تھر کا المیہ صرف بھوک کی وجہ سے نہیں
مٹھی کے ضلعی ہیڈکوارٹر سول ہسپتال کے ایک وارڈ میں داخل بظاہر چھوٹے نظر آنے والے اعجاز کو انتہائی غور سے دیکھیں تو آپ اس کے دانتوں کا نوٹس کریں گے اور پھر آپ کو احساس ہوگا کہ وہ کوئی نومولود بچہ نہیں درحقیقت اس کے پالنے پر لگے نوٹ کے مطابق اس کی عمر پانچ سال ہے۔
اعجاز کی دادی بتاتی ہیں " اس کی ماں کے پاس اعجاز کو ہسپتال داخل کرانے کا ارادہ نہیں تھا کیونکہ وہ اس وقت گھر میں نومولود بچے کے ساتھ مصروف ہے"۔
وائٹ اسٹار فوٹو |
اسی وارڈ کے ایک اور پالنے میں 28 دن کی صنم لیٹٰ ہوئی ہے، اس کی ماں دیبو نے بتایا کہ اس نے دس بچوں کو جنم دیا ہے جن میں سے چار ہی زندہ ہیں اور اب صنم بھی اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔
مٹھی ضلع تھرپارکر کا صدر مقام ہے اور یہاں کا ضلعی سول ہسپتال تھر کے دس لاکھ باسیوں کی خدمت کررہا ہے جو چھوٹے بڑے دیہات و قصبوں سے یہاں کا رخ کرتے ہیں کیونکہ یہ ضلع کا واحد سیکنڈری ہسپتال ہے۔
تھر میں قحط کی خراب ترین صورتحال کو پیش نظر یہاں علیحدہ سے مل نیوٹریشن وارڈ قائم کیا گیا ہے۔
ہسپتال کی راہداریوں میں متعدد والدین اور دادا دادی گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں ایک ماہ سے کم بچوں کے لیے نیونیٹل سیکشن بھی موجود ہے جہاں مل نیوٹریشن وارڈ کے مقابلے میں زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
وائٹ اسٹار فوٹو |
ہسپتال کے ایک ڈاکٹر سکندر رضا کا دعویٰ ہے " لگ بھگ ساڑھے پانچ سو بچے ستمبر 2013 کے بعد سے ہسپتال میں داخل ہوئے ہیں جن میں سے 439 بہتری کے بعد ڈسچارج ہوگئے جبکہ گیارہ ہلاک ہوگئے"۔
ہسپتال کے میڈیکل سپرٹینڈنٹ ڈاکٹر رام رتن بتاتے ہیں اکثر بچے کم وزن کے ساتھ قبل ازوقت پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ان کی مائیں متعدد بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی کمزور ہوچکی ہوتی ہیں اور بغیر کسی وقفے کے حاملہ ہورہی ہوتی ہیں " ماﺅں کی صحت بچوں کی اموات اور بچوں کے نقص غذائیت سے متاثر ہونے سب سے بڑا سبب ہے"۔
اگرچہ تھر کے والدین کا ماننا ہے کہ اگر وہ دور دراز علاقوں سے کئی گھنٹوں کا سفر کرکے ہسپتال پہنچ جائیں تو ان کے بچوں کی جانیں بچ سکتی ہیں اور ڈاکٹر رام رتن کا کہنا ہے " کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بچے کو بہت زیادہ نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے ایسے معاملات کو ہم حیدرآباد اور کراچی کے بڑے ہسپتالوں کو ریفر کرتے ہیں مگر لوگ اپنے بچوں کو علاج کے دوران ہی واپس لے جاتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ کوئی ڈاکٹر ٹریٹمنٹ فراہم نہیں کرتا، وہ مطمین نہیں ہوتے اور مشتعل ہوجاتے ہیں"۔
2013 سے اب تک 43 بچوں کو ان کے خاندان یہاں علاج نہ کروانے کا فیصلہ کرکے واپس لے جاچکے ہیں۔
حصار فاﺅنڈیشن کے ڈاکٹر سونو خان گھرانی زور دیتے ہیں " یہ بات واضح ہے کہ یہ بچے بھوک کی وجہ سے نہیں مرتے بلکہ ان کی ہلاکتیں ناقص غذائیت کی بناءپر ہوتی ہیں، ناقص غذائیت کے تین عناصر ہیں بہت زیادہ آبادی، جانوروں کی کم پیداوار اور لوگوں کی غذا سے سبز سبزیوں کا دور ہوجانا"۔
تھر میں ناقص غذائیت کا بحران کے باعث متعدد خاندان کو مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اپنے بچوں کی ہلاکت پر ماتم کرتے نظر آتے ہیں، یہاں والدین کے پاس اپنے بچوں کو لے جانے کے لیے ہسپتال بہت کم ہیں یعنی ایک مٹھی کا سیکنڈری ہسپتال اور دوسرا ملحقہ ضلع عمر کوٹ کا ایک ہسپتال۔
عمر کوٹ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے انچارج محمد جام بتاتے ہیں " لگ بھگ پانچ سو مریض روزانہ او پی ڈی میں آتے ہیں اور یہاں ناقص غذائیت کی بناءپر نہیں بلکہ اسے ہونے والی پیچیدگیوں جیسے نمونیا یا ہیضے وغیرہ سے ہلاکتیں ہوئی ہیں"۔
وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس کا الزام خاندانی منصوبہ بندی کی کمی ہے " ایسے متعدد نومولود بچوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں جو خاندانی منصوبہ بندی کی کمی کے باعث کم وزن کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، عام طور پر کمزور بچوں کو دیکھتے ہیں اور ایسے جو ناقص غذائیت کا شکار ہوتے ہیں جن کی عمر چھ ماہ کے لگ بھگ ہوتی ہیں اور ان کی مائیں ان کا مناسب خیال نہیں رکھ پاتیں کیونکہ وہ ایک بار پر حاملہ ہوچکی ہوتی ہیں، خاندانی منصوبہ بندی یہاں کا کافی بڑا مسئلہ ہے"۔
عمر کوٹ کی 'فعال' لیبارٹری |
محمد جام کے خیال میں ایک مسئلہ ہسپتال میں عملے کی کمی ہونا بھی ہے" ہمارے پاس کوئی چائلڈ اسپیشلسٹ اور گائناکالوجسٹ نہیں، بلکہ ہم نے عارضی طور پر ایک خاتون ڈاکٹر کو دوسرے ادارے سے ادھار لے رکھا ہے تاکہ یہاں آٹھ لیڈی ڈاکٹرز کی پوسٹس کو کور کیا جاسکے"۔
وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ہسپتال میں ڈاکٹروں کی 46 اسامیاں ہیں مگر ان میں سے صرف 23 کو بھرا جاسکا ہے۔
عمر کوٹ کا 55 بستروں پر مشتمل ہسپتال کا آغاز 1978-79 میں بطور دیہی طبی مرکز کے ہوا تھا، جسے 1986 میں تعلقہ ہسپتال کا درجہ دیا گیا اور 2002 سے یہ ضلعی ہسپتال کے طور پر کام کررہا ہے، محمد جام بتاتے ہیں " ہر بار ہسپتال کو ایک نیا نام دیا گیا تاہم انفراسٹرچکر میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، یہ ایک سیکنڈری ہسپتال ہے جہاں سہولیات میں اضافہ ہونا چاہئے اور ضروریات کے مطابق اسے اپ گریڈ ہونا چاہئے"۔
ہسپتال میں توسیع کا معاملہ عملے کی کمی سے زیادہ بڑا معمہ ہے، ہسپتال کے سنیئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر چھنومل وضاحت کرتے ہیں کہ یہاں ایکس رے مشین تو موجود ہے مگر خراب پڑی ہے، ایمبولینسیں چار ہیں مگر ڈرائیور ایک ہے اور اس کی خدمات بھی ای ڈی او ہیلتھ مستعار لے لیتے ہیں۔
وائٹ اسٹار فوٹو |
تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہاں ادویات دستیاب ہین جبکہ ایک لیبارٹری کام کررہی ہے۔
مگر اس لیبارٹی کے اندر نئے آلات تاحال پیک رکھے ہوئے نظر آتے ہیں اور جب پوچھا گیا کہ ان کھولا کیوں نہیں گیا تو ہسپتال کے عملے نے دعویٰ کیا ہے کہ ان آلات کو لگانے کے لیے جگہ نہیں۔ بہت بڑی جگہ کانگو وائرس کے بالکل خالی آئسولیشن وارڈ نے گھیر رکھی ہے جس کا افتتاح ایک حکومتی وی آئی پی نے کیا تھا۔
حصار فاﺅنڈیشن کے ڈاکٹر سونو خان گھرانی بتاتے ہیں " ناقص غذائیت خاص طور پر چھوٹے بچوں میں، ایک تاریخی مسئلہ ہے، تھرپارکر میں پہلی بار قحط 1900 میں ریکارڈ کیا گیا تھا اور اس وقت ایک ماہ میں پندرہ سو ہلاکتیں ہوئی تھیں، اس کے پیش نظر 1906 میں پہلی قحط پالیسی ترتیب دی گئی اور یہ پالیسی اس وقت کارآمد ہوجاتی تھی جب اگست میں بارشیں نہ ہوتیں مگر اب تو سب کچھ بھلا دیا گیا ہے"۔
اور اب بھی تھر میں بالغ افراد کی اوسط عمر باقی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
ڈاکٹر سونو خان بتاتے ہیں " یہاں لوگ زیادہ لمبے عرصے تک جیتے ہیں مگر 40 سے70 سال کی عمر کا گروپ بیروزگار ہے کیونکہ مشینوں نے صوبے میں عام مزدوروں کی جگہ لے لی ہے، جس کے نتیجے میں دائمی قرضوں کی شرح بڑھی ہے، تھر پاکستان کا واحد علاقہ ہے جہاں کی اسی فیصد آبادی خوراک کے لیے ادھار رقم لیتی ہے، جب آپ ایسا کرتے ہیں تو خوراک کا انتخاب بھی محدود ہوجاتا ہے کیونکہ ادھار رقم سے آپ ضروری اشیاءجیسے آٹا یا چاول ہی خرید سکتے ہیں جبکہ آلو، پیاز یا ٹماٹر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا"۔
حالیہ رجحانات سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت نے تین ہزار کے لگ بھگ کنٹریکٹرز کی خدمات تھرپارکر میں ریلیف فراہم کرنے کے لیے حاصل کی ہیں، ڈاکٹر سونو خان بتاتے ہیں " ان کی ذمہ داری قحط سے متاثرہ ہر علاقے میں بوریاں تقسیم کرنا ہے مگر متعدد کنٹریکٹرز کچھ بوریاں مارکیٹ میں فروخت کردیتے ہیں، یہ تھرپارکر کے وہ چند بدلتے محرکات ہیں جنھوں نے یہاں مسائل کو بڑھایا ہے"۔
قحط سالی کے ماہر علی اکبر رحیم بتاتے ہیں کہ قحط ایک قدرتی مظہر ہے جو حکومتی نااہلی کی بناءپر تباہ کن بن جاتا ہے " حکومت کو یہاں ملازمتیں تشکیل دینی چاہئے، یہاں کے صحرا کا 85 فیصد حصہ ہندوستان کا حصہ ہے مگر وہاں قحط سالی یا ناقص غذائیت کی بناءپر کوئی نہیں مرتا، ہم یہاں پالتو مویشیوں پر انحصار کرتے ہیں مگر ہمارے زمین خشک پڑنے سے جانوروں کو چارہ نہیں مل رہا اور ان کے مالکان ہجرت کررہے ہیں۔ ایک قحط تھرپارکر کو پانچ سے پندرہ سال پیچھے لے جاتا ہے جبکہ یہاں آخری بار بارش 2013 میں ہوئی تھی"۔
انہوں نے اسی کی دہائی میں حکومت کی جانب سے لوگوں کو مفت اشیاءدینے کے رجحان پر بھی فکرمندی کا اظہار کیا " اس سے لوگوں کے اندر امداد پر انحصار بڑھنے لگا اور مسائل کا کوئی پائیدار حل نہیں نکل سکا ہے"۔
اس کی ایک مثال علاقے میں حکومت سندھ کی جانب سے یوایس ایڈ کے تعاون سے کھولے جانے والے پی پی ایچ آئی طبی مراکز ہیں جہاں کچھ حاملہ خواتین چیک اپ کے لیے نہیں بلکہ یہ افواہیں سن کر آئیں کہ وہاں مفت کمبل تقسیم کیے جارہے ہیں۔
اس بات کو سادگی سے تھرپارکر کے ایک رہائشی محمد جمعہ نے ان الفاظ میں بیان کیا کہ ناقص غذائیت کا قحط سے تعلق ہے اور قحط کا پانی کی قلت سے تعلق ہے " ہمیں ٹیوب ویلز کی ضرورت ہے تاکہ ہم متعدد فصلوں کی کاشت کا تجربہ کرسکیں، ایسے مقامات جہاں کوئی ٹیوب ویل ہے وہاں لوگوں نے سورج مکھی، مونگ پھلی، زیرہ، درخت اور مویشیوں کے لیے چارہ اگایا ہے، ہماری خواتین میلوں دور سے پانی کے کنستر بھرکر لاتی ہیں اور ٹیلوں پر چڑھتی ہے مگر پھر بھی ان کا پیٹ بھر نہیں پاتا یہاں تک کہ وہ اپنے بچوں کی نگہداشت بھی نہیں کرپاتیں"۔