• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

پرائم منسٹر 2.0: مضبوط، تیز اور سخت

شائع January 20, 2015
جو منصوبہ طویل عرصے سے بنایا جارہا تھا، بالآخر کامیاب ہوا، اور نواز شریف اپنی نااہلی کے بوجھ تلے ہی دب گئے — اے ایف پی
جو منصوبہ طویل عرصے سے بنایا جارہا تھا، بالآخر کامیاب ہوا، اور نواز شریف اپنی نااہلی کے بوجھ تلے ہی دب گئے — اے ایف پی

کچھ ہی ہفتوں میں ہزاروں پاکستانی نوجوان انسانی یادداشت کے سب سے سخت ترین امتحان سی ایس ایس میں اپنی قسمت آزمائیں گے۔ امتحان میں فضول سے لے کر فضول ترین سوالات تک پوچھے جائیں گے، اور آپ اس بات پر یقین رکھیں کہ امتحان میں کسی چھوٹے سے افریقی ملک کے وزیرِ اعظم کے کزن کی بہن کے بہنوئی کا نام ضرور پوچھا جائے گا۔

لیکن کبھی کبھی قسمت سے آپ سے بالکل آسان سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے، مثلاً پاکستان کے وزیرِ اعظم کا نام۔

عام حالات میں تو امیدواروں کے لیے یہ مفت کے نمبر کے جیسا ہوگا۔ انہیں صرف گذشتہ الیکشن کے نتائج یاد کرنے ہوں گے، اور پھر وہ فوراً نواز شریف کے نام پر نشان لگا کر بڑے آفسوں میں پہنچنے کے خواب دیکھنے لگیں گے۔

لیکن اس بار ایسا کوئی بھی سوال بہت ہی مشکل ہوگا۔ ایسا میں سمجھاتا ہوں۔

ہمارے جیسے پارلیمانی نظام میں وزیرِ اعظم کو ایوانِ نمائندگان میں موجود اکثریتی پارٹی منتخب کرتی ہے۔ عام طور پر روایت تو یہ ہے کہ اکثریتی جماعت کا لیڈر ہی اس عہدے پر فائز ہوتا ہے، لیکن حالیہ کچھ عرصوں میں ہم اس روایت سے ہٹ کر بھی فیصلے دیکھ چکے ہیں۔

وزیرِ اعظم کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی کابینہ کی سربراہی کرے، ملک کو سخت اور آسان راستوں سے بحفاظت لے کر چلے، اور قومی اتحاد کی اس حد تک مضبوط علامت بن کر دکھائے، کہ جب بھی عوام اپنے اس محبوب لیڈر کی جانب دیکھیں، تو ان کے دل خوشی سے بھر جائیں۔

وزیرِ اعظم تک رسائی بھی آسان ہونی چاہیے، تاکہ ان کو منتخب کرنے والے اپنے مسائل اور پریشانیاں ان تک آسانی سے پہنچا سکیں۔

وزیرِ اعظم کی شہرت نہ صرف بدعنوانی سے پاک ہونی چاہیے، بلکہ انہیں اتنے مضبوط کردار کا ہونا چاہیے کہ وہ کبھی کرپشن نہ کریں۔ انہیں ملکی سرحدوں کے اندر مسائل اور ثقافتوں کی باریکیاں سمجھنے کے قابل ہونا چاہیے، جبکہ قومی اصلاحات کی جانب قدم بڑھانے کے لیے ایک واضح وژن کا حامل ہونا چاہیے۔

یہ سب سننے میں تو بہت اچھا لگتا ہے لیکن اب آئیں ہم حقیقت کا مزہ چکھیں۔

یہ سچ ہے کہ نواز شریف کی جماعت کو 2013 کے انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوئی، اور وہ تیسری مدت کے لیے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔ لیکن کیا نواز شریف ہی وہ شخص ہیں جو ان تمام خوبیوں کے حامل ہیں؟

اس عام سے سوال کا جواب دے کر میں پڑھنے والوں کی ذہانت کی توہین نہیں کروں گا۔

اچھا تو اگر نواز شریف وہ شخص نہیں ہیں، تو پھر ذہن میں دوسرا نام کس کا ابھرتا ہے؟

عمران خان نے بلاشبہ ایک بہتر متبادل پیش کیا، لیکن اگر ذاتی خوبیوں کو ایک طرف رکھا جائے، تو ان کی سیاست میں ابھی بہت گنجائش باقی ہے۔

تو کوئی دوسرا بھی ہے؟

راحیل شریف داخل ہوتے ہیں۔

پاکستان میں سول ملٹری عدم توازن ایک کھلا راز ہے، اور ہماری تاریخ میں کئی مقامات ایسے ہیں جب جنرلوں نے ہمارے سیاسی سیٹ اپ میں مداخلت کی، اور اپنے اس اقدام کے بارے میں پچھلے جنرلوں کے مقابلے میں 'بہتر' جواز پیش کیے۔

لیکن جو کام موجودہ آرمی چیف نے کر دکھایا ہے، وہ بلاشبہ بے مثال ذہانت کا ایک نمونہ ہے۔

پچھلے تمام 'مارشل لاء' خون ریزی کے بغیر ہوئے تھے، لیکن اس کے باوجود وہ سیاستدانوں کو چیخ و پکار اور آواز بلند کرنے سے نہیں روک سکے تھے۔ لیکن اس دفعہ مارشل لاء نہ صرف خون ریزی کے بغیر ہوا، بلکہ کچھ حد تک اتفاقِ رائے سے بھی ہوا۔

کئی تنازعات کے بعد اب آخر کار حکومت کی کمزوری ہاتھ آچکی ہے۔ شاید حالات نواز شریف کے بس سے باہر نکل چکے تھے۔

سب سے پہلے تو ہندوستان کے مسئلے پر انہیں جکڑا گیا۔

اس کے بعد جنرل مشرف بھی نو گو ایریا بن گئے۔

اس کے بعد عمران خان نے گذشتہ سال حکومت کے خلاف ایک زبردست محاذ کھڑا کیا، جس میں وہ ناکام رہے۔ لیکن ان سب حملوں سے چور چور ہونے کے باوجود نواز شریف اپنے پیروں پر کھڑے رہنے میں کامیاب رہے۔

لیکن پشاور حملے کے بعد وہ منصوبہ جو طویل عرصے سے بنایا جارہا تھا، بالآخر کامیاب ہوا، اور نواز شریف اپنی نااہلی کے بوجھ تلے ہی دب گئے۔

اور اس وقت قوم اور فوج کی تمام وفاداریاں نواز شریف کے بجائے راحیل شریف کے ساتھ ہیں۔

نواز شریف نہیں، بلکہ راحیل شریف نے قومی انسدادِ دہشتگردی پلان کی باگیں سنبھالیں، اور سب کا بازو اس حد تک مروڑ دیا کہ سب ہی لوگ مجوزہ ایجنڈے پر اتفاق کرنے پر مجبور ہوگئے۔

راحیل شریف ہی تھے جنہوں نے آرمی پبلک اسکول کی اس بدقسمت برانچ کے دوبارہ کھولے جانے کی تقریب میں شرکت کی، ایک ایسا کام جو کوئی دوسرا اب تک نہیں کر پایا ہے۔

اس کے علاوہ، اب یہ راحیل شریف ہی ہیں جو اہم ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جبکہ نواز شریف کا کام صرف بیمار سعودی بادشاہ کی عیادت کرنا رہ گیا ہے۔

دوسری جانب غیر ملکی رہنما اور ان کے نمائندے آتے ہیں اور راحیل شریف سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔

سویلین نگرانی کی عدم موجودگی کے بارے میں پریشان مبصرین کو چھوڑیں۔ عوام کے ایک بڑے طبقے کے لیے راحیل شریف ہی وہ ستارہ ہیں جو ترقی کی راہ کو روشن کیے ہوئے ہیں۔ اب ان کی تصویریں اخباروں اور ٹرکوں کے پیچھے دیکھنے کے لیے تیار رہیں۔

اور جیسا کہ ظاہر ہے، خارجہ پالیسی، سکیورٹی، اور بہت جلد معیشت جیسے اہم معاملات 'بہتر شریف' سنبھالیں گے، جبکہ 'کمتر شریف' معمولی انتظامی امور کی حد تک ہی رہ جائیں گے۔ اب سینئر شریف ہی پردے کے پیچھے سے ملک کی قسمت کا فیصلہ کریں گے، جبکہ جونیئر شریف اپنے نمائشی تخت پر بے یار و مددگار بیٹھے رہیں گے۔

اور سب سے بہتر تو یہ ہے کہ راحیل شریف کی شہرت بھی بے داغ ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ جنرل پر کوئی تنقید کی انگلی اٹھا سکتا تھا، یہ سب تو صرف سیاستدانوں کے لیے ہے۔ ریٹائرڈ فوجی افسران کا بھی ان کے اقدامات کے لیے احتساب نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ مشرف کیس سے صاف ظاہر ہے۔ اور راحیل شریف تو ویسے ہی 'صاف' ہیں۔

وزیراعظم ہاؤس میں ایک لاچار انسان کی موجودگی میں رہنمائی کوئی دوسرا کر رہا ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم بحثیت قوم سارا بوجھ صرف اس چیز پر ڈال دیتے ہیں جو بس کام کر رہی ہوتی ہے، چاہے اس میں اتنی صلاحیت ہو بھی یا نہیں۔

جب ایسا ہوتا ہے تو اصلاحات کے نعرے ہمیشہ کی طرح نااہلی کے شور میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور جب ملک پے در پے بحرانوں کی زد میں آتا ہے، تو ضروری جمہوری اقدار کو پسِ پشت ڈال کر توجہ صرف خدمات کی فراہمی کی جانب ہوجاتی ہے، جو بہرحال ضروری ہیں۔

اس کے علاوہ ہر قدرتی یا دوسرے قسم کے سانحات میں سویلینز کی مدد کے لیے فوج کو ان کے ڈسپلن کی وجہ سے بلایا جاتا ہے، جو سالوں کی ٹریننگ کی مرہونِ منت ہے۔

فوجی افسران فوجی انتظامی امور میں تجربہ حاصل کرنے کے بعد ہی اگلا رینک حاصل کرتے ہیں، اور وہ بھی تب جب وہ خود کو اپنے تمام دیگر ساتھیوں سے بہتر ثابت کریں۔ اس کے بجائے یہ دیکھیں کہ آپ کو منتخب سیاستدان بننے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں: درست قومیت، درست مذہب، اور درست قسم کی دولت ہونا ضروری ہے۔

تو اگر حالیہ حالات و واقعات اشارہ ہیں، تو ہم نواز شریف کو الوداع کہہ کر اپنے نئے مسیحا کو خوش آمدید کرسکتے ہیں۔ سیاسی وژن اور سویلین نگرانی کے بارے میں فکرمند ہیں؟ مذاق نہ کریں۔

لیکن ہاں، جہاں تک سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھنے والوں کی بات ہے، تو اگر ملک کے وزیرِ اعظم کے بارے میں سوال آئے، تو انہیں صرف مقبولِ عام حقیقت پر عمل کرتے ہوئے نواز شریف کے نام پر نشان لگا دینا چاہیے۔

یہ امتحان صرف یادداشت کا امتحان ہے، عقل کا نہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

سید راشد منیر

سید راشد منیر لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز سے فارغ التحصیل ہیں اور Erasmus Mundus اسکالر ہیں۔ وہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں ڈگریاں رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (13) بند ہیں

Ms Lashari Jan 20, 2015 05:07pm
Syed Rashid Munir, very well done i must say that this is a master piece that you have written....hats off. All are facts with bit irony....... nice way to elaborate facts Thanks Dawn for sharing with us..
Ms Lashari Jan 20, 2015 05:09pm
Will be waiting to have more effective writings on political perspective from you..
Khalid Jan 20, 2015 07:01pm
Good job Rashid Munir sb Fact is Fact You can not change the reality mian sb hor choopo
ali sindhi Jan 21, 2015 01:21am
mr rashid bravo, now am waiting for your next article and your prediction after this failure as a nation where land of pure stand
Kamran hassan Jan 21, 2015 05:18am
I think you are right about nawaz shareef. Nasha sirf protocol ka ha wo pura ho raha ha baki or kia chahye?
hashim Jan 21, 2015 09:39am
Zinda bad.....!!! Keep it up the good work v r waiting 2 c the GOOD SHAREEF as a new MUSHARRAF......
Sohail Jan 21, 2015 10:04am
اگر آپ سی ایس ایس کا امتحان پاس نہیں کرسکے تو بھی یہ تو مناسب نہیں کہ آپ اِس سسٹم میں ہی کیڑے نکالنے لگیں۔ آپکے اِس کالم سے آپکی سیاست اور بین الاقوامی میں ڈگریوں کا پول کھول دیا ہے۔ پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی وجہ ہمارا یہی المیہ ہے کہ شروع سے فوج ہی اصل حُکمران رہی ہے ۔ کونسی بین الاقوامی ڈگری میں آپکو بتایا گیا ہے کہ سیاستدان مُلک چلانا فوج کا مینڈیٹ ہے؟ میرے خیال میں عمران کی نوازشریف کے مقابلے میں ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اب آپ لوگ راحیل شریف کو سامنے لائے ہیں۔ آپ جیسے پڑھے لکھے (اگر واقعی ہیں تو) اگر ایسی سطیحی باتیں کریں گے تو ہمارا تعلیم سے ہی اعتبار اُٹھ جائے گا۔
Imran Jan 21, 2015 11:30am
عوام اسی کی طرف دیکھتے ہیں جو ڈیلیور کر رہا ہو۔
Arshad Jan 21, 2015 11:36am
@Sohail WHEN POLITICIANS DO NOT PERFORM THEIR DUTIES, IT IS BOUND TO HAPPEN. AFTER ALL YOU HAVE SEEN RESULT OF LAST 5 YEARS OF PPP GOVT. THEY ARE STILL NOT PERFORMING IN SINDH, THAR EXAMPLE IS ENOUGH TO UNDERSTAND.
Sohail Jan 21, 2015 01:16pm
I agree with @Imran, @Arshad and others that our politicians couldn't deliver but what our army delivered was even horrific - unstable political system in our country. When I compare Pakistan with India, the only difference between the two is stability of political system which lead India to this level What if you can't trust your dentist, would you think about visiting a cobbler for your toothache ? We need to stabilize our political system and introduce civilized accountability to it to succeed because this is the only known civilized way of governing people
Umar Hayat Jan 21, 2015 02:03pm
یہ بات بلکل سچ ہے اور ہم نواز شریف کو الوداع کہہ کر اپنے نئے مسیحا کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
Aqeel Jan 21, 2015 05:57pm
nice article rashid sb , truly gen raheel sharif is the CEOof this country
muzammal Jan 23, 2015 06:30pm
we have plenty of mindset here that will always appreciate the army govt and criticize the civil govt despite the fact that Pakistan is still paying the heavy price due to previous marshal laws. we need a stable and efficient civil govt here and army should support the civil govt.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024