اشرافیہ اور اصلاحات
ملک کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورتحال بہت نازک ہے۔ اصلاحات کا ایجنڈا بہت بڑا اور حوصلہ شکن ہے۔ تبدیلی کی فوری ضرورت کے علاوہ کسی سانحے کی منتظر قوم کو بے مقصد بھٹکتے دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔
آبادی کی بڑی اکثریت عدم تحفظ اور مستقبل کے بارے میں بےیقینی کی شکار ہے۔ جبکہ بہت زیادہ تقسیم اور اخلاقی طور پر تنزلی کا شکار ایک بے حس معاشرہ تقریباً ناقابلِ حل سیاسی اور سماجی بحرانوں پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ بے بسی اور مایوسی کو الفاظ میں بیان کرپانا بہت مشکل ہے۔
تو اگر کوئی لکھے، تو کس بارے میں لکھے؟
پشاور سانحے پر، محدود صلاحیتوں کی حامل ہماری قیادت پر جو مذہبی انتہا پسندوں پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتی ہے، اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں، زمینوں پر قبضے، کرپشن، عوامی فنڈز میں خردبرد، اپنے صوابدیدی اختیارات کا قوانین، اصول و ضوابط کے خلاف استعمال کرنے پر، یا امیر و غریب میں بڑھتے فرق پر؟ ان عناصر نے ریاستی اداروں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ متعدد افراد کو ایسا لگتا ہے کہ ملکی بقا پر بہت زیادہ سمجھوتہ کرلیا گیا ہے۔
یہ ریاست بہت تیزی سے غیرفعال ہوتی جارہی ہے تاہم اب بھی توقع ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت اشرافیہ کے مختلف گروپس کے درمیان ثالثی کرانے میں کامیاب رہے گی۔ یہ روایتی جاگیردار طبقے، کاروباری افراد، فوجی اور بیوروکریٹ اشرافیہ اور سیاستدانوں کی نئی نسل کے درمیان ایک ڈھیلے ڈھالے اور مخدوش اتحاد کے طور پر کام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 1970 سے 1990 کی دہائیوں کے دوران پبلک سیکٹر سرگرمیوں میں اضافے کے دوران حکومتی اسکیموں پر تعمیراتی کنٹریکٹرز نے بہت پیسہ بنایا اور ایسے متعدد کیسز موجود ہیں جن میں رشوت اور اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افراد ملوث رہے ہیں۔
کچھ افراد تو راتوں رات فرش سے عرش پر پہنچ گئے اور اس کے لیے وہ پبلک سیکٹر کے اداروں اور محکموں کے معاہدوں سے حاصل ہونے والے کمیشن کے شکرگزار ہیں۔ کچھ تو بظاہر اچانک ہی سامنے آئے اور ان کی دولت کی وضاحت یا تو غیرقانونی سرگرمیوں (منشیات، اسلحے اور ایمونیشن کی تجارت یا غیرملکی کرنسی کو بلیک مارکیٹ کرنا وغیرہ) سے کمائے جانے والی دولت سے ممکن ہے یا سول و فوجی بیوروکریسی کے اس گٹھ جوڑ سے، جس سے انہوں نے حکومتی کنٹریکٹس حاصل کر کے ہاﺅسنگ اسکیمیں ڈویلپ کرنے کے لیے زمینیں حاصل کیں۔
اسی طرح دیگر افراد نے اقتصادی سرگرمیوں اضافے سے تعمیراتی شعبے، تجارت، شہری زمینوں پر سٹے بازی، عام استعمال کی اشیاء کی اسمگلنگ میں پیدا ہونے والے مواقع سے دولت بنائی، جس کی وجوہات یہ ہیں:
1۔ افغان جنگ اور نائن الیون کے بعد باآسانی دستیاب امداد کے بعد ریاست کا کردار۔
2۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے کثیر زرِ مبادلہ کو قانونی ذرائع، ہنڈی مارکیٹ، یا منشیات کے دھندے کے ذریعے بھجوانا۔
اس طرح کے انتظامات میں ہر گروپ کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
فوجی اور سول بیوروکریسی کی مراعات پر اخراجات، حکمرانوں کا شاہانہ طرز زندگی اور اپنے حامیوں و دوستوں کو دیے جانے والے پلاٹس و "لائسنسز" کے "تحائف"، کرپشن، سیاستدانوں کی جانب سے مجرموں کو تحفظ، مسابقت سے محفوظ رکھے گئے تجارتی گروپس کی جانب سے اجارہ دارانہ منافع خوری اور ان کی جانب سے ٹیکس نیٹ کو توسیع دینے کی مخالفت، فنڈز کو ایکسپورٹ کی کم قیمت دکھا کر بیرون ملک منتقل کرنا اور مہنگے داموں امپورٹ کرنا۔ یہ وہ نتائج ہیں جنہیں اس وقت بھی برداشت کیا جاتا ہے جب معلوم ہے کہ یہ مراعات معاشی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔
ریاست ان مفادات اور پاکستانی سیاست، بیوروکریٹک اور معیشت کی ساخت کے بارے میں ان کے نظریات کی یرغمال بن چکی ہے۔
معاشرے نے بھی ایسے نظام کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اقدار کو اپنا لیا ہے، جو دوسرے ممالک میں رائج پروفیشنل اور مارکیٹ تعلقات کے بجائے ذاتی مفادات، اقربا پروری اور سرپرستی، قوانین کی خلاف ورزی، میرٹ کے مقابلے میں کنٹریکٹس پر لوگوں کو نوازنے پر مبنی ہے۔
اس کے نتیجے میں اختیارات کا غلط استعمال اور ادارہ جاتی کرپشن معمول بن گئی، جبکہ یہ خامیاں انتظامی، سماجی اور سیاسی کلچر کے لازمی جزو کی شکل اختیار کرگئیں۔
رشوت سے حاصل ہونے والی آمدنی اب بیوروکریسی اور عوامی نمائندگان کی تنخواہوں کا متوقع حصہ بن چکی ہے جس سے سماجی اقدار اور پیشہ وارانہ اخلاقیات پر مضر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
شہریوں کی شکایات کے باوجود، سیاستدانوں کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال، اور بیوروکریٹس کی جانب سے غیرمنصفانہ فائدہ اٹھانے اور سسٹم کو چکمہ دینے کے لیے دیگر افراد پر عنایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیوں ناپسندیدہ لوگوں کو ووٹ دیا جاتا ہے، بجائے اس کے جو اصلاحات کا وعدہ کریں۔
اس بات کی بہت کم توقع ہے کہ نظام کبھی مہذب معاشروں کے انداز میں فعال ہوسکے گا یا طبقہ اشرافیہ نظام کو بہتر بنانے کے لیے کام کرسکے گا، کیونکہ یہ طبقہ اتنا مضبوط ہے کہ انتخابی نظام اس پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ اس لیے شفاف اور منصفانہ نظام کے مطالبات کے بجائے یہ طبقہ انتخابی نظام سے حاصل ہونے والے مواقعوں کا بڑا حصہ لے اڑتا ہے۔ اگر آپ انہیں شکست نہیں دے سکتے تو کم از کم ان میں شامل ہونے کی کوشش کرکے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ کچھ فوائد آپ کی گود میں بھی آگریں۔ اور یہ امر باعث حیرت نہیں کہ وہی 'خاندان' اسمبلیوں میں بھی موجود ہیں۔
لیکن معاشرے کی ثقافتی، سماجی اور سیاسی اقدار، معاشی وسائل کو پھیلاﺅ دینے کی گنجائش اور حکمرانی کرنے والے ادارے ان مسائل کو حل کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ فوجی اشرافیہ کو اب مصالحت کے اپنے تاریخی کردار کو نبھانے میں مشکلات کا سامنا ہے خاص طور پر اس وقت جب خطے کے معاملات کا سوال انتہائی اہمیت حاصل کرچکا ہے۔ غیرمستحکم سیاسی اسٹرکچر بھی لسانی اور سماجی تنازعات کی ابھرتی لہر سے مزید متاثر ہوا ہے۔
غریب کی مشکلات اور امیر کے شاہانہ انداز میں بڑھتا فرق معاشرے میں تقسیم کو بڑھا رہی ہے جس سے سماجی انتشار پیدا ہورہا ہے۔
ماضی کے جن سافٹ آپشنز (رعایتی امداد، بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر، ناگہانی ایونٹس جیسے سرد جنگ، افغان جنگ نائن الیون وغیرہ سے حاصل ہونے والے فوائد) کی وجہ سے اشرافیہ نے لڑکھڑاتی ریاست اور متعلقہ سیاسی و معاشی تعلقات کی بہتری کو التوا میں ڈالے رکھا، وہ اب مستقبل میں اتنی ہی آسانی اور کثرت سے دستیاب نہیں ہوں گے۔
کم از کم نظریاتی طور پر تو یہ وقت اپنی ذات کے لیے سرگرم اشرافیہ کو ہٹانے کا ہے، کیونکہ یہ طبقہ ایسے منصفانہ اور زیادہ بہتر سماجی نظام کا خواہشمند نہیں جہاں نچلے طبقے کے لوگ بھی نظام میں حصہ لے سکیں۔ پٹری سے ہٹ جانے والے معاشرے اور معیشت کو ٹریک پر واپس لانے کے لیے ضروری ہے کہ بالادست اشرافیہ تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی تکلیف کا بڑا حصہ خود برداشت کرے۔
لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 23 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں