• KHI: Fajr 4:39am Sunrise 6:00am
  • LHR: Fajr 3:54am Sunrise 5:21am
  • ISB: Fajr 3:53am Sunrise 5:23am
  • KHI: Fajr 4:39am Sunrise 6:00am
  • LHR: Fajr 3:54am Sunrise 5:21am
  • ISB: Fajr 3:53am Sunrise 5:23am

چارلس مینسن کون ہے؟ (دوسرا اور آخری حصہ)

شائع December 8, 2014
چارلس مینسن کورٹ روم میں آتے ہوئے۔ بائیں جانب سوسن ایٹکنز اسے دیکھ رہی ہے (1970) — اے پی
چارلس مینسن کورٹ روم میں آتے ہوئے۔ بائیں جانب سوسن ایٹکنز اسے دیکھ رہی ہے (1970) — اے پی

یہ اس بلاگ کا دوسرا اور آخری حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لیے کلک کریں...


ان تمام کارروائیوں کے باوجود مینسن فیملی کو کسی بات کی پشیمانی نہ تھی کیونکہ ان کے نزدیک یہ سب کچھ 'جائز' تھا۔ اپنی دانست میں انہوں نے اشرافیہ کو ایک 'سبق' سکھایا تھا۔ اپنے مذموم اعمال جائز ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس عجیب و غریب منطقیں تھیں۔ سوسائٹی خصوصاً امیر طبقے کے خلاف نفرت کا زہر چارلس مینسن سے ان کم عمر لڑکے لڑکیوں کے ذہنوں میں منتقل ہوگیا تھا۔ خود چارلس اپنے فلسفے پر یقین رکھتا تھا یا نہیں لیکن اس کے پیروکار ایک ایک حرف پر ایمان رکھتے تھے۔

دوسری جانب کسی کو اس بات کا شبہ تک نہیں تھا کہ بظاہر پرامن، اپنے حال میں مگن رہنے والا یہ ہپی گروپ کسی گھناؤنے جرم میں ملوث ہوسکتا ہے۔ اور شاید تاقیامت کوئی نہ جان پاتا اگر ایک معمولی سے جرم کی پاداش میں مینسن فیملی کی ایک رکن اور ان تمام جرائم میں پیش پیش سوسن ایٹکنز نے اپنی ساتھی قیدیوں کے سامنے اقرار جرم نہ کیا ہوتا۔ وومن ڈیٹینشن ہاؤس لاس اینجلس میں قید ورجینیا گراہم اور رونی ہوورڈ نے جب سوسن کی زبان سے ان جرائم (اور اس پہلے کیے گئے جرائم) کا اعتراف 'انتہائی تفصیل اور فخر' کے ساتھ سنا تو وہ دنگ رہ گئیں۔

سوسن نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے ایک کے بعد ایک سیلو ڈرائیو کے رہائشیوں کا قتل کیا۔ ان کی سب سے آخری شکار شیرون ٹیٹ تھی جو اپنے ہونے والے بچے کی زندگی کے لیے بھیک مانگ رہی تھی مگر مینسن فیملی کو اس پر ترس نہ آیا۔ سوسن کے مطابق ان کی لسٹ میں اور بھی مشہور شخصیات ہیں اور جیل سے نکلنے کے بعد ان کا ارادہ مزید قتل کرنے کا ہے، اور وہ یہ سب کر کے پوری دنیا کو حیران کردینا چاہتے ہیں۔

یہ سب سن کر ورجینیا اور رونی کے لیے متعلقہ حکام کو یہ معلومات پہنچانا ضروری ہوگیا۔ بدقت تمام ان کا رابطہ لاس اینجلس پولیس ڈپارٹمنٹ سے ممکن ہوپایا لیکن یہ اس سلسلے کی محض ایک کڑی تھی۔

شیرون ٹیٹ اور لابیانکا گھرانے کا قتل اگست 1969 کے پہلے عشرے میں ہوا تھا۔ اس واقعہ کو تین ماہ گزر گئے لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔ پھر اچانک تین ماہ بعد نومبر کے دوسرے عشرے سے انکشافات اور اعترافات کا سلسلہ سا چل نکلا۔ وہ تمام افراد جو کسی نہ کسی اعتبار سے مینسن فیملی سے وابستہ رہے تھے، پولیس کو بیانات دینے لگے۔ یہ تمام بیانات صرف ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے تھے اور وہ شخص تھا چارلس مینسن۔

ایل اے پی ڈی کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا کہ صورتحال اتنی سادہ بھی نہیں جتنی نظر آرہی ہے۔ نہ اسپاہن رینچ (لاس اینجلس میں مینسن فیملی کا ٹھکانا، ایک پرانا مووی سیٹ اپ) کے رہائشی امن پسند ہپی تھے اور نہ ہی ان کے ہاتھوں قتل کی یہ پہلی واردات تھی۔ جیسے جیسے گواہ سامنے آتے گئے مزید ہلاکتوں کی لرزہ خیز تفصیلات بھی سامنے آتی گئیں۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ من موجی قسم کے ہپی نہیں بلکہ شاطر جنونیوں کا گروہ ہے۔

یکم دسمبر 1969 کو چارلس مینسن سمیت مینسن فیملی کے کئی ممبران کو گرفتار کرلیا گیا۔ چھ ماہ بعد عدالتی کارروائی شروع ہوئی اور دنیا کو چارلس مینسن اور اس کی 'فیملی' کا اصل روپ دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کے نزدیک یہ سب کچھ محض ایک کھیل تھا۔ وہ کسی طور خوفزدہ یا پشیمان نظر نہیں آتے تھے۔ مینسن فیملی کے بقیہ ممبران کورٹ کے اندر اور باہر موجود ہوتے۔ ان سب کی کوشش تھی کسی طرح مینسن کو بچا لیا جائے۔ اس کے لیے گواہوں کو ڈرایا دھمکایا حتیٰ کہ جان سے مارنے کی بھی کوشش کی گئی۔

وکیل استغاثہ کے مطابق چارلس کو لڑکیوں پر مکمل کنٹرول تھا۔ واجبی تعلیم ہونے کے باوجود حاضر دماغ تھا۔ وہ سوالات کا جواب دینے سے پہلے ان کے تمام خفیہ پہلوؤں پر غور کرتا۔ الزام کی سنگینی کے باوجود ہنسی ٹھٹھول کرتا۔ اس بظاہر امن پسند ہپی کے پیچھے ایک ایسا انتہائی سفاک اور طاقت کا بھوکا قاتل چھپا تھا جسے وحشیانہ موت دیکھنے کا جنون تھا۔

یہ مقدمہ کوئی نو ماہ تک چلتا رہا۔ اس دوران مینسن کی وسیع فیملی کی سرگرمیاں دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ بارہ رکنی جیوری کو انتہائی حفاظت میں رکھا جائے۔ چارلس نے اپنے اور دیگر قیدی ساتھیوں کے درمیان رابطے کا ایک نیٹ ورک بنا رکھا تھا۔ مینسن فیملی کے آزاد ممبر چارلس کے پیغامات دوسرے قیدی ساتھیوں تک پنہچاتے۔ یہی وجہ ہے کہ سوسن ایٹکنز اپنے پہلے بیان سے منحرف ہوگئی۔ اس کی پوری کوشش تھی کہ الزام اپنے سر لے لے اور چارلس مینسن بچ جائے۔ صرف سوسن ہی نہیں بلکہ باقی ساتھیوں کا بھی یہی حال تھا۔ چارلس جانتا تھا کہ اس کا جرم کتنا سنگین ہے اسی لیے وہ مسلسل ان لڑکے لڑکیوں کو ڈائریکٹ کر رہا تھا تاکہ انہیں پھنسا کر اپنی گردن بچا سکے۔

مقدمے کے دوران ایک دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئی جب پانچ اکتوبر کے دن جج اور چارلس مینسن کے درمیان ایک بحث شروع ہوگئی۔ بظاہر ٹھنڈے مزاج کے حامل چارلس مینسن نے اچانک جج پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ اس دھینگا مشتی کے دوران چارلس کی ساتھی لڑکیوں نے اپنی سیٹوں سے اٹھ کر لاطینی زبان میں کچھ پڑھنا شروع کر دیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب جیوری کو چارلس اور مینسن فیملی کا اصل روپ دیکھنے کو ملا۔

مقدمے کے دوران بھی ہلاکتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ مینسن فیملی کی ایک وعدہ معاف گواہ کو چارلس کے وفاداروں نے مارنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ ایک وکیل دفاع رونالڈ ہیوز بھی مقدمے کے دوران اچانک غائب ہوگیا۔ مقدمہ ختم ہونے کے کچھ عرصے بعد اس کی گلی سڑی لاش دو چٹانوں کے بیچ سے برآمد ہوئی۔ ابتدائی قیاس یہی تھا کہ اس قتل میں بھی مینسن فیملی کا ہاتھ ہے جس نے رونالڈ ہیوز کو چارلس کا دفاع نہ کرنے کی سزا دی ہے۔ بعد میں اس کی تصدیق بھی ہوگئی۔

15 جنوری 1971 کو اس مقدمے کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ چارلس مینسن اور اس کے ساتھیوں کو موت کی سزا سنائی گئی۔ یہ سزا 1972 میں تاحیات قید میں تبدیل ہوگئی، جب امریکی سپریم کورٹ نے سزائے موت کے قانون کو کالعدم قرار دے دیا۔

چارلس مینسن سلاخوں کے پیچھے تو چلا گیا لیکن وہاں بھی اس نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ جیل کر اندر وہ منشیات کی ترسیل کا کام کرتا رہا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1975 میں اس کے ترغیب دینے پر مینسن فیملی کی ایک ممبر لینٹ فرومے نے امریکی صدر جیرالڈ فورڈ کا قتل کرنے کی کوشش کی۔

ہائی پروفائل قتل اور میڈیا کی بھرپور کوریج کی بنا پر چارلس مینسن بذات خود ایک سیلبرٹی بن گیا۔ اس پر کتابیں لکھی گئیں، ڈرامے اور موویز بنائیں گئیں۔ اس کا فلسفہ تقریباً تمام امریکی کلٹسٹ گروہوں نے کسی نہ کسی شکل میں اپنا رکھا ہے۔ باہر کی دنیا سے رابطہ نہ ہونے کے باوجود آج بھی ایک بڑی تعداد اس کے پیروکاروں کی ہے۔

ان ہی پیروکاروں میں سے ایک ایفٹن برٹن عرف اسٹار نامی چھبیس سالہ لڑکی بھی ہے، جو اسی سالہ چارلس مینسن کے عشق میں مبتلا ہے اور اس سے شادی کی خواہاں ہے۔ وہ انیس سال کی عمر میں اپنا گھر چھوڑ کر کرکوران، کیلی فورنیا آگئی، تاکہ اپنے محبوب کے قریب رہ سکیں۔

چارلس مینسن ایک ایسا کردار ہے جسے شیطان کی 'شبیہ' کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس نے ناصرف بے گناہوں کی جان لی، بلکہ ایک بڑی تعداد میں کم عمر لڑکے لڑکیوں کی زندگیاں بھی تباہ کردیں۔ بہرحال، اس جیسے کردار ہر سوسائٹی میں موجود ہیں جو مختلف سماجی یا مذہبی کمزوریوں کو جواز بنا کرنیم پختہ ذہن کی مالک نوجوان نسل کو گمراہ کرتے ہیں، انہیں شاندار مستقبل یا بعد ازموت ایک پرتعیش زندگی کا خواب دکھا کراپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ایسے لاتعداد کردار نظر آئیں گے جو اپنے مکروہ نظریات کے زہر قطرہ قطرہ کر کے ہماری نوجوان نسل کے نسوں میں منتقل کر رہے ہیں۔

سوسن ایٹکنز نے جیل جانے سے لے کر 2009 میں جیل میں اپنی موت تک چارلس اور اس کے خیالات سے بیزاری کا اظہار کیا، اور ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کی، لیکن شیرون ٹیٹ کی بہن ڈیبرا نے اسے معافی دینے سے انکار کردیا۔ سوسن کے مطابق چارلس دوسروں کو صرف استعمال کرتا تھا، اور وہ دھوکے باز تھا۔ لیکن اس تمام تر پشیمانی کے باوجود چارلس جیسے کردار کے تھوڑے سے ساتھ نے اس کی زندگی تباہ کردی۔

یہ اس بلاگ کا دوسرا اور آخری حصّہ تھا، پہلے حصّے کے لئے کلک کریں...

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 27 اپریل 2025
کارٹون : 26 اپریل 2025