عذیر بلوچ کون ہے؟ ایک تعارف
کراچی: گینگسٹر عذیر جان بلوچ کی دبئی میں انٹرپول کے ہاتھوں گرفتاری کی خبر منظر عام پر آنے کے ساتھ ابھی عذیر کے کارندوں نے ہمیشہ کی طرح لاؤڈ اسپیکر سے اعلانات کیے بھی نہ تھے کہ لیاری کے کچھ علاقوں میں دکانیں بند ہونا شروع ہو گئیں۔
37 سالہ عذیر لیاری میں پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی نمائندہ تصور کیے جاتے ہیں، ایک ایسی شناخت جس سے خود پیپلز پارٹی جانب چھڑانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
انہوں نے 2001 کے انتخابات میں لیاری کے ناظم کی حیثیت سے سیاست میں اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کی لیکن انہیں پیپلز پارٹی کے کٹر کارکن حبیب کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو ماما کے بیٹے عذیر نے 2003 میں محمد ارشد عرف ارشد پپو کے ہاتھوں اپنے والد کے قتل کے فوراً بعد جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا تاکہ اپنے والد کے قتل کا بدلہ لے سکیں۔
ارشد پپو، عذیر بلوچ کے کزن عبدالرحمان عرف عبدالرحمان ڈکیت کے حریف سمجھے جاتے تھے۔
عبدالرحمان اور ارشد پپو گینگ کے درمیان لیاری میں منشیات اور زمین پر ایک طویل عرصے تک گینگ وار جاری رہی۔
عدالت میں والد کے مقدمے کی پیروی کے دوران عذیر بلوچ کو ارشد پپو گینگ سے دھمکیاں موصول ہوئیں جس پر عبدالرحمان ڈکیت نے انہیں اپنے گینگ میں شامل کر لیا۔
اس حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عذیر نے ابتدائی طور پر رحمان کے گینگ میں شمولیت سے انکار کردیا تھا لیکن جیسے ہی انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ دونوں کا دشمن مشترک ہے تو انہوں نے رحمان کے گینگ میں شمولیت اختیار کر لی۔
سی آئی ڈی پولیس کے مرحوم ایس ایس پی اسلم خان نے 2003 میں عذیر کو سجاول میں واقع ان کی آبائی زمین سے گرفتار کیا تھا لیکن کراچی سینٹرل جیل میں محض دو گھنٹے گزارنے کے دوران پیپلز پارٹی کے کچھ کارکن ان کے ساتھ رہے جنہوں نے رہائی کے بعد انہیں محفوظ پناہ گاہ بھی فراہم کی۔
پے رول پر رہائی کے دوران عذیر نے سماجی کام کرنے شروع کر دیے اور علاقے میں کئی اسکول کھولے۔
لیکن دوسری جانب لیاری کے مرکزی بازاروں میں بھتہ خوری کا ناسور انتہائی تیزی سے پروان چڑھنے لگا جس کے نتیجے میں لوگ انہیں انکار کرتے ہوئے خوف محسوس کرنے لگے۔
پولیس ان کاؤنٹر میں عبدالرحمان ڈکیت موت کے بعد عذیر گینگ میں مرکزی کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور تمام گینگ کے باہمی اتفاق رائے سے بلامقابلہ گینگ کے نئے سربراہ مقرر ہوئے۔
غیر اعلانیہ طور پر پیپلز امن کمیٹی سے وابستگی رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی 2012 تک عذیر بلوچ کو تحفظ فراہم کرتی رہی لیکن اس موقع پر حالات نے کروٹ لی۔
ٹپی کے نام سے مشہور اویس مظفر لیاری سے انتخابات میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن عذیر بلوچ نے ان کی اس خواہش کو مسترد کردیا، اس موقع پر پیپلز پارٹی اور امن کمیٹی کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے اور نتیجتاً ہنگامی بنیادوں پر اپریل 2012 میں آپریشن شروع کردیا گیا جو مقامی لوگوں اور اندرونی ذرائع کے مطابق مکمل سیاسی مقاصد کی وجہ سے کیا گیا۔
ایک ہفتے یہ آپریشن ختم کردیا گیا اور پیپلز پارٹی کو عذیر کے مطالبات کے آگے سرخم تسلیم کرنا پڑا، عذیر نے مطالبہ کیا تھا کہ 2013 کے عام انتخابات میں ان کے منتخب کردی امیدواروں کو پیپلز پارٹی ٹکٹ دے گی۔
تاہم اگر لیاری میں ان کی موجودگی کی بات کی جائے تو ذرائع کے مطابق اندرونی طور پر مستقل جاری لڑائیوں کے باعث یہ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور پیپلز امن کمیٹی کا اب کوئی وجود نہیں۔
عذیر بلوچ دہشتگردی، قتل اور بھتہ سمیت 20 سے مقدمات میں مطلوب تھے لیکن جو کارروائی انہیں انہیں منظر عام پر لے کر آئی وہ گزشتہ سال سپریم کورٹ کی جانب سے لیا گیا سوموٹو نوٹس تھا جو اعلیٰ عدلہ نے عذیر کے ارشد پپو قتل کیس میں ملوث ہونے پر لیا۔
عذیر کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق پیپلز پارٹی لیاری میں دوبارہ اپنی جڑیں بنانے کی کوششیں کر رہی ہے اور عذیر کی گرفتاری کے ساتھ ہی پارٹی کے پاس نادر موقع ہے کہ وہ اپنی شرائط پر لیاری پر دوبارہ کنٹرول حاصل کریں جسے وہ ایک دہائی قبل کھو چکے تھے۔
تبصرے (1) بند ہیں