کیا مولانا عبدالعزیز نظربند ہیں؟
اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کو مسجد کے قریب مدرسے میں نظربند کردیا گیا ہے۔
ان افواہوں کو اس وقت تقویت ملی جب مولانا عبدالعزیز جمعہ کو لال مسجد نہیں آئے اور انہوں نے بذریعہ ٹیلیفون اور تقریر کی اور خطبہ دیا۔
اس کے بعد سے قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ خطیب کو مسجد کے قریب واقع جامعہ حفصہ میں نظربند کردیا گیا کیونکہ بصورت دیگر وہ ہر حال میں خطبہ دینے مسجد آتے۔
تاہم اسلام آباد پولیس اور لال مسجد انتظامیہ دونوں نے ان افواہوں کی تردید کی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولانا عبدالعزیز نے پشاور سانحے کے بعد بیان دیا تھا کہ وہ پشاور میں معصوم بچوں کے قتل عام کی مذمت نہیں کرتے اور نہ ہی ان کو شہید سمجھتے ہیں۔
اس متنازع بیان کے بعد سول سوسائٹی نے خطیب کے خلاف احتجاجی مہم شروع کردی تھی۔
دو دن تک مظاہرین نے مسجد کے سامنے مظاہرہ کیا اور اس دوران مولانا عزیز نے مبینہ طور پر مظاہرین کو دھمکیاں دیں جس کے نتیجے میں ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
لیکن مقدمہ درج ہونے کے باوجود سول سوسائٹی کے نمائندے مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں اور خطیب لال مسجد کی گرفتاری اور انہیں مسجد کے سربراہ کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس دوران ایک مقامی عدالت نے ان کے وانٹ گرفتاری جاری کیے لیکن عبدالعزیز نے کہا کہ وہ گرفتاری دیں گے اور نہ ہی ضمانت کے لیے درخواست دیں گے۔
اس بیان نے سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مزید مشتعل کردیا تھا جن کا ماننا تھا کہ پولیس خطیب لال مسجد کو ان کے اثرورسوخ کے باعث گرفتار نہیں کر رہی۔
افواہیں پھیلانے والوں نے کہا کہ خطیب کے اثرورسوخ کے باعث پولیس ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود انہیں گرفتار نہیں کر رہی۔
اس حوالے سے جب سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (آپریشن) میر واعظ نیاز سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ خطیب لال مسجد کو نظر بند نہیں کیا گیا۔
لال مسجد کے نائب خطیب مولانا عامر صدیقی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ نماز جمعہ کے دوران مولانا عبدالعزیز نے ٹیلیفونک خطبہ دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ مولانا کو نظربند کردیا گیا ہے، وہ شہر کی موجودہ صورتحال اور تناؤ کے ماحول کے باعث جان بوجھ کر مسجد نہیں آئے، وہ صورتحال کو معمول پر لانے کے خواہاں اور شہر کے تناؤ میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتے۔