یہ عام پاکستانیوں کی غیرمعمولی داستانوں کی دوسری کڑی ہے۔
اکثر اپنے زخموں میں ڈوب کر ابھرنا مشکل ترین کام ثابت ہوتا ہے، مگر یہ کہانی ایک ایسی دلیر خاتون کی ہے جو خاموشی کے باعث مصائب کا شکار ہوکر انتہائی گہرائیوں میں جاگری اور وہاں سے اس نے اپنی زندگی کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کی۔
نجمہ بے تابی سے منہ پر تکیے کے بڑھتے وزن سے نجات کی جدوجہد کررہی تھی جو ایک ایسے شخص کے جسم تلے دب کر اس پر عذاب ڈھا رہا تھا جس کے نام اس نے اپنی زندگی کردی تھی یعنی : اس کا شوہر۔
کوئی بھی مدد کے لیے گھُٹی ہوئی چیخوں کو نہیں سن سکا، اس کے ہاتھ اور پیر جو مضطربانہ انداز میں چل رہے تھے، ان کی جدوجہد بھی کچھ دیر بعد دم توڑ گئی۔
نجمہ کے شوہر زاہد نے اپنا وزن تکیے سے اٹھایا اور اپنی بیوی کی کلائی پکڑ کر نبض کو چیک کیا اور پھر مطمئن ہوکر کمرے سے نکل گیا۔
مگر وہ بہت جلدی چلا گیا اور یہ سمجھ نہیں سکا کہ کسی نہ کسی طرح اس کی بیوی بچنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
نجمہ کے حواس جب بحال ہوئے تو بدحواسی کے باوجود اسے اس بات کا شعور تھا کہ وہ ایک اور قتل کی کوشش کے دوران بچنے میں کامیاب رہی ہے، یہ پہلی بار نہیں تھا کہ زاہد نے نجمہ کو مارنے کی کوشش کی تھی، اس واقعے سے کچھ عرصہ پہلے بھی اس نے اپنی بیوی کو کھانے میں زہر دیا تھا۔
اور کئی بار قے اور ایک پڑوسی کی جانب سے ہسپتال پہنچانے کے بعد اسے احساس ہوا کہ اس کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے، جب ڈاکٹر اس کے پیٹ کو صاف کرنے میں مصروف تھے اور اسے زہر کی تفصیلات بتارہے تھے تو وہ ہسپتال کے بستر پر لیٹی اس سوچ بچار میں گم تھی کہ کس طرح اس جہنم سے فرار ہوسکے۔
ایک پرانی تصویر میں اپنے چہرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے 43 سالہ نجمہ نے کہا "زہر کی وجہ سے میری تھوڑی مکمل طور پر ڈھلک گئی اور مجھے دوبارہ صحتیاب ہونے میں کئی ماہ لگے"۔
نجمہ نے اس حوالے سے کونسلنگ کی کوشش شروع کی یہاں تک کہ اپنے ایک پڑوسی کو بھی اعتماد میں لیا، مگر اس مشکل سے نکلنے کا کوئی واضح راستہ تلاش نہیں کرسکی، اگرچہ قوانین موجود ہیں مگر گھریلو تشدد کے شکار افراد بہت کم ہی پاکستان میں قانونی تحفظ حاصل کرپاتے ہیں، کچھ متاثرہ افراد تو انتظامیہ سے رابطہ ہی نہیں کرتے کیونکہ اس طرح کے معاملات کے ساتھ سماجی پابندی یا ممانعت بھی جڑی ہوتی ہیں۔
نجمہ اپنے جلنے سے پہلے کی ایک تصویر دکھا رہی ہے— فوٹو محمد عمر |
نجمہ کے بقول "میرا شوہر کہتا تھا کہ اسے یقین نہیں آتا کہ آخر کس طرح میں اس کی کوششوں کے باوجود زندہ ہوں، پھر اس نے مجھ پر نفسیاتی دباﺅ ڈالنا شروع کیا تاکہ میں اپنی زندگی خود ختم کردوں"۔
نجمہ کی شادی اپنے کزن زاہد اقبال سے اپنے والد کی موت کے بعد بارہ سال کی عمر میں ہوگئی تھی، شوہر کے ساتھ اولین چند ماہ میں ہی اسے احساس ہوگیا تھا کہ زاہد مالی و جذباتی دونوں طرح سے اس کی معاونت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا، وہ اپنے شوہر کی بہت کم توجہ اور محبت دکھانے پر ڈپریشن کا شکار ہوگئی، جذباتی اور اخلاقی سپورٹ کی عدم موجودگی کے باعث نجمہ اپنی چھوٹی بہن میں سکون ڈھونڈنے لگی۔
اس کا کہنا ہے "ہم آٹھ بہن بھائی ہیں اور میں سب سے چھوٹی بہن کے بہت قریب ہوں، ہمارا تعلق میرے والد کی موت اور میری شادی کے بعد بھی روز بروز مضبوط ہوتا گیا، میں اسے اپنے ساتھ ہی سسرال لے آئی تھی"۔
اس کی بہن نے نجمہ کا جذباتی خلاء بھر دیا مگر یہ سوالیہ نشان ان کے سر پر لٹک رہا تھا کہ بغیر کسی آمدنی کے گھر کو کیسے چلایا جاسکتا ہے، اور یہی وجہ تھی کہ زاہد نے اسے کام کرنے کے لیے مجبور کرنا شروع کردیا، اور جب بھی وہ خالی ہاتھ گھر واپس آتی تو اس پر تشدد کرتا۔
نجمہ کھارادر کی گلیوں میں کسی بھی طرح کے کام کی تلاش میں بھٹکتی پھرتی تاکہ کچھ روپے کما سکے، کئی ہفتوں کی ناکامی کے بعد وہ لی مارکیٹ کا ایک ہول سیلر تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئی جس نے اسے جھالر بنانے کا کام دیا۔
وہ یاد کرتی ہے "میں نے ایک درجن جھالریں بنا کر پندرہ روپے کمائے، میں کام کرنے کے لیے اتنی بے تاب تھی کہ کچھ بھی کرنے کے تیار تھی"۔
شادی کے بعد گزرتے برسوں میں نجمہ نے سات بچوں کو جنم دیا جس میں سے دو کم خوراکی اور ایک کینسر کی وجہ سے دنیا سے چل بسا، اپنے بچوں کی اموات کے باعث دن رات اتنی محنت کرنے لگی تاکہ اتنی رقم کما سکے کہ اس کے بچوں کا پیٹ بھرسکے۔
مگر ایک ماں، بیوی اور خاندان کے واحد کفیل کا کردار ادا کرنے کے درمیان نجمہ اتنی مصروف ہوگئی کہ اسے شبہ بھی نہیں ہوسکا کہ اس کے اپنے گھر میں کیا ہو رہا ہے اور پھر ایک دن نجمہ کو شوہر نے اس کے کمرے میں بند کردیا۔
یہ وہ دن تھا جب اس نے فیصلہ کیا تھا کہ زاہد کو بتائے کہ وہ ایک بار پھر حاملہ ہوچکی ہے۔
وہ اس دن کی یادیں دوہراتے ہوئے بتاتی ہیں "میرے شوہر نے مجھے بچوں کے ساتھ بیڈروم میں بند کردیا، وہ اور میری بہن مسرت پوری رات باہر اکھٹے ایک ساتھ رہے"۔
اپنے شوہر اور بہن کے ارادوں کے بارے میں بتاتے ہوئے نجمہ کا کہنا تھا "اگلے روز زاہد نے کہا کہ وہ میری بہن سے بھی شادی کرنے جارہا ہے، میری چھوٹی بہن جس سے میں بہت زیادہ محبت کرتی تھی، وہ ہم دونوں کو ایک ہی گھر میں رکھنا چاہتا تھا"۔
اس کے بعد گھر میں شدید بحث کا ایک سلسلہ چل نکلا جس کا اختتام اکثر نجمہ پر تشدد پر ہوتا تھا، اس ممکنہ شادی کی خبر لیاری کے علاقے میں تیزی سے پھیل گئی اور کچھ فکرمند پڑوسیوں نے اس معاملے میں مداخلت کی ناکام کوشش بھی کی۔
نجمہ حالات کو خراب سے بدترین ہونے کا سبب بتاتی ہیں "پڑوسیوں کے بزرگوں نے زاہد سے رابطہ کیا اور کہا کہ اس کے لیے ایک ہی وقت میں دو بہنوں سے شادی کرنا ممکن نہیں کیونکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا، مگر اس نے ہر چیز کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ تو مسرت کو اپنی بہن سمجھتا ہے"۔
وہ مزید بتاتی ہیں "جب مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کیا چاہتا ہے تو میں نے اپنی بہن کو واپس ماں کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کیا مگر وہ مشتعل ہوگیا اور اس نے ایسا نہیں ہونے دیا، میری ماں زندہ ہیں اور وہ میری شادی بچانے کے لیے کوئی مدد نہیں کرسکتیں، ایسا لگتا تھا کہ ہر چیز میرے خلاف سازش کر رہی ہے"۔
زاہد جانتا تھا کہ جب تک نجمہ زندہ ہے وہ مسرت سے شادی نہیں کرسکتا اور اسے قتل ہی اس کا واحد حل لگا، قتل کی دو کوششیں اس کے بعد ہی ہوئیں اور نجمہ بچنے میں کامیاب رہنے کے بعد بھی بچوں کی وجہ سے اس کے ساتھ رہنے پر مجبور ہے۔
اس نے کبھی علیحدگی کے آپشن کے بارے میں نہیں سوچا کیونکہ وہ اپنی باقی زندگی مطلقہ کے داغ کے ساتھ گزارنے کے خیال سے خوفزدہ ہے اور اس کے پاس کہیں اور جانے کے لیے کوئی جگہ بھی نہیں۔
جذبات شدت پکڑ رہے ہیں، فرسٹریشن اور بے بسی گھر کے تمام اراکین کے چہروں سے ٹپکتی ہے اور پھر اہم ترین موڑ آگیا۔
نجمہ اپنے جلنے کے زخم دکھا رہی ہے— فوٹو محمد عمر |
مایوسی سے ٹوٹ جانا
نجمہ کے جسم پر کبھی ختم نہ ہونے والے تشدد کے نتیجے میں خراشیں پڑی ہوئی ہیں، جب مدد کے لیے چیخوں کی آوازیں تھم جاتی تھیں تو ایک نومولود بچہ بیڈروم میں رونا شروع کردیتا تھا، مگر نجمہ اسے فراموش کردیتی تھی، ایک چھ سالہ بچہ اپنے تین بہن بھائیوں کے ساتھ ایک کونے میں کھڑا ماں کو گھور رہا تھا، خاموش اور دہشت سے مبہوت کھڑا ماں کو خود پر مٹی کا تیل چھڑکتا ہوا دیکھ رہا تھا، ایک تیلی جلی، تیل کی بوتل فرش پر ٹوٹ گئی اور رات کا سناٹا چیخوں کی نئی لہر سے چکنا چور ہوگیا۔
آخر ایسا کیوا ہوا تھا جب ایک خوشی کا موقع بھیانک خواب میں تبدیل ہوگیا نجمہ اس بارے میں بتاتی ہیں "جب زاہد کو اپنے آٹھویں بچے کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ غصے میں گھر آیا اور مجھے پیٹنے لگا، مجھے لگ رہا تھا کہ وہ مجھے اتنا مارے گا کہ میں مرجاﺅں گی، جب وہ چلا گیا تو میں نے سوچا بہت ہوگیا اب میں زندہ نہیں رہنا چاہتی"۔
اس نے خود کو مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگالی۔
پڑوسی نجمہ کی چیخیں سن کر اس کی مدد کے لیے آئے اور اسے ہسپتال لے گئے مگر اس کے شدید جلے ہوئے بدن کا علاج لگ بھگ ناممکن ہی تھا۔
یہاں تک کہ اپنے ہسپتال سے واپسی کے بعد بھی وہ زاہد کے ہاتھوں مزید تشدد کا نشانہ بنتی رہی "میں سر سے پاﺅں تک پٹیوں سے جکڑی ہوئی تھی مگر اس کے باوجود وہ مجھے اس وقت تک مارتا رہا جب تک پٹیاں پھٹ کر بکھر نہیں گئیں، اس نے ہر ایک کو کہا تھا کہ میرا کردار مشتبہ ہے اور یہ بچہ اس کا نہیں"۔
وہ نومولود بچہ اس وقت دنیا سے چلا گیا جب اپنی بگڑی ہوئی صحت کی بناء پر اس کی غذا کا خیال نہ رکھ سکی "میرے بیٹے کی موت کے چھ روز بعد اس نے مجھے طلاق دے دی اور گھر سے باہر پھینک دیا"۔
جوابی لڑائی
یہ بات نجمہ کے لیے باعث حیرت نہیں تھی کہ کوئی بھی اسے پناہ دینے یا بچوں کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوا، اس کے دو بچے لاہور زاہد کی ایک رشتے دار کے پاس چلے گئے، جبکہ دیگر دو کو زاہد حیدرآباد لے گیا اور اپنا گھر بھی فروخت کردیا۔
اپنے سر پر کوئی چھت نہ ہونے اور پیسے نہ ہونے کے باوجود نجمہ نے خود سے اپنے بھیانک ماضی کی یادوں سے باہر نکل کر اپنے بچوں کو واپس لانے کا عہد کیا "میں جانتی تھی کہ میں نے اپنی زندگی میں ظلم کے خلاف کھڑے نہ ہو کر، گیارہ سال تک شوہر کے ساتھ زندگی گزار کر اور خود کو مارنے کی کوشش کرکے غلطیاں کی ہیں مگر میں یہ بھی جانتی تھی کہ مجھے اپنی زندگی کو صحیح ڈگر پر لانا ہوگا، اللہ مجھے زندہ رکھنا چاہتا تھا"۔
نجمہ نے جھالریں بنانے کا کام جاری رکھا اور خام مال ہی اس کا واحد سامان تھا۔
نجمہ جھالر بنانے کے مختلف مراحل دکھا رہی ہے— فوٹو محمد عمر |
وہ روزانہ کئی کئی گھنٹے کسی سڑک کے کونے پر بیٹھ کر بجلی کے کھمبوں میں ڈوریوں کو اس طرح گھماتی تھی کہ وہ جھالر کی شکل اختیار کرلیتے تھے، کچھ پیسے جمع کرنے کے بعد اس نے بڑی مقدار میں مٹھائی خریدی اور گھر گھر جاکر کم منافع میں فروخت کرنے لگی "میں نے دن رات جھالریں تیار کیں، میں نے گھر گھر جاکر مٹھائیاں فروخت کیں، بیشتر افراد تو میرا جلا ہوا چہرہ دیکھ کر دروازہ تک کھولنے سے انکار کردیتے تھے، میں نے کچھ عرصے کے لیے گھریلو ملازمہ کا کام بھی کیا، میں نے وہ سب کچھ کیا جو کرسکتی تھی اس سے میں اتنے پیسے جمع کرسکوں کہ لاہور جاکر اپنے بچوں کو واپس لانے میں کامیاب ہوجاﺅں"۔
وہ عبداللہ شاہ غازی کے مزار میں کھلے آسمان تلے یا کسی پھلوں کے کریٹ کے نیچے سوجاتی تھی مگر نجمہ جلنے اور خراشوں کے زخموں سے مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوسکی، لیکن پھر بھی اپنوں کے مقابلے میں اجنبیوں نے اس کی زیادہ مدد کی "ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میرا جسم کیڑوں سے بھر گیا تھا، میں بہت زیادہ کام کرتی تھی اور جلنے سے پڑنے والے زخم ٹھیک نہیں ہورہے تھے، عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر ایک شخص نے میری حالت دیکھی اور آغا خان ہسپتال میں مکمل سرجری کے لیے مالی معاونت فراہم کی"۔
وہ مزار کے لنگر اور زکوة کے ذریعے زندہ رہ کر ایک ایک پیسہ جمع کرنے لگی تاکہ لاہور جانے کے لیے بس کا کرایہ جمع کرسکے۔
نجمہ کے پڑوسی عبدالمالک ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں "نجمہ ان دلیر ترین خواتین میں سے ایک ہے جن سے میں واقف ہوں، ایک خاتون کے لیے ہمارے جیسے معاشرے جہاں مردوں کو ہی ہمیشہ درست مانا جاتا ہے، اس کی جدوجہد قابل فخر ہے، جسمانی اور ذہنی طور پر اس تکلیف دہ دور سے گزرنے کے بعد میرا نہیں خیال کوئی مرد بھی مشکلات پر قابو پاسکتا ہے، مگر نجمہ نے تو اپنے بچوں کو تعلیم تک دلوائی"۔
خاندان کا ملاپ
نجمہ کو لاہور کے سفر کے لیے پیسے جمع کرنے اور اپنے بچوں کو واپس لانے کے لیے ڈھائی سال کا عرصہ لگا۔
نجمہ کی اکلوتی بیٹی حنا بتاتی ہے "میں نے امی کو اس جگہ دیکھا جہاں ہم کھیلتے تھے تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا، میں نے اپنے بھائی کو بتایا اور ہم ان کی جانب دوڑ پڑے"۔
ماں کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگی کہ اس کے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہو رہا "میرے بیٹے کا بازو جلا ہوا تھا جبکہ بیٹی کا چہرہ خراشوں سے بھرا ہوا تھا"۔
یہ بچے اپنی ماں کے ساتھ کراچی واپس آگئے اور لیاری میں کرائے کے ایک مکان میں رہنے لگے "مالک مکان اپنا گھر دینے کے لیے تیار نہیں تھا کیونکہ میں تنہا تھی اور خاندان کی کفالت کے لیے میرے ساتھ کوئی مرد نہیں تھا، میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں بروقت کرایہ ادا کروں گی چاہے اس کے لیے مجھے بھوکا ہی کیوں نہ رہنا پڑے"۔
اس زمانے میں نجمہ دن میں ایک بار ہی کھانا کھاتی تھی مگر اس کی زندگی بتدریج صحیح سمت کی جانب بڑھنے لگی، اس نے اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرادیا اور بہت جلد ایک غیرمتوقع مہمان اس کے دروازے پر آپہنچا، اس کا بیٹا رضوان جسے زاہد اپنے ہمراہ حیدرآباد لے گیا تھا، جہاں وہ بھاگ کر اپنی ماں کو تلاش کرنے کراچی آگیا تھا۔
زاہد نے حیدرآباد میں ایک اور عورت سے شادی کرلی اور بعد میں اسے طلاق دے دی اور اب تنہا رہ رہا ہے۔
دوسری جانب نجمہ نے اپنی بیٹی کی شادی ایک نوجوان ورکر سے کرادی، جس سے اس کی ملاقات لائٹ ہاﺅس مارکیٹ میں ہوئی تھی، اب وہ اپنے بچوں، ان کے شریک حیات اور پوتے پوتیوں کے ساتھ لیاری کی یادوں سے دور سلطان آباد میں رہ رہی ہے۔
نجمہ اپنے پوتے کے ساتھ— فوٹو محمد عمر |
اس کی بگڑی ہوئی صحت اب بھی اسے مشکلات سے دوچار رکھتی ہے جبکہ بچوں اور پوتے پوتیوں کی تعلیم کے لیے آمدنی بھی محدود ہے۔
اپنی بدقسمتی کے بعد نجمہ نے اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر اپنے ارگرد کی خواتین میں آزادی کا ایک احساس پیدا کیا جنھیں وہ کھلے دل سے جھالریں بنانے کی تربیت دیتی ہے۔
نجمہ بتاتی ہے "میں نے جھالروں کے ساتھ ایسی چھوٹی رنگا رنگ گیندیں بنانا شروع کیں جو کپڑوں پر لگائی جاسکتی تھیں جو پانچ سے سو روپے میں فروخت ہوتی ہیں، میں اس وقت تک کام کرتی رہوں گی جب تک مجھ میں ہمت ہے"۔
خواتین کا ایک گروپ جو نجمہ کی جدوجہد کی کہانی سن رہا تھا ان کو دیکھ کر یہ صاف نظر آرہا تھا کہ نجمہ کی بقاء کی یہ داستان انہیں کتنا متاثر کررہی ہے۔
کریڈٹس
تحریر
یمنیٰ رفیع
فوٹو گرافی
محمد عمر
ترجمہ
فیصل ظفر
اردو ایڈیٹنگ
منظرالہیٰ