• KHI: Fajr 4:44am Sunrise 6:04am
  • LHR: Fajr 4:00am Sunrise 5:27am
  • ISB: Fajr 4:00am Sunrise 5:29am
  • KHI: Fajr 4:44am Sunrise 6:04am
  • LHR: Fajr 4:00am Sunrise 5:27am
  • ISB: Fajr 4:00am Sunrise 5:29am

مووی ریویو: بھوپال -- اے پریئر فار رین

شائع December 29, 2014

یہ فلم 2 دسمبر 1984 میں ہونے والے سانحہ بھوپال پر بنائی گئی ایک بائیوگرافیکل ڈرامہ مووی ہے۔ اس افسوسناک سانحہ میں کوئی دس ہزار زندگیاں موت آغوش میں چلی گئیں۔ ڈائریکٹر/رائیٹر روی کمار نے فلم میں وہ حالات و واقعات پیش کیے ہیں جو اس بھیانک سانحے کی وجہ بنے۔

ڈائریکٹر روی کمار نے فلم کو ڈاکومنٹری کی شکل نہیں دی بلکہ دلیپ نامی ایک غریب رکشہ والے کی کہانی کے اردگرد بھوپال کی کہانی تشکیل دی ہے۔ انہوں نے بھوپال ٹریجڈی کے اصل حقائق عوام کے سامنے لانے کے لیے سنیما کی مدد لی ہے۔ یہ ایک مختلف موضوع کی حامل فلم ہے جس کا مقصد لوگوں کو تفریح بہم پنہچانا نہیں بلکہ ماضی کے ایک اندوہناک سانحے کے حقائق پر سے پردہ اٹھانا ہے۔ ڈائریکٹر روی کمار اس کوشش میں خاصے کامیاب رہے ہیں۔

1984 میں جو کچھ بھوپال میں ہوا، اس کی بڑی وجہ انتظامی غفلت تھی۔ کچی بستی کے بیچوں بیچ کیڑے مار دوا بنانے والی امریکن کمپنی 'یونین کاربائیڈ ' ایک طویل عرصے سے وہاں کے ہزاروں مکینوں کو روزگار فراہم کر رہی تھی لیکن اس'نیک عمل' کے بیچ کمپنی مسلسل خسارے میں جا رہی تھی۔ اس خسارے کو پورا کرنے اور فیکٹری کو بند ہونے سے روکنے کے لیے کمپنی کی بھوپال انتظامیہ نے مینٹیننس کی طرف لاپرواہی برتنی شروع کردی۔

یونین کاربائیڈ کیڑے مار دوا کے لیے ایک انتہائی خطرناک کیمیکل 'ایم آئی سی' استعمال کرتی تھی، جس کی بنا پر مشینری کو مسلسل ایئرکنڈیشنننگ اور ہفتہ وار مینٹیننس کی ضرورت تھی۔ اضافی اخراجات سے بچنے کے لیے لوکل انتظامیہ نے ان تمام ضروری اقدامات کو پس پشت ڈال دیا۔ "بھوپال ۔ اے پریئر فار رین" کی کہانی وہیں سے شروع ہوتی ہے۔

پلاٹ: غریب رکشہ چلانے والے دلیپ (راجپال یادو) کو قسمت (یا بدقسمتی) یونین کاربائیڈ تک پنہچا دیتی ہے۔ دلیپ فیکٹری میں بطور مزدور کام شروع کرتا ہے اور مشین آپریٹر کی پوسٹ تک پہنچ جاتا ہے (اپنی محنت اور ایمانداری کی وجہ سے نہیں بلکہ انتظامیہ کی نااہلی کی بنا پر)۔ کمپنی مسلسل خسارے میں جا رہی تھی جس کی بنا پر انتظامیہ نے مشینری کی مرمت اور دیکھ بھال پر اخراجات ختم کردیے۔

پلانٹ کا سیفٹی افسر رائے (جوئے سین گپتا) بار بار اس غفلت کی جانب انتظامیہ کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن لاحاصل۔ ایک بدقسمت حادثے میں تیزاب سے جل کر کمپنی کا مشین آپریٹر مارا جاتا ہے اور پلانٹ مینیجر چودھری (ونیت کمار) مسلسل اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے دلیپ کو بنا کسی ٹریننگ کے مشین آپریٹر بنا دیتا ہے۔ اسی دوران کمپنی کا چیف ایگزیکٹو وارن اینڈرسن (مارٹن شین) فیکٹری معائنے کے لیے بھوپال آتا ہے مگر محض واجبی سی جانچ پڑتال اور چند سیاسی ملاقاتوں کے بعد واپس چلا جاتا ہے۔

اس تمام کشمکش کے بیچ ایک لوکل اخبار 'وائس آف بھوپال' کا ایڈیٹر متوانی (کال پین) مسلسل لوگوں میں اس پلانٹ سے پیدا ہونے والے مضر اثرات اور خطرات سے متعلق شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے لیکن کوئی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتا۔

دلیپ کو بھی دال میں کالا نظر آنے لگتا ہے لیکن اپنی گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے خاموش رہتا ہے، پھر بھی کچھ اہم معلومات متوانی تک پنہچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔

فلم کی کہانی تیز رفتار ہے۔ تمام سین آپس میں جڑے ہوئے ہیں، اور کہیں بھی کہانی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر نہیں آتی۔ روی کمار نے پوری کوشش کی ہے کہ کہانی کہیں رکنے نہ پائے۔ دیسی کرداروں میں سبھی اداکار فٹ نظر آتے ہیں البتہ غیر ملکی اداکاروں میں سوائے مارٹن شین کے باقی کردار تھوڑے کنفیوز اور جلد بازی کا شکار لگے۔

راجپال بطور مرکزی کردار تو اپنی جگہ قابل تعریف ہیں ہی لیکن اگر واقعی کوئی کردار داد طلب ہے تو وہ بدقسمت مشین آپریٹر کی بیوہ کا کردار ادا کرنے والی فگن ٹھکرار کا ہے جن کا فلم میں بمشکل ہی کوئی ڈائلاگ ہے۔ فگن نے ایک بدقسمت بیوہ کے جذبات کا اظہار اپنی سوگوار آنکھوں سے کیا ہے۔ وہ اپنی سوگوار آنکھوں سے ایک طرف لوگوں کو ملامت کرتی محسوس ہوتی ہیں تو دوسری طرف آنے والے خطرے سے متنبہ بھی کرتی ہیں۔

بہرحال، بھوپال۔اے پریئر فار رین ان فلموں میں سے ہے جنہیں اداکاروں کا ٹیلنٹ پرکھنے کے لیے نہیں بلکہ عوام میں شعور پیدا کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ یونین کاربائیڈ سے نکلنے والے زہر نے جو تباہی مچائی اس میں صرف دس ہزار اموات نہیں ہوئیں بلکہ اس کے اثرات آج بھی آنے والی نسلوں میں نظر آرہے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو سبھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ کسی بھی وجہ سے یہ فیکٹری بند ہو۔ لوگوں کا روزگار اس سے جڑا تھا، اسی فیکٹری سے ان کے گھروں کے چولہے جلتے تھے، اور یہی وجہ ہے کہ فیکٹری میں کام کرنے والے ورکرز تمام کوتاہیوں کو نظرانداز کرتے چلے گئے۔ دلیپ کے کردار کے ذریعہ روی کمار اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ تمام ذمہ دار اور 'عوامی خدمتگار' جنہوں نے اپنی ڈیوٹی پوری طرح انجام دینے کے بجائے جیب گرم کرنا زیادہ آسان سمجھا، اور امریکی کارپوریشن جس نے سستی لیبر اور انتظامات کی خاطر انڈیا کو فیکٹری لگانے کے لیے منتخب کیا۔ یہ تمام عناصر اس اندوہناک واقعہ کے ذمہ دار ہیں اور روی کمار ان سب کو بےنقاب کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچائے۔

انسانی غفلت کے نتیجے میں دس ہزار زندگیوں کا زیاں اور اس کے مجرموں کا بچ نکلنا ہمیں دکھاتا ہے کہ ایک عام انسان کی زندگی کس قدر حقیر ہے۔

اسٹارنگ: راجپال یادیو، مارٹن شین، جوائے سین گپتا، کال پین، تنشتا چٹرجی، فگن ٹھکرار۔

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 اپریل 2025
کارٹون : 21 اپریل 2025