے دھوکا دیا گیا ہے اور اب وہ کسی کے بہلاوے میں آنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ لوگ اپنے حال پر خوش ہیں، ان کا ایک دوسرے سے جڑا معاشرہ دیانتداری اور محبت سے گندھا ہوا ہے۔
ہر بار جب یہاں جاتے ہیں تو ہمارے ساتھ رابطے میں رہنے والا جاوید گرمجوشی سے ہمارا خیرمقدم کرتا ہے۔ جاوید ایک نوجوان ہے جو یہاں کی بیشتر کشتیوں کا مالک ہے مگر وہ دن بھر لائف گارڈ کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ کشتی میں ہمارے ساتھ جانے والے افراد میں ' ماما' اور ایک چھوٹا بچہ حیدر شامل تھا۔
ماما ایک لمبا چوڑا شخص ہے جس کے بالوں میں سفیدی و سیاہی کا امتزاج اسے کسی ہولی وڈ فلم کا کردار بنا دیتا ہے۔ وہ پونی ٹیل پہنتا ہے اور کئی بار بڑا رومال یا صافہ اس کے سر پر ہوتا ہے۔ ہر بار اس سے مل کر میں سوچتی ہوں واہ کیا شخص ہے۔
ہر بار اس مقام سے واپسی پر ماما مجھے کچھ نہ کچھ ضرور دیتا ہے اب چاہے وہ فوسل کورل ہو یا کوئی منفرد پتھر۔ ایک بار تو اس نے ہمیں وہیل کی ایک ہڈی گھر لے جانے کے لیے دی تھی اور وہ مجھے کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں جانے دیتا۔
میں عام طور پر طویل فشنگ ٹرپ کے بعد آرام کے لیے اس کے گھر کا رخ کرتی ہوں اور وہ مجھے کہتا ہے " اسے اپنا ہی گھر سمجھو تم میرے خاندان کا حصہ ہو"، اور میں بھی اس کی محبت کو دیکھتے ہوئے یہی مانتی ہوں۔
اگرچہ یہاں کی زندگی بہت سخت ہے مگر ماما، جاوید اور یہاں کے دیگر ماہی گیر بہت سادہ افراد ہیں اور انہیں کسی سے شکایت نہیں بلکہ ان کے چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ دوڑتی رہتی ہے۔
یہاں کے باسیوں کی اکثریت کا روزگار ماہی گیری سے جڑا ہے مگر کسی اور جگہ کے ماہی گیروں کے مقابلے میں مبارک ولیج کے رہائشی فشنگ نیٹ کی بجائے اپنی آمدنی اسپورٹس فشنگ کے ذریعے کماتے ہیں، وہ شکار کے لیے کئی طرح کی تیکنیکس استعمال کرتے ہیں جیسے فشنگ راڈز اور ہیڈ لائنز وغیرہ۔
بیشتر ماہی گیروں کے روزگار کا انحصار چھوٹی کشتیوں پر ہے جنھیں روایتی طریقے سے تیار کیا جاتا ہے اور وہ طوفانی موسم میں سفر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اور ان سے مضبوط کرنٹ بھی برداشت نہیں ہوتا۔
اس کے نتیجے میں یہ ماہی گیر مون سون کے دوران اپنی سرگرمیاں معطل کردیتے ہیں اور اپنے علاقے کے قریب واقع گراﺅنڈ میں فٹبال میچز کھیل کر اپنا وقت گزارنے لگتے ہیں۔
باقی آئندہ......
تبصرے (20) بند ہیں