مووی ریویو : انگلی - نام کے برعکس معقول فلم
کرپٹ نظام اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل ہمیشہ سے ترقی پذیر معاشرے کا المیہ رہے ہیں، بولی وڈ میں مختلف موضوعات پر بننے والی فلموں میں کرپٹ سسٹم کا موضوع کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے-
ایسی سماجی فلمیں دیکھنے والوں میں زیادہ پسند کی جاتی ہیں جہاں کوئی 'رابن ہڈ یا بیٹ مین' قسم کا مرکزی کردار سماج میں رائج بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، لوگ ایسی فلمیں اس لئے بھی پسند کرتے ہیں کیوں کہ وہ خود کو ان فلموں میں دیکھتے ہیں اور انہیں اپنے جذبات کی عکاس سمجھتے ہیں-
'انگلی'، ڈائریکٹر رینسل ڈی سلوا کی ایسی ہی ایک کاوش ہے جس میں انہوں نے کرپشن کی وجہ سے عام آدمی کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی ہے- لفظ انگلی (یعنی غیر مہذب چھیڑچھاڑ) بطور سلینگ استعمال کیا جاتا ہے، فلم میں ڈائریکٹر سسٹم کے ساتھ بس ذرا سی چھیڑ چھاڑ ہی کر رہے ہیں-
پلاٹ
![]() |
ایک پڑھے لکھے نوجوانوں کا گروہ مختلف ناگوار تجربات سے گزرنے کے بعد معاشرے میں موجود کرپٹ عناصر کو بےنقاب کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور اس طرح 'انگلی گینگ' کا وجود ہوتا ہے- یہ گینگ کرپٹ افراد کو ٹارگٹ کر کے ان کے کالے کارناموں کی مکمل تفصیلات (اپنے انداز میں ) میڈیا کو بھیج دیتا ہے-
جب یہ تفصیلات چینلز پر دکھائی جاتی ہیں تو ایک جانب عوام کی طرف سے تعریف و تحسین ہوتی ہے تو دوسری جانب کرپٹ عناصر کو اپنا دانا پانی خطرے میں نظر آنے لگتا ہے اور یوں اس گینگ کو پکڑنے کے لئے ایماندار پولیس افسر اشوک کالے (سنجے دت) کی خدمات لی جاتی ہیں (مزے کی بات یہ کہ اشوک کالے کی ایمانداری کی وجہ سے ڈیپارٹمنٹ اسے زیادہ پسند نہیں کرتا)-
![]() |
اشوک کالے، انگلی گینگ تک پہنچنے کے لئے اپنے مرحوم پارٹنر کے بیٹے نکھل (عمران ہاشمی) کی مدد لیتا ہے- انسپکٹر نکھل کی اپنی ایک الگ کہانی ہے انہیں پولیس کی نوکری پسند نہیں اور زیادہ تر وقت شغل میلے میں گزارتے ہیں- قصّہ مختصر، کئی جتن کر کے نکھل گینگ میں شامل ہوجاتا ہے اسی دوران انگلی گینگ کے پیچھے کارفرما اصل واقعات سامنے آتے ہیں- اب نکھل کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ سسٹم کا ساتھ دے یا اس نئے زمانے کے رابن ہڈز کا-
![]() |
فلم کی اسٹوری لائن میچور ہے، کریکٹر ڈیولپ کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا گیا- اوپننگ سین ایک سرکاری دفتر میں باپ بیٹی سے شروع ہوتا ہے (ان باپ بیٹی کا اصل کہانی سے کوئی تعلق نہیں) اور اس کے ساتھ ہی فلم اصل موضوع کی طرف آجاتی ہے- ڈائریکٹر/رائٹر نے کہانی کو پیچیدگی سے بچایا ہے اور چھوٹی چھوٹی تفصیلات پر نظر رکھی ہے- اصل موضوع کو سائیڈ لائن ہونے سے بچانے کے لئے رومانس وغیرہ کو اہمیت کم دی گئی ہے (یعنی وہ شوقین جو عمران ہاشمی کا نام سن کر بھڑکیلے رومانس کی توقع کر رہے ہیں ان کو مایوسی ہوگی)- شاید یہی وجہ ہے کہ فلم کا دورانیہ دو گھنٹے سے بھی کم ہے-
خون خرابے سے مکمّل پرہیز کیا گیا ہے، پوری فلم میں یہی تاثر دیا گیا ہے کہ سسٹم کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ گولیاں ہی چلائی جائیں بس ذرا سی انگلی کی ضرورت ہے، خود کردار بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ قاتل نہیں ہیں-
![]() |
دوسری جانب کہانی میں کرپشن کی وجہ سے عام آدمی کو درپیش مسائل دکھاۓ گئے ہیں- رشوت خور سرکاری دفاتر، رکشہ والوں کا زیادہ کراۓ کا مطالبہ، ٹریفک پولیس کی بھتہ خوری اور ایسے ہی کئی بدعنوان عناصر ہیں جن کا سامنا ایک عام آدمی روزانہ کرتا ہے- ان سے اختلاف کی صورت میں اسے مزید مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے انصاف کا راستہ ناممکن ہوگیا ہے-
ڈائریکٹر نے انتہائی ہوشیاری سے رکّی (ارونودے سنگھ) کی کہانی میں، چاروں دوستوں کی اتھلیٹک ٹریننگ کے بارے میں بتایا ہے- ورنہ دیکھنے والے یہی سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ایک میڈیکل انٹرنی، جرنلسٹ، کمپیوٹر انجینئر اور مکینک جیسے عام لوگ اتنے پھرتیلے اور ماہر کرتب باز کیسے ہوسکتے ہیں-
![]() |
فلم میں کوئی مرکزی کردار نہیں البتہ دیگر کرداروں کے مقابلے میں عمران ہاشمی، رندیپ ہودہ اور سنجے دت کا کام زیادہ ہے- کنگنا رناوت، با صلاحیت اداکارہ ہیں لیکن یہاں ان کا کام نہ ہونے کے برابر ہے یہی نیہا دھوپیا اور دیگر اداکاروں کا ہے- جو بات غور طلب ہے وہ یہ کہ یہ کسی ایک اداکار یا کردار کی فلم نہیں ہے یہ ایک سماجی پیغام ہے جسے سسٹم تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے- ایسی فلموں میں نہ تو گانے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور نہ ہی رومانس اور گلیمر اس کے باوجود دیکھنے والوں کو محظوظ کرنے کر لئے شردھا کپور اور عمران ہاشمی پر فلمایا گیا ایک کلب نمبر 'ڈانس بسنتی' شامل کیا گیا ہے جبکہ میری ذاتی پسند فلم کا ٹائٹل ٹریک ہے-
![]() |
منفی پہلو
ڈائیلاگ اور فلم کا غیرحقیقی انجام: فلم کے ڈائیلاگ چند لمحات کے علاوہ زیادہ تر بے تاثر ہی رہے- اختتام ضرورت سے زیادہ سہل پسند اور تصوراتی دکھایا گیا ہے، اتنی محنت اور عرق ریزی کے بعد مسئلے کا یہ حل دیکھنے والوں کو مایوس کردیتا ہے-
آخر بات
'انگلی' (نام کے علاوہ) کرپٹ سسٹم پر ایک معقول سماجی فلم ہے، فلم کے اختتام میں دل بوجھل نہیں ہوتا-
دھرما پروڈکشنز کی پیشکش 'انگلی' کے ڈائریکٹر/رائیٹر رینسل ڈی سلوا ہیں- فلم 28 نومبر، 2014 کو ریلیز ہوئی اور اس کا دورانیہ ایک گھنٹہ 56 منٹ ہے- بہترین ایڈیٹنگ کا کریڈٹ دیپا بھاٹیہ کو جاتا ہے- میوزک پر سلیم-سلیمان، سچن-جگر اور گلراج سنگھ کی کرم فرمائی ہے-
اسٹارنگ : سنجے دت، عمران ہاشمی، رندیپ ہودہ، کنگنا رناوت، نیہا دھوپیا، انگد بیدی، نیل بھوپالم، شیو سبرامنیم، رضا مراد-
تبصرے (1) بند ہیں