'نا' کہنے کی جرات ہے؟
آج کا یہ لمحہ یہ وقت ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ اگر ہم زندگی میں موجود تضادات کو فوراً ختم نہیں کرسکتے، تو کم از کم ایک سیرِ حاصل گفتگو کا آغاز تو کر ہی سکتے ہیں تاکہ تضادات کے خاتمے کی جانب بڑھا جاسکے۔
لیکن یہ ایسی صورت میں ہی ممکن ہے کہ جب ہمارا وصف، ہمارا ضمیر، ہمارا ذہن اس مذہبی غلامی سے آزاد ہو جو ملائیت کی صورت میں ہمارے معاشرے میں خدا کے بعد مقدس ترین درجے پر فائز ہوچکی ہے، اور جس کے سامنے سوال کرنا احکامات خداوندی کی نفی کرنا سمجھا جاتا ہے۔ یوں تو دنیا بھر کے مذاہب میں ایک بات جو مشترک ہے وہ یہ ہے کہ تمام مذاہب انسان کو انسان بناتے ہیں مگر ہمارے یہاں مذاہب کی تجارت نے اتنے تضادات کوجنم دے رکھا ہے کہ مذہب تو موجود ہے لیکن اس کی انسان دوست صفت فوت ہوچکی ہے۔
علماء، مدارس، مساجد اور درس گاہیں ہمارے معاشرے میں مذہب کے کئی چہرے ہیں مگر ہمارے علماء کی تضادات سے بھرپور زندگی نے مذہب کی اس شناخت کو مسخ کردیا ہے۔ اسلام میں کلمہ طیبہ کا پہلا لفظ ”لا“ ہے یعنی ”نہیں“ ہے اور اگر اسلام میں سے ”نہیں“ کو نکال دیا جائے تو اس مذہب میں کچھ باقی نہیں رہتا۔ لیکن آج اس مذہب کے پیروکار ”نہیں“ کرنے کی جسارت نہیں رکھتے۔
لیکن سوال تو ذہن میں یہ ابھرتا ہے کہ کیا آج اس مذہب کے ماننے والے کسی خطیب، کسی مولوی یا کسی مفتی کے سامنے ”نہیں“ کہنے کی جرأت رکھتے ہیں؟ نہیں تو دور کی بات کیا ہم کسی مولوی یا مفتی سے اس کے عمل کے بارے میں کسی سوال کی گنجائش رکھتے ہیں؟ جی نہیں! بالکل بھی نہیں، کیونکہ آج خدا کی حاکمیت پر ملائیت قابض دکھتی ہے۔ وہ مسجد جو کبھی خدا کا گھر ہوا کرتا تھا آج انتشار کا گھر ہے، وہ مدارس جو کبھی درس گاہیں تھیں آج قتل گاہیں بن کر ابھر رہی ہیں، وہ مولوی جو خدا کا خلیفہ تھا آج اس نے زمینی خدا کی چادر اوڑھ لی ہے۔
ملائیت نے خدا کے مذہب پر اپنی ایسی اجارہ داری قائم کرلی ہے کہ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنت کی چابی کسی فرشتے کے پاس نہیں بلکہ ہمارے مولوی کے پاس ہے۔
پاکستان کا مذہبی حکمران مولوی تضاد سے بھر پور زندگی بسر کر رہا ہے۔ ہمیں علماء کے قول و فعل میں تضاد کو جانچنا ہو تو اسے کبھی میڈیا یا ٹی وی پر سننے کے بعد اس وقت سنا جائے جب وہ مسجد کے ممبر پر نماز جمعہ کا خطبہ دیتا ہے۔ آپ کو ایک لمحے کے لیے ضرور محسوس ہوگا کہ شاید اسلام صرف جنگ و جدل کا نام ہے کیونکہ مولوی ٹی وی پر امن کی بات کرتا ہے اور ممبر پر مسلمانوں کے متعدد فرقوں کی، جس میں ان کا سرفہرست کام اپنے فرقے کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔
ذرا غور کریں کہ مغرب والے جب مسلمانوں کو دہشتگرد یاشدت پسند کہتے ہیں تو ہمارے علماء یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ان دہشتگردوں اور شدت پسندوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، دہشتگردوں کا نہ کوئی دین ہے اور نہ کوئی مذہب لیکن ہم میں سے کوئی یہ سوال کرنے کی جرأت نہیں رکھتا کہ اگر ان دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ہے تو مولوی ان کا جنازہ کیوں پڑھتے ہیں؟
آخر میں ان فتویٰ گروں سے ان مولویوں سے ایک سوال کرنے کی جرأت کروں گا جو اگر بات بات پر فتویٰ جاری کر دیتے ہیں کیا وہ ایک ایسا فتویٰ ان کے بارے میں بھی دیں گے جو دہشتگردوں کا جنازہ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں؟ شاید اس طرح دہشتگردی کو اسلام سے جوڑنے والوں پر عملی طرح سے ثابت کیا جاسکے کہ مدرسہ اور مسجد کا واقعی دہشتگردوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مسجد، مدرسہ کو بھی وہ اعزاز حاصل ہوجائے جس سے انہیں محروم کردیا گیا ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں