پنجاب میں ایک ہزار مائیں اور 211 بچے ایڈز کا شکار
لاہور: آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایک ہزار 29 ماؤں اور 211 بچوں سمیت سات ہزار 100 افراد ایڈز کے موذی مرض کا شکار ہیں۔
پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے ایک سینئر آفیشل نے انکشاف کیا کہ ایڈز کا شکار کُل خواتین میں سے 140 خواتین حاملہ ہیں جس کے باعث ان کے ہونے والے بچے بھی ایڈز کی منتقلی کے خطرے سے دوچار ہو گئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خواتین اور بچوں میں ایڈز کی موجودگی نے محکمہ صحت کے حکام خاصے پریشان ہیں اور وہ ایڈز کی منتقلی کی وجوہات جاننے کے لیے تفتیش کر رہے ہیں۔
ایڈز وائرس کے دوران حمل یا ڈیلیوری کے وقت منتقلی کے امکانات 40 فیصد تک ہوتے ہیں۔
صرف گزشتہ دو ماہ کے دوران پنجاب میں 310 افراد میں ایڈز وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا جس میں 35 خواتین اور 13 بچے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر ایڈز کے مریض لاہور، گجرات، فیصل آباد، ڈیرہ غازی خان اور سرگودھا سے سامنے آئے ہیں جہاں اس سلسلے میں یہ اضلاع پہلے ہی خطرہ قرار دیے گئے تھے۔
آفیشل نے بتایا کہ ایڈز کا شکار سات ہزار 100 میں سے چار ہزار 436 افراد کی مکمل خاندان کے ساتھ رجسٹریشن کی گئی جبکہ دیگر افراد کی رجسٹریشن کا عمل ابھی جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں ایڈز کے شکار مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے حکومت نے ایک پروگرام بھی متعارف کرا دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت خواتین اور بچوں سمیت رجسٹرڈ شدہ ایڈز کے تمام مریضوں کو زندگی بڑھانے کی ادویہ فراہم کی جا رہی ہیں، اس مرض کا کوئی علاج نہیں لیکن ہم دواؤں کے استعمال سے اس مرض کو بڑھنے سے روک سکتے ہیں۔
مرض کا شکار ہونے کے بعد علاج نہ کرانے کی صورت میں مریض کی زندگی کا دورانیہ عام طور پر نو سے گیارہ سال تک ہوتا ہے جس کا دارومدار مرض کی شدت پر ہوتا ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کی بنیاد پر محکمہ صحت پنجاب کے دفتری اعدادوشمار بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایڈز سے متاثرہ 97ہزار سے سوا لاکھ مریض ہیں جن میں سے تقریباً 50 ہزار پنجاب میں رہتے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد سات ہزار 100 ہے۔
انہوں نے بتایا پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام نے دیہی علاقوں میں ایک سروے کے دوران موذی مرض کا شکار متعدد نئے مریضوں کو شناخت کیا ہے، یہ مریض اس بات سے لاعلم تھے اور بغیر کسی احتیاطی تدابیر یا علاج کے زندگی بسر کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں لوگوں کی بڑی تعداد کے ایڈز میں مبتلا ہونے کی اطلاع پر ہم نے ہیلتھ کیئر سینٹر اور بنیادی صحت کے مراکز بنانے شروع کر دیے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس عمل کے دوران ہم نے بچوں، بڑوں اور خواتین کے ٹیسٹ لیے جس میں بڑی تعداد میں لوگوں کے اس موذی مرض میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا جس نے حکام کو ہلا کر رکھ دیا۔
آفیشل کا کہنا تھا کہ حکام ایسے مریضوں سے مستقل رابطے میں ہیں تاکہ انہیں اعتماد میں لے کر اس مرض کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے اور بعد میں ان کو ٹیسٹنگ سینٹرز بھیج دیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ابھی ملتان، ڈیرہ اسماعیل خان، فیصل آباد، سرگودھا، گجرات، لاہور اور دیگر شہروں میں اس طرح کے سینترز موجود ہیں۔