سندھ میں تعلیم کا رابن ہڈ
جب کچے کا علاقے کے کسی گھر یا سیلابی پانی کی سرحدوں پر واقع گھوٹکی کا کوئی بچہ اسکول جانے سے انکار کردے یا اس کے لیے بیماری کا جھوٹا ڈرامہ کرے تو اس بچے یا بچی کے والدین اسے بس یہی مشورہ دیتے ہیں "اسکول کی جانب جاؤ میرے بچے یا پھر ڈاکو جام خان سندرانی آئے گا اور خود تمہیں وہاں لے جائے گا"۔
اگر بچوں کو اسکول میں کچھ مسائل کا سامنا ہو تو جام خان ان کا حل یقینی بناتا ہے، اگر ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہو تو جام خان بچوں کے گھروں کے باہر اپنی موٹرسائیکل پر ان کا منتظر ہوتا ہے تاکہ انہیں اسکول پہنچاسکے اور وہ ذاتی طور پر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ بچہ کسی ایک کلاس سے بھی محروم نہ ہوسکے۔
سیلاب کے زمانے میں کمر تک گہرے پانی میں وہ بچوں کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر اسکول لے جاتا ہے اور وہ اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ اساتذہ بھی اپنے اسکولوں میں ہفتے کے چھ روز حاضر ہو، یہ ذمہ داری اٹھانے والا یہ شخص اتنا متاثر کن ہے کہ آپ اس سے ملے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔
مگر جام خان فون کالز نہیں اٹھاتا اور جب اسے ایس ایم ایس بھیجا گیا تو جوابی پیغام میں اس نے ملاقات کے لیے ہمیں کچے کے علاقے میں واقع جھیل کے پاس بلایا جہاں وہ اکثر نظر آتا ہے اور اس پیغام میں اس کا کہنا تھا " میری صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس بات پر برا مت منائے"۔
اس پیغام میں تکبر کی بجائے اس ڈاکو کی انکساری کا احساس ہوتا تھا اور اسی لیے ایک جیپ کا انتظام کیا گیا تاکہ کچے کے علاقے کے سرسبز کھیتوں، گڑھوں، دلدلی کینالز سے گزر کر جھیل کے ایک سے دوسرے کنارے پر کشتی کے ذریعے گاڑی کو لے جایا گیا اور اس کے بعد بھی مزید کچھ سفر کرنا پڑا اور منزل پر پہنچ کر جیب ایک ایسی بھینس کی طرح لگنے لگی تھی جو ایک دلدلی جوہڑ سے نکل کر آئی ہو۔
وہاں ایک عارضی اسکول کے برابر میں واقع مسجد کے باہر جام خان نے ہمارا استقبال کرتے ہوئے کہا " یہاں آمد پر آپ کا شکریہ"۔
اس نے اپنی چپلیں اتار لیں اور جواب میں ہمیں بھی ایسا ہی کرنا پڑا اور پھر جام نے کہا " کیا آپ بچوں سے ملنا پسند کریں گے؟ آج صبح موسم کچھ سرد تھا اس لیے میں نے ٹیچر سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنی کلاسز مسجد کے اندر منتقل کردیں"۔
یہ مخلوط سندھی میڈیم اسکول ہے جہاں اردو اور انگریزی بھی نصاب کا حصہ ہے۔ چھوٹی بچیاں اور بچوں کو کلاس کے سامنے کھڑے ہوکر بلیک بورڈ پر لکھا سبق پڑھنے کا کہا گیا، ان میں شامل لڑکیاں کھڑے ہوتے ہوئے کوشش کررہی تھیں کہ اپنی چادروں میں الجھ کر گر نہ جائیں جو حجم کے لحاظ سے ان سے بھی بڑی تھیں۔
جام خان انہیں فخریہ انداز سے دیکھ تے ہوئے کہہ رہا تھا " میں نے کچھ بھی نہیں کیا، درحقیقت ہم بڑوں نے کچھ بھی نہیں کیا یہاں تک کہ جب کوئی مجھے فون کرتا ہے تو میں جواب نہیں دیتا کیونکہ میں لکھ، پڑھ نہیں سکتا اور اپنا نمبر تک محفوظ کرنا مجھے نہیں آتا جبکہ مجھے یہ بھی نہیں پتا چلتا کہ کون فون کررہا ہے، مگر یہ بچے ہمارے جیسے نہیں ہوں گے"۔
کچے کا علاقہ ایسا نہیں جہاں کوئی مستقل رہائش رکھنا پسند کریں کیونکہ حکومت وہاں کی آبادیوں کو تسلیم ہی نہیں کرتی، سیاستدانوں کو وہاں کے رہائشیوں کے ووٹوں کی ضرورت تو ہوتی ہے مگر وہ انہیں کسی قسم کی سہولیات فراہم نہیں کرتے۔ الف اعلان کے مطابق ضلع گھوٹکی میں 1998 سرکاری اسکول ہیں، جن میں سے 1875 پرائمری، 73 مڈل، دس بنیادی تعلیم، 33 سیکنڈری اور سات ہائر سیکنڈری اسکول ہیں۔
مگر کچے کے اسکول حکومت کے پاس رجسٹرڈ تو ہیں مگر وہ چلائے نہیں جارہے ، یہ وہ علاقہ ہے جہاں 14 سال پہلے قانون کی عملداری کا نام و نشان تک نہیں تھا اور ڈاکوئوں کی حکمرانی تھی مگر چور پولیس کھیلنے والے دونوں فریقین بتدریج ایک معاہدے تک پہنچ گئے اور شرح خواندگی کا نعرہ بلند ہوا۔
جام خان کے مطابق " وہ بہت مشکل وقت تھا، یہ پورا علاقہ گھنا جنگل تھا اور ہمارا اکثر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے تصادم ہوتا تھا، پھر یہاں ایس پی غلام شبیر کو تعینات کیا جنھوں نے ڈپٹی کمشنر ہدایت اللہ راجپر کے ساتھ مل کر کچھ ڈاکوﺅں اور گاﺅں کے بزرگوں پر مشتمل ایک گروپ قائم کیا تاکہ لوگوں میں جرائم کے خاتمے کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جاسکے، ہم نے جنگل کو کاٹ کر یہاں کی زمین کو زراعت کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا، مگر جانوروں سے انسان بننے کے لیے ہمیں تعلیم کی ضرورت تھی"۔
جام کا مزید کہنا تھا " ہوسکتا ہے کہ میرے کچھ افراد مجھ سے اتفاق نہ کریں مگر میں قرآن مجید کی قسم کھارکھی ہے کہ ہمارے بچے اسکول جاکر رہیں گے"۔
اس علاقے میں رضاکارانہ بنیادوں پر کچا ایجوکیشن پروگرام چلانے والی کمپنی اینگرو کے مشیر ڈاکٹر صدورو ناز کھیڑو نے بتایا " ہم اس علاقے کے بارہ اسکولوں کا خیال رکھ رہے ہیں جس میں نور لکھن کا ایک اسکول بھی شامل ہے جس میں ایک کمپیوٹر لیب بھی ہے، مگر وہ سب پرائمری یا مڈل اسکول ہیں جنھیں کم از کم میٹرک تک کی سطح پر ترقی دیئے جانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر لڑکوں کے لیے جو اعلیٰ تعلیم کے لیے دیگر علاقوں میں جاسکیں کیونکہ لڑکیوں کے لیے یہ کافی مشکل ہے"۔
وہ مزید بتاتے ہیں " اینگرو اساتذہ کی تنخواہیں، اسٹیشنری میٹریل ، اسپورٹس ایونٹس وغیرہ کا خرچہ اٹھا رہی ہے، ہم نے اس مقصد کے لیے سالانہ بجٹ مختص کررکھا ہے مگر دیگر ڈونرز کی امداد کو ہمیشہ خوش آمدید کہا جاتا ہے"۔
انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں ایک اسکول سے چھ سولر پینلز غائب ہوگئے اور اس موقع پر جام خان ایک بار پھر آگے آئے اور اپنے لوگوں کو جلد از جلد یہ پینلز واپس کرنے کے لیے قائل کیا۔
ڈاکٹر کھیڑو مسکراتے ہوئے بتاتے ہیں " آپ انہیں ایک ڈاکو کے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں، اور پولیس بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی تلاش میں سرگرم ہو مگر میں انہیں ایک ایسے انسان کے طور پر دیکھتا ہوں جو یہاں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے سرگرم ہے"۔
تبصرے (4) بند ہیں