بی بی ہم شرمندہ ہیں
کیا کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو جیسی نڈر اور حوصلہ مند لیڈر کسی صحافی کے سوال پر دورانِ انٹرویو مائیک واک آئوٹ کر گئی ہوں؟
مگر ایسا ہوا جب 8 فروری 2006 کو جیو نیوز پر چلنے والے پروگرام جوابدہ میں محترمہ میزبان افتخار احمد کے ایک سوال پر غصّے میں آگئیں اور مائیک اتارتے ہوئے کمرہ انٹرویو سے چلی گئیں۔ جس کے بعد پروگرام میں وقفہ آگیا۔
وقفے کے بعد جب پروگرام دوبارہ شروع ہوا تو محترمہ اپنی نشست پر براجمان تھیں اور میزبان کی طرف سے تند و تیز سوالات کا سلسلہ ایک بار پھر سے شروع کردیا گیا۔
اصل میں وہ سوال جس پر محترمہ غصّے میں آئیں وہ محترمہ کے بھائی مرتضٰی بھٹو سے متعلق تھا جس پر محترمہ جذباتی ہو گئیں اور جذبات کی تاب نہ لاتے ہوئے انٹرویو ادھورا چھوڑ کر چلی گئیں۔
دورانِ انٹرویو محترمہ میزبان افتخار احمد کا سوال تھا کہ؛
"آپ وزیر اعظم ہو کر بھی اپنے بھائی کے قاتلوں کا پتہ نہیں لگا سکیں"۔
جواب میں محترمہ کا جواب تھا کہ کیا لیاقت علی خان کے قاتلوں کا پتہ چلا؟
اس جواب کے جواب میں میزبان نے کہا کہ لیاقت علی کا بیٹا وزیر اعظم نہیں تھا، مگر آپ تو وزیر اعظم تھیں۔
اس سوال پر محترمہ جذباتی ہوگئیں اور انٹرویو چھوڑ کر چلی گئیں۔ مگر کچھ ہی دیر بعد واپس آگئیں۔
بد قسمتی کی بات یہ کہ مرتضٰی بھٹو کے قاتلوں سے متعلق سوال پر جذباتی ہونے والی محترمہ خُود ایسے سفاک قاتلوں کا نشانہ بن گئیں جن کا پتہ ان کی شہادت کے سات سال گزرنے کے بعد بھی نہیں چل سکا۔
محترمہ کی شہادت کے اگلے روز ہی سی این این نے خبر دی کہ محترمہ کی جانب سے شہادت سے دو ماہ قبل اپنے پرانے امریکی دوست مارک سیگل کو ای میل کی گئی تھی، جس میں کہا گیا کہ اگر محترمہ کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری صدر پرویز مشرف پر ہوگی۔
اس کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری نے محترمہ کی شہادت کے بعد 30 دسمبر کو کی جانے والی پریس کانفرنس میں مسلم لیگ (ق) کو قاتل لیگ کے خطاب سے نوازا۔
قاف لیگ کو قاتل لیگ کے خطاب سے نوازنے کے جواب میں چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے بھی اسی دن بیان دیا گیا کہ محترمہ کی شہادت کا فائدہ سب سے زیادہ کسے ہوا؟ محترمہ کی انشورنس کی رقم کسے ملے گی؟
سابق صدر آصف علی زرداری اور چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بعد ایک وقت وہ بھی آیا جب پیپلز پارٹی کے دور میں ہی سیاسی مفاہمت کے نام پر چوہدری پرویز الہٰی کو نائب وزیر اعظم نامزد کردیا گیا۔
اس کے علاوہ سابق آرمی چیف اور سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو 2008 میں صدارتی انتخابات میں آصف علی زرداری کے ہاتھوں شکست کے بعد گارڈ آف آنر دے کر صدارتی محل سے روانہ کیا گیا، جس کے بعد پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں وفاق میں حکومت ہونے کے باوجود بھی پیپلز پارٹی کی حکومت سابق صدر کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرسکی۔
چوہدری پرویز الہٰی کے علاوہ جن تین دیگر افراد پر محترمہ کی جانب سے شُبہ کیا گیا تھا، اُن میں سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل حمید گُل، سابق چیف انٹیلی جینس بیورو چیف بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غُلام رحیم تھے۔
سابق آئی ایس آئی چیف تو آج بھی اکثر نیوز چینلز پر اپنے دور میں بنائے گئے طالبان کو سپورٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ سابق آئی بی چیف بریگیڈیئر اعجاز شاہ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اور اطلاعات کے مطابق عمران خان کے ایڈوائزر ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم 2013 کے انتخابات میں شکست کے بعد خبروں سے غائب ہیں۔
شرمندگی کی بات یہ ہے کہ سات سال گزرنے کے بعد بھی آج تک پیپلز پارٹی کی حکومت اس لیڈر کے قاتلوں کا پتہ نہیں چلا سکی جو خُود اپنے دورِ حکومت میں اپنے بھائی کے قاتلوں کا سراغ لگانے میں ناکام رہی۔
آج محترمہ کی شہادت کے 7 سال گزرنے اور میر مرتضی بھٹو کی ہلاکت کے 18 سال گزرنے کے بعد دونوں کے قاتل لاپتہ ہیں۔
آج جب گڑھی خُدا بخش، لاڑکانہ میں محترمہ کی ساتویں برسی منائی جارہی ہے تو میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق برسی کے موقع پر داعش کی جانب سے وال چاکنگ سامنے آئی ہے.
محترمہ کی ساتویں برسی پر پیپلز پارٹی کے سب سے مضبوط گڑھ لاڑکانہ میں داعش کی وال چاکنگ بنیادی طور پر انتہا پسند تنظیم داعش کی محترمہ کے گھر میں موجودگی کا پیغام دینا ہے۔ وہی انتہا پسندی جس کے خلاف لڑتے وہ شہید ہوئیں۔
تبصرے (1) بند ہیں