چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے
رات گئے سردار ہرنام سنگھ کلب سے لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھا تو ناگہانی صورتحال اس کی منتظر تھی۔وہ گھبرا کر گاڑی سے نکلا اور ٹیلی فون بوتھ سے پولیس کا نمبر ملا کر فریاد کی ’’جلدی آؤ موتیاں آلیو! کوئی چور کا پتر میری کار سے اسٹیئرنگ، گیئر، بریک وغیرہ نکال کر لے گیا ہے‘‘۔ پریشان حال سردار پولیس کے انتظار میں دوبارہ گاڑی میں جا کر بیٹھا تو ایک دفعہ پھر اچھل کر نکلا اور پولیس کا نمبر ملا کر چیخا ’’واہ گرو کی جے! آنے کی ضرورت نہیں بھائیو، میں غلطی سے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔‘‘ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ ہرنام سنگھ کی کار کی پچھلی سیٹ اور ہماری گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔
اس کالم کی غرض و غایت یہ ہے کہ خبردار! کوئی ہمیں بے کار نہ سمجھے۔ ہم بفضلِ خدا 1984ء ماڈل کی ایک عدد جاپانی کار رکھتے ہیں۔ ویسے جاپانی ہونے کی تو اس پر تہمت ہی باقی رہ گئی ہے، مکینک حضرات نے جگاڑ لگا لگا کر اس کے تنِ ناتواں میں چینی، تائیوانی، کابلی، کورین اور پاکستانی پرزے اس طرح پھنسائے ہیں کہ وہ وطن عزیز کی طرح چوں چوں کا مربہ ہو گئی ہے۔ اس کے نہاں خانوں میں دنیا جہان کے پرزے اس طرح باہم مل کر اپنی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، جیسے جہانِ رنگ و بو کے در در سے ہمارے کشکول میں پڑنے والی امداد کی رقوم ہمارا ملک رواں رکھے ہوئے ہیں، یا جیسے دنیا بھر کے دہشت گرد وطن عزیز میں جمع ہوکر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
حاسدین کے خیال میں اس (مراد گاڑی ہے، ملک نہیں) کا ظاہر و باطن ایک ہے، یعنی یہ باہر سے جتنی کھٹارا ہے اندر سے بھی اتنی ہی ناکارہ ہے۔ تاہم یہ پطرس بخاری کی سائیکل بھی نہیں کہ چلے تو اس کی آواز سن کر مائیں اپنے بچوں کو سینے سے لگالیں۔ البتہ اس کے شور سے کئی پینڈو بچے گھبرا کر اپنے گھروں میں ضرور گھس جاتے ہیں۔
ہماری یہ جاپانی گڑیا رک جائے تو فیض کی طرح کوہِ گراں ہے اور اگر چل پڑے تو رکتی نہیں، جب تک کہ جاں سے گزر نہ جائے، یعنی خراب نہ ہو جائے۔ اس کو شوقیہ بیمار عورتوں کی طرح ہسپتال بہت مرغوب ہیں۔ وہ جو فرمایا گیا ہے کہ امیر لوگ دل کے ڈاکٹروں کے پاس اس لیے زیادہ جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو باور کرایا جا سکے کہ ان کے سینے میں بھی دل ہے، اسی طرح ہماری کار بھی ہفتے میں دو دن ضرور ہسپتال یعنی ورکشاپ میں جانا پسند کرتی ہے تاکہ دیکھنے والوں کو یقین ہو جائے کہ اس کے سینے میں بھی انجن ہے۔ کبھی کبھی تو یہ ورکشاپ میں ایسا طویل دھرنا دیتی ہے، جیسے عمران خان ڈی چوک میں دیے بیٹھے ہیں۔
اس گاڑی کے پیٹرول اور سی این جی سسٹم میں پاکستان اور بھارت کی طرح شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ پیٹرول کا نظام ٹھیک کرایا جائے تو سی این جی کٹ خراب ہو جاتی ہے اور اسے درست کرائیں تو کاربوریٹر جواب دے جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ کی طرح سیسہ پلائی دیوار بن کر دونوں اکٹھے خراب ہو جاتے ہیں۔ یہ وزیروں اور افسروں کی طرح تیل اور گیس کو مال مفت سمجھ کر خوب پھونکتی ہے اور اس بارے میں مستریوں کی متفقہ رائے ہے کہ ’’یہ مرضِ عشق ہے، جاتا نہیں‘‘۔ تاہم ہماری موٹر کار ایک صورت میں پٹرول یا گیس کو سو کلومیٹر تک سونگھتی بھی نہیں، بشرطیکہ اسے دوسری گاڑی کے پیچھے باندھ کر لے جایا جائے۔
ہم اسے اس لیے آہستہ نہیں چلاتے کہ اس کے بریک نہیں، اس کے لیے تو کھمبے وغیرہ سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ دراصل ہماری گاڑی خود تیز رفتاری کی اتنی مخالف ہے جتنے طالبان 73ء کے آئین کے۔ ہم اسے دھلوانے وغیرہ سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ڈر ہے کہ کہیں اس کی چمک دمک سے اسے نظر نہ لگ جائے کہ شریکوں اور دشمنوں کی کمی نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے انجن کے ایسے خفیہ خانوں میں پانی گھس جاتا ہے کہ اسے دوبارہ اسٹارٹ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
ہم اسے رات کو باہر لانے سے مکمل پرہیز کرتے ہیں، اس لیے نہیں کہ اس کی ایک لائٹ مستقل حالت رکوع میں رہتی ہے اور دوسری براہِ راست آسمان کو روشن کرتی ہے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ ہمیں رات کی ڈرائیونگ سرے سے پسند ہی نہیں۔ اوپر سے لوگوں میں ڈرائیونگ سینس بھی نہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ کوئی گاڑی قریب سے گزرتے ہوئے اسے خراش نہ ڈال دے کہ پہلے ہی ’’تنِ ہمہ داغدار شد‘‘ والی کیفیت ہے۔ ایک دفعہ کا ذکرہے کہ کوئی پوڈری قسم کا نامعلوم چور اسے چرانے کے لیے آ گیا۔ اس نے گاڑی کا دروازہ کھول بھی لیا تھا۔ پھر خدا جانے شرما کر، گھبرا کر، یا ترس کھا کر اسے وہیں چھوڑ گیا۔ البتہ کم بخت اپنے پیشے کے احترام میں کیسٹ پلیئر اتار کر لے گیا جس پر ہم عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے درد بھرے گانے سنا کرتے تھے جنہیں سن کر گاڑی اور ہم اپنے دکھ درد بھول جایا کرتے تھے۔
اپنی کار کی بے شمار ’’خوبیوں‘‘ کے باوجود ہم اس کے احسان کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں کہ بصد خواری ہی سہی مگر وہ ہر روز گاؤں سے شہر بچوں کو سکول اور ہمیں اپنے مزدوری کے ٹھیے پر نہ صرف پہنچا دیتی ہے بلکہ واپس بھی لے آتی ہے۔ مہا، نوفل، اور داؤد کئی دفعہ اسے تبدیل کرنے کا پر زور مطالبہ کر چکے ہیں۔ ہم ہر بار وعدہ بھی کرتے ہیں مگر اقتصادی وجوہ کی بنا پر یہ وعدہ عمران خان کی ’’تبدیلی‘‘ کے انجام سے ہی دوچار ہوتا آیا ہے۔ ایسے میں ہم بچوں کو کسی گھاگ سیاستدان کی طرح تسلی دیتے ہیں کہ یہ جاپانی چیز ہے بچو! اب اس جیسی مضبوط اور آرام دہ گاڑیاں کہاں ملتی ہیں؟
ویسے یہ بھی ہم سفید پوشوں کا عجیب وطیرہ ہے کہ اگر نئی سائیکل خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو اپنی پطرسی سائیکل کو تھپتھپا کر کہتے ہیں ’’یہ انگریز کے دور کا حلالی لوہا ہے جناب! آج کے دو نمبری دور میں ایسی سائیکل کون بناتا ہے؟‘‘۔ مگر وسائل ہاتھ آتے ہی نئی گاڑی یا سائیکل خرید لیتے ہیں اور اپنے موقف پر یو ٹرن لے کر کہتے ہیں ’’نئی چیز نئی ہوتی ہے بھائی صاحب! پرانی گاڑیوں کا ان سے کیا مقابلہ؟‘‘۔ اپنے ملک کے بارے میں بھی ہمارا رویہ کچھ ایسا ہی ہے۔ جب تک یورپ یا امریکہ کا ویزہ نہیں ملتا ’’ہم کو وطن کی لُو بھی ہے پیاری، غیروں کی بادِ صبا سے‘‘ گنگناتے ہیں، لیکن جونہی باہر جا کر آباد ہونے کے آثار نظر آتے ہیں، غیروں کی بادِ صبا کے گن گانے لگتے ہیں۔ پہلی ہی چھٹی پر آ کر دوستوں کو بتاتے ہیں ’’میں نے تو فیملی کی امیگریشن کے لیے بھی اپلائی کر دیا ہے یار! یہ پاکستان بھی کوئی ملک ہے رہنے کے لائق؟‘‘
بہرحال ہم ان لوگوں میں سے نہیں۔ ہمیں اپنی گاڑی سے بھی قلبی لگاؤ ہے اور ملک سے بھی۔ لیکن کیا کیا جائے کہ دونوں اپنے ’’چال چلن‘‘ کی بدولت دنیا کو انٹر ٹین کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ عشروں سے ملک کی زمامِ اختیار جن خطا کار لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، وہ ہر نام سنگھ کی طرح پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر اسے چلانے کی سعی کر رہے ہیں۔ جب تک وہ ’’اٹھ کے‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں بیٹھتے، ملک کی گاڑی ایسے ہی چلے گی جیسے ہم اپنی جاپانی کار چلا رہے ہیں۔ اس طرح تو کاکے، دھماکے اورفاقے وغیرہ شانہ بشانہ ہی چلتے رہیں گے۔ فی الحال تو دونوں پر وہ پرانا شعر صادق آتا ہے کہ
نہ انجن کی خوبی نہ کمالِ ڈرائیور
چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے
تبصرے (1) بند ہیں