• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

فوجی عدالتوں کا قیام آئینی قرار دینے کی درخواست

شائع December 28, 2014
فائل فوٹو اے ایف پی
فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ 1999 کے شیخ لیاقت حسین مقدمے میں فوجی عدالتوں کو غیر آئینی قرار دیے جانے کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔

عوامی حمایت تحریک کے چیئرمین مولوی اقبال حیدر کی جامنب سے سپریم کورٹ میں ہفتے کو دائر کی گئی درخواست میں اعلیٰ عدلیہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں فوجی عدالتوں کے قیام کے قوانین بنانے کی اجازت دیتے ہوئے حکومت اختیار دے تاکہ وہ سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر شدت پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کر سکیں۔

درخواست گزار نے اعتراض کیا کہ آرٹیکل 4 میں ایسا کوئی نکتہ نہیں جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو جبکہ اگر دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کرنے سے حکومت کو عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں مدد ملتی ہے تو اس کے قیام پر بھی کوئی پابندی نہیں۔

1999 میں اس وقت کے چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں قائم نو رکنی بینچ نے 1998 کا آرڈیننس 12 غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ یہ آرڈیننس نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں نافذ کیا تھا اور اسے شیخ لیاقت حسین نے چیلنج کیا تھا۔

اس آرڈیننس کو بنانے کا مقصد سندھ میں فوجی عدالتوں کا قیام تھا تاکہ 90 کی دہائی کے وسط میں کراچی میں ہونے والی بدترین دہشت گردی میں ملوث ملزمان کا ٹرائل کیا جا سکے۔

سپریم کورٹ نے ناصرف فوجی عدالتوں کے قیام کو غیر قانونی قرار دیا تھا بلکہ ساتھ ساتھ دہشت گردی کے تمام مقدمات 1997 میں بنائے گئے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں نمٹانے ہدایات جاری کی تھیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید ہدایات جاری کی تھیں کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کو ایک وقت میں صرف ایک کیس سونپا جائے جب تک پہلے مقدمے کا فیصلہ ہاتھ میں نہ آ جائے، اس وقت دوسرا مقدمہ حوالے نہ کیا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ خصوصی عدالتوں کو بھی روزانہ کی بنیاد پر مقدمات کی سماعت کرنے اور سات دن کے اندر اندر فیصلہ سنانے کی بھی ہدایات جاری کی گئیں۔

عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ تمام ضروری تیاریاں ہونے کے بعد ہی کیس کا چالان جمع کرایا جائے اور جب جبھی بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت کو ضرورت پیش آئے، گواہوں کو پیش کیا جائے۔

چیف جسٹس ناصر الملک نے موجودہ صورتحال کو بھانپتے ہوئے حال ہی میں 24 دسمبر کو تمام صوبوں کی اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس کا ایک اجلاس طلب کیا تھا جس میں فیصلہ کیا گیا تھا دہشت گردی کے مقدمات کو ترجیح دیتے ہوئے ان کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے گی۔

تاہم اقبال حیدر نے اپنی درخواست میں عدالت سے 1999 کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے عوام کے مفاد میں نئی ہدایات جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ دہشت گردی نے ملک بھر کے عوام کو محصور کردیا ہے جس سے وہ بنیادی حقوق سے محروم ہو چکے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ ملک میں امن و امان کی موجودہ صورتحال انتہائی مخدوش ہے اور فوج کے تعاون کے بغیر عوام کی جان، مال، آزادی، نقل و حرکت اور حفاظت انتہائی مشکل ہو چکی ہے۔

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ معصوم عوام کے قتل عام میں ملوث دہشت گردوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں تاکہ انہیں انصاف فراہم کیا جا سکے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024