جیت کا مزہ کیسے کرکرا کیا جائے؟
پاکستانی ہاکی ٹیم کو میدان سے صرف ایک باوقار مسکراہٹ کے ساتھ چلے جانا چاہیے تھا، ان کے مخالفین کو جواب دینے کے لیے اسکوربورڈ ہی کافی تھا۔ لیکن اس کے بجائے انہوں نے دنیا کو یہ یاد دلا دیا کہ اسپورٹسمین اسپرٹ صرف ہارنے والی ٹیم کے لیے ہی ضروری نہیں ہے۔
اس پورے آرٹیکل کے دوران میرا موقف بالکل نپا تلا ہوگا، تاکہ نہ ہی میں کھلاڑیوں پر ضرورت سے زیادہ غصے کا اظہار کروں، اور نہ ہی ان لوگوں کو خوش کروں جو اس کو بالکل نان ایشو قرار دے کر ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔
چلیں اس حقیقت سے شروع کرتے ہیں، کہ ہندوستانی تماشائیوں میں سے کچھ لوگوں نے کھلاڑیوں پر جملے کس کر انہیں اشتعال دلایا، تو اس کے جواب میں نوجوان کھلاڑیوں نے اپنی شرٹیں اتار کر لہرائیں، اور انہیں زبردست جواب دیا۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ لفظ 'زبردست جواب' ان کے اس عمل کو پروفیشنل یا شائستہ نہیں قرار دیتا۔
فوٹو گیلری: جب شرٹس اتاری گئیں
میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس حد سے زیادہ مغرور رویے کو دیکھ کر میرے ہاتھ سے چائے کا کپ گر گیا اور میں نے ملازمہ سے کہا کہ ٹی وی بند کردیں، تاکہ تب تک کھلاڑی اپنی شرٹس واپس پہن لیں۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں، یہ رویہ سیاسی طور پر بالکل بھی غلط نہیں تھا۔ نہ تو اس نے سیاہ فام لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی، نہ ہی اس نے 11 ستمبر کے واقعات کا انکار کیا، نہ ہی اس سے کسی کے سر میں شدید چوٹیں آئیں، اور نہ ہی اس نے ایسے خوفناک کلچر کو جنم دیا، جو کہ آخر کار ایک بھیانک اور مایوس کن مستقبل تک لے جاتا ہے۔
کسی بھی چیز سے پہنچنے والی تکلیف اور غصے کے اظہار کو ہمیشہ کچھ حدود میں رکھنا چاہیے۔ کوچ شہناز شیخ نے اپنی ٹیم کے رویے پر باضابطہ معافی مانگی، اور انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن اس واقعے کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ مزید کسی بھی ایکشن کی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن ہاکی انڈیا کے مشتعل سربراہ نریندرا بترا کو ٹھنڈا کرنے کے لیے معافی کافی ثابت نہیں ہوئی۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے اپنے کھلاڑیوں کو سزا نہیں دی تو ہندوستان پاکستان کے ساتھ اپنے کھیلوں کے مقابلے ختم کر کے ایف آئی ایچ کے اگلے تمام ایونٹس کا بائیکاٹ کردے گا۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ اس غصے میں سے آدھا غصہ اس غلط رویے پر ہے، اور آدھا غصہ میچ ہارنے کی وجہ سے ہے۔
آخر کار ایف آئی ایچ نے اپنی جان دو پاکستانی کھلاڑیوں امجد حسین اور توثیق احمد پر ایک ایک میچ کی پابندی لگا کر چھڑائی۔
لیکن ایک بات سوچنے کی ہے۔ بھلے ہی ہم یہ کہیں کہ ہندوستانی تماشائیوں نے رائی کا پہاڑ بنایا ہے، لیکن پاکستانی ہاکی ٹیم نے انہیں غصے کے اظہار کا بالکل درست جواز فراہم کیا۔
لڑکو! آپ کے کہنے کے مطابق ہندوستانی تماشائیوں نے آپ لوگوں پر جملے کسے، اگر واقعی ایسا تھا تو بھی آپ لوگوں کو صرف فاتح کی طرح ایک باوقار مسکراہٹ کے ساتھ ان جملوں کو نظرانداز کردینا چاہیے تھا۔ اور اگر آپ اشارے ہی کرنا چاہتے تھے، تو آپ صرف اسکوربورڈ کی طرف اشارہ کردیتے، جہاں آپ کی جیت کا اعلان خود بخود ہی لکھا ہوا تھا۔
لیکن اس کے بجائے آپ نے ہندوستانی میڈیا کو شہہ سرخیاں فراہم کردی ہیں، جن کے مطابق پاکستانی کھلاڑیوں نے جیتنے کے بعد ہندوستانی تماشائیوں کی جانب فحش اشارے کیے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم آج آپ کی فتح کا جشن منا رہے ہوتے، لیکن اس کے بجائے ہم چاروں طرف سے مذمت کی زد میں ہیں، کیونکہ آپ نے یہ سوچا کہ فتح کا جشن منانے کے لیے اخلاقی ضوابط کی دھجیاں اڑا دینا جائز ہے۔
اگلی دفعہ اگر آپ صرف فتح کا نشان بھی بنا دیں گے، تو بھی کافی ہوگا۔
تبصرے (1) بند ہیں