پرائم منسٹر 2.0: مضبوط، تیز اور سخت
کچھ ہی ہفتوں میں ہزاروں پاکستانی نوجوان انسانی یادداشت کے سب سے سخت ترین امتحان سی ایس ایس میں اپنی قسمت آزمائیں گے۔ امتحان میں فضول سے لے کر فضول ترین سوالات تک پوچھے جائیں گے، اور آپ اس بات پر یقین رکھیں کہ امتحان میں کسی چھوٹے سے افریقی ملک کے وزیرِ اعظم کے کزن کی بہن کے بہنوئی کا نام ضرور پوچھا جائے گا۔
لیکن کبھی کبھی قسمت سے آپ سے بالکل آسان سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے، مثلاً پاکستان کے وزیرِ اعظم کا نام۔
عام حالات میں تو امیدواروں کے لیے یہ مفت کے نمبر کے جیسا ہوگا۔ انہیں صرف گذشتہ الیکشن کے نتائج یاد کرنے ہوں گے، اور پھر وہ فوراً نواز شریف کے نام پر نشان لگا کر بڑے آفسوں میں پہنچنے کے خواب دیکھنے لگیں گے۔
لیکن اس بار ایسا کوئی بھی سوال بہت ہی مشکل ہوگا۔ ایسا میں سمجھاتا ہوں۔
ہمارے جیسے پارلیمانی نظام میں وزیرِ اعظم کو ایوانِ نمائندگان میں موجود اکثریتی پارٹی منتخب کرتی ہے۔ عام طور پر روایت تو یہ ہے کہ اکثریتی جماعت کا لیڈر ہی اس عہدے پر فائز ہوتا ہے، لیکن حالیہ کچھ عرصوں میں ہم اس روایت سے ہٹ کر بھی فیصلے دیکھ چکے ہیں۔
وزیرِ اعظم کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی کابینہ کی سربراہی کرے، ملک کو سخت اور آسان راستوں سے بحفاظت لے کر چلے، اور قومی اتحاد کی اس حد تک مضبوط علامت بن کر دکھائے، کہ جب بھی عوام اپنے اس محبوب لیڈر کی جانب دیکھیں، تو ان کے دل خوشی سے بھر جائیں۔
وزیرِ اعظم تک رسائی بھی آسان ہونی چاہیے، تاکہ ان کو منتخب کرنے والے اپنے مسائل اور پریشانیاں ان تک آسانی سے پہنچا سکیں۔
وزیرِ اعظم کی شہرت نہ صرف بدعنوانی سے پاک ہونی چاہیے، بلکہ انہیں اتنے مضبوط کردار کا ہونا چاہیے کہ وہ کبھی کرپشن نہ کریں۔ انہیں ملکی سرحدوں کے اندر مسائل اور ثقافتوں کی باریکیاں سمجھنے کے قابل ہونا چاہیے، جبکہ قومی اصلاحات کی جانب قدم بڑھانے کے لیے ایک واضح وژن کا حامل ہونا چاہیے۔
یہ سب سننے میں تو بہت اچھا لگتا ہے لیکن اب آئیں ہم حقیقت کا مزہ چکھیں۔
یہ سچ ہے کہ نواز شریف کی جماعت کو 2013 کے انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوئی، اور وہ تیسری مدت کے لیے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔ لیکن کیا نواز شریف ہی وہ شخص ہیں جو ان تمام خوبیوں کے حامل ہیں؟
اس عام سے سوال کا جواب دے کر میں پڑھنے والوں کی ذہانت کی توہین نہیں کروں گا۔
اچھا تو اگر نواز شریف وہ شخص نہیں ہیں، تو پھر ذہن میں دوسرا نام کس کا ابھرتا ہے؟
عمران خان نے بلاشبہ ایک بہتر متبادل پیش کیا، لیکن اگر ذاتی خوبیوں کو ایک طرف رکھا جائے، تو ان کی سیاست میں ابھی بہت گنجائش باقی ہے۔
تو کوئی دوسرا بھی ہے؟
راحیل شریف داخل ہوتے ہیں۔
پاکستان میں سول ملٹری عدم توازن ایک کھلا راز ہے، اور ہماری تاریخ میں کئی مقامات ایسے ہیں جب جنرلوں نے ہمارے سیاسی سیٹ اپ میں مداخلت کی، اور اپنے اس اقدام کے بارے میں پچھلے جنرلوں کے مقابلے میں 'بہتر' جواز پیش کیے۔
لیکن جو کام موجودہ آرمی چیف نے کر دکھایا ہے، وہ بلاشبہ بے مثال ذہانت کا ایک نمونہ ہے۔
پچھلے تمام 'مارشل لاء' خون ریزی کے بغیر ہوئے تھے، لیکن اس کے باوجود وہ سیاستدانوں کو چیخ و پکار اور آواز بلند کرنے سے نہیں روک سکے تھے۔ لیکن اس دفعہ مارشل لاء نہ صرف خون ریزی کے بغیر ہوا، بلکہ کچھ حد تک اتفاقِ رائے سے بھی ہوا۔
کئی تنازعات کے بعد اب آخر کار حکومت کی کمزوری ہاتھ آچکی ہے۔ شاید حالات نواز شریف کے بس سے باہر نکل چکے تھے۔
سب سے پہلے تو ہندوستان کے مسئلے پر انہیں جکڑا گیا۔
اس کے بعد جنرل مشرف بھی نو گو ایریا بن گئے۔
اس کے بعد عمران خان نے گذشتہ سال حکومت کے خلاف ایک زبردست محاذ کھڑا کیا، جس میں وہ ناکام رہے۔ لیکن ان سب حملوں سے چور چور ہونے کے باوجود نواز شریف اپنے پیروں پر کھڑے رہنے میں کامیاب رہے۔
لیکن پشاور حملے کے بعد وہ منصوبہ جو طویل عرصے سے بنایا جارہا تھا، بالآخر کامیاب ہوا، اور نواز شریف اپنی نااہلی کے بوجھ تلے ہی دب گئے۔
اور اس وقت قوم اور فوج کی تمام وفاداریاں نواز شریف کے بجائے راحیل شریف کے ساتھ ہیں۔
نواز شریف نہیں، بلکہ راحیل شریف نے قومی انسدادِ دہشتگردی پلان کی باگیں سنبھالیں، اور سب کا بازو اس حد تک مروڑ دیا کہ سب ہی لوگ مجوزہ ایجنڈے پر اتفاق کرنے پر مجبور ہوگئے۔
راحیل شریف ہی تھے جنہوں نے آرمی پبلک اسکول کی اس بدقسمت برانچ کے دوبارہ کھولے جانے کی تقریب میں شرکت کی، ایک ایسا کام جو کوئی دوسرا اب تک نہیں کر پایا ہے۔
اس کے علاوہ، اب یہ راحیل شریف ہی ہیں جو اہم ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جبکہ نواز شریف کا کام صرف بیمار سعودی بادشاہ کی عیادت کرنا رہ گیا ہے۔
دوسری جانب غیر ملکی رہنما اور ان کے نمائندے آتے ہیں اور راحیل شریف سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔
سویلین نگرانی کی عدم موجودگی کے بارے میں پریشان مبصرین کو چھوڑیں۔ عوام کے ایک بڑے طبقے کے لیے راحیل شریف ہی وہ ستارہ ہیں جو ترقی کی راہ کو روشن کیے ہوئے ہیں۔ اب ان کی تصویریں اخباروں اور ٹرکوں کے پیچھے دیکھنے کے لیے تیار رہیں۔
اور جیسا کہ ظاہر ہے، خارجہ پالیسی، سکیورٹی، اور بہت جلد معیشت جیسے اہم معاملات 'بہتر شریف' سنبھالیں گے، جبکہ 'کمتر شریف' معمولی انتظامی امور کی حد تک ہی رہ جائیں گے۔ اب سینئر شریف ہی پردے کے پیچھے سے ملک کی قسمت کا فیصلہ کریں گے، جبکہ جونیئر شریف اپنے نمائشی تخت پر بے یار و مددگار بیٹھے رہیں گے۔
اور سب سے بہتر تو یہ ہے کہ راحیل شریف کی شہرت بھی بے داغ ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ جنرل پر کوئی تنقید کی انگلی اٹھا سکتا تھا، یہ سب تو صرف سیاستدانوں کے لیے ہے۔ ریٹائرڈ فوجی افسران کا بھی ان کے اقدامات کے لیے احتساب نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ مشرف کیس سے صاف ظاہر ہے۔ اور راحیل شریف تو ویسے ہی 'صاف' ہیں۔
وزیراعظم ہاؤس میں ایک لاچار انسان کی موجودگی میں رہنمائی کوئی دوسرا کر رہا ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم بحثیت قوم سارا بوجھ صرف اس چیز پر ڈال دیتے ہیں جو بس کام کر رہی ہوتی ہے، چاہے اس میں اتنی صلاحیت ہو بھی یا نہیں۔
جب ایسا ہوتا ہے تو اصلاحات کے نعرے ہمیشہ کی طرح نااہلی کے شور میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور جب ملک پے در پے بحرانوں کی زد میں آتا ہے، تو ضروری جمہوری اقدار کو پسِ پشت ڈال کر توجہ صرف خدمات کی فراہمی کی جانب ہوجاتی ہے، جو بہرحال ضروری ہیں۔
اس کے علاوہ ہر قدرتی یا دوسرے قسم کے سانحات میں سویلینز کی مدد کے لیے فوج کو ان کے ڈسپلن کی وجہ سے بلایا جاتا ہے، جو سالوں کی ٹریننگ کی مرہونِ منت ہے۔
فوجی افسران فوجی انتظامی امور میں تجربہ حاصل کرنے کے بعد ہی اگلا رینک حاصل کرتے ہیں، اور وہ بھی تب جب وہ خود کو اپنے تمام دیگر ساتھیوں سے بہتر ثابت کریں۔ اس کے بجائے یہ دیکھیں کہ آپ کو منتخب سیاستدان بننے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں: درست قومیت، درست مذہب، اور درست قسم کی دولت ہونا ضروری ہے۔
تو اگر حالیہ حالات و واقعات اشارہ ہیں، تو ہم نواز شریف کو الوداع کہہ کر اپنے نئے مسیحا کو خوش آمدید کرسکتے ہیں۔ سیاسی وژن اور سویلین نگرانی کے بارے میں فکرمند ہیں؟ مذاق نہ کریں۔
لیکن ہاں، جہاں تک سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھنے والوں کی بات ہے، تو اگر ملک کے وزیرِ اعظم کے بارے میں سوال آئے، تو انہیں صرف مقبولِ عام حقیقت پر عمل کرتے ہوئے نواز شریف کے نام پر نشان لگا دینا چاہیے۔
یہ امتحان صرف یادداشت کا امتحان ہے، عقل کا نہیں۔
تبصرے (13) بند ہیں