گو مصباح گو
اسپاٹ فکسنگ کی رسوائی، ملکی سرزمین پر کرکٹ سے محرومی، اہم فاسٹ باؤلرز کی عدم دستیابی، ٹیم میں جاری چپقلش، میڈیا اور سابق اسٹارز کی بلاوجہ تنقید۔یہ وہ سب مسائل تھے جن سے مصباح کو قیادت سنبھالنے کے ساتھ ہی نبرد آزما ہونا تھا جو کسی طور آسان کام نہ تھا اور شاید ماضی میں پاکستان کرکٹ اور کسی کپتان پر اس سے کڑا وقت نہ آیا ہو۔
ء2009 میں سری لنکن ٹیم پر حملہ نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنا بلکہ ساتھ ساتھ پاکستان میں عالمی کرکٹ پر دروازے بھی بند کرگیا۔
ابھی ٹیم اس سب سے سنبھلنے کی کوشش کرتے ہوئے صحیح ڈگر پر گامزن ہونے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ اسپاٹ فکسنگ نے کسی سونامی کی طرح پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرکٹ حلقوں کو ہلا ڈالا۔
صرف یہی نہیں بلکہ ٹیم میں جاری چپقلش، قیادت کا بحران اور ساتھ ساتھ میڈیا اور سابق کرکٹرز کی نہ ختم ہونے والی تنقید نے کرکٹ کو بھی ہاکی جیسی بدترین حالت میں لاکھڑا کیا اور صورتحال اس نہج تک پہنچی کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب کرکٹ میں کامیابی کی کہانیاں بھی قصہ پارینہ بن جائیں گی۔
یہ ایک ایسا کڑا وقت جب شائقین رنج، اذیت اور غصے کی ملی جلی کیفیت کا شکار تھے اور اگر دنیا کی کسی اور ٹیم پر اتنا بُرا وقت پڑتا تو اسے سنبھلنے کے لیے یقیناً کئی سال لگتے۔
ایک ایسے موقع پر جب قومی ٹیم کی قیادت کے لیے کوئی شخص موزوں دکھائی نہ دیتا تھا، پاکستان کرکٹ بورڈ نے تحمل مزاج مصباح الحق کو قیادت کا منصب سونپا جس کے ساتھ ہی تنقید کے نئے نشتر برسنا شروع ہو گئے تاہم بورڈ خصوصاً مصباح نے تمام تر چیزوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف کارکردگی دکھانے کے منصوبے کو اپنا منشور بنایا۔
ان تمام تنازعات کے ساتھ قومی ٹیم صف اول کی ٹیم جنوبی افریقہ سے سیریز کھیلنے عرب سرزمین پر پہنچی لیکن کوئی گیند پھینکے جانے سے قبل ہی ٹیم کی ہار کی پیشگوئی کردی تھی لیکن جہاں ایک طرف ناقد اپنی تمام تر سیاہی خرچ کرنے میں مصروف تھے تو دوسری جانب کاتبِ تقدیر بھی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی تیاری کررہا تھا۔
تحمل مزاج مصباح نے پہلی سیریز میں جنوبی افریقہ جیسی ٹیم کے خلاف مشکلات حالات میں لگاتار تین نصف سنچریاں اسکور کر کے ناقدین کو لاجواب کردیا۔
جنوبی افریقہ کے خلاف دونوں ہی ٹیسٹ میچوں میں پاکستان پر شکست کے گہرے بادل منڈلانے لگے تھے لیکن دونوں ہی مواقعوں پر مصباح نے مرد بحران کا کردار ادا کرتے ہوئے پروٹیز کو یقینی فتح سے محروم کردیا۔
مصباح نے نسبتاً کمزور ٹیم اور غیر یقینی بیٹنگ لائن کے بل بوتے پر کرکٹ پنڈتوں کو حیران کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور اگلی چھ میں سے پانچ سیریز اپنے نام کیں جبکہ ایک ڈرا کرنے میں کامیاب رہے۔
اس میں اس وقت کی عالمی نمبر ایک اور آسٹریلیا کو ایشز سیریز میں شکست کی دھول چٹانے والی ان فارم انگلینڈ کی ٹیم کے خلاف تاریخی وائٹ واش کی فتح بھی شامل ہے جس نے انگلش شائقین پر سکتہ طاری کردیا تھا۔
ان تمام فتوحات پر اپنی بغلیں جھانکتے ناقدین کو جب کچھ نہ ملا تو انہوں نے مصباح کی دفاعی حکمت عملی اور سست رفتار بیٹنگ کی بنیاد پر آڑے ہاتھوں لیات شروع کردیا۔
مصباح کے عہد کے دوران کرکٹ بورڈ میں چیئرمین کی کرسی پر میوزیکل چیئر کا ورلڈ ریکارڈ بننے کے ساتھ ساتھ نت نئے کوچز کو آزمانےکا سلسلہ بھی جاری رہا جس سے قومی ٹیم کی کارکردگی پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے۔
اس دوران کپتان پر اس وقت بُرا آیا جب قومی ٹیم سیریز کھیلنے جنوبی افریقہ پہنچی جہاں اسے تیز اور باؤنسی وکٹوں کی وجہ سے تین میچوں کی سیریز میں کلین سوئپ ہوا۔
اس پر ستم ظریقی یہ کہ قومی ٹیم زمبابوے جیسی ٹیم کے خلاف بھی ٹیسٹ میچ ہار بیٹھی جس نے مصباح کی قیادت پر جلے بھنے ناقدین کی چاندی کر دی لیکن انہوں نے زبان کے بجائے بلے سے جواب دینے کی حکمت عملی اپنائے رکھی۔
جب آسٹریلیا کی ٹیم سیریز کھیلنے متحدہ عرب امارات پہنچی تو مصباح کو ایک بار پھر چار سال قبل درپیش صورتحال کا سامنا تھا۔
مصباح نہ صرف سری لنکا سے بدترین شکست اور اپنی خراب فارم سے پریشان تھے بلکہ ساتھ ساتھ ٹیم کے سینئر بلے باز یونس خان کی بورڈ سے ناچاقی نے بھی کپتان کی نیندیں اڑا دی تھیں لیکن وہ ڈٹا رہا اور پھر وہ کر دکھایا جس کا کسی نے تصور بھی نہ کیا تھا۔
اس موقع پرکرکٹ بورڈ کی تعریف نہ کرنا بھی یقیناً زیادتی ہو گی جس نے تمام تر سازشوں اور سازشی عناصر کو بے نقاب کرتے ہوئے مصباح پر اعتماد برقرار رکھا۔
آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں فتح میں ناصرف قومی ٹیم بلکہ مصباح اور یونس کی کارکردگی نے حریف ٹیم اور تنقید نگاروں کو دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور کردیا۔
اس میچ میں ایک طرف شاہینوں نے عالمی نمبر دو ٹیم کو شکست کی دھول چٹائی تو مصباح نے اپنی انفرادی کارکردگی سے دنیا بھر کو حیران کردیا۔
چالیس سالہ قائد نے تیز ترین ففٹی کا عالمی ریکارڈ توڑنے کے ساتھ ساتھ برق رفتار سنچری کا ویوین رچرڈز کا ریکارڈ بھی برابر کردیا۔
پہلے میچ میں شکست سے خوفزدہ کینگروز جب دوسرا ٹیسٹ کھیلنے اترے تو پہلے ہی سیشن سے قومی کے جارحانہ تیور نے ان کے حوصلے پست کردیے اور اسے تین دہائیوں بعد پاکستان سے کلین سوئپ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
آسٹریلیا جیسی ٹیم کے خلاف قومی ٹیم کی شاندار کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ٹیسٹ میچوں کے 25 سے زائد سیشنز میں سے 24 پاکستان نے اپنے نام کیے۔
شکست سے چور، ایک انتہائی ناتجربہ کار باؤلنگ لائن اور مرکزی فاسٹ اور اسپن باؤلرز سے محروم ٹیم کی اس کارکردگی کے لیے یقینا ‘شاندار’ چھوٹا لفظ ہے۔
قومی ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر یقیناً کلارک سیریز دو میچوں تک محدود ہونے پر شکر ادا کر رہے ہوں گے اور یہ کچھ غلط بھی نہ تھا کیونکہ اگلے ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ کے خلاف بھی معاملات کچھ مختلف نہ تھے بلکہ اس بار تو وہ بھی کھیل گئے جو کہیں نہیں کھیلے تھے۔
اعتماد سے بھرپور ٹیم میدان میں اتری تو محمد حفیظ کے بلے نے بھی رنز بنا ڈالے اور دونوں اننگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو دوسری جانب مصباح نے ایک اور سنچری بنا کر لگاتار تیسری تین ہندسوں کی اننگ کھیلی۔
متحمل مزاج مصباح نے جہاں نیوزی لینڈ کے خلاف فتح اپنے نام کی وہیں ساتھ ساتھ ٹیسٹ کرکٹ میں بطور کپتان پاکستان کی جانب سے 15 فتوحات حاصل کر کے پاکستان کے کامیاب ترین کپتان کا خطاب بھی اپنے نام کیا اور اس فہرست میں عظیم پاکستانی کھلاڑیوں عمران خان اور جاوید میانداد کو پیچھے چھوڑ دیا۔
ان فتوحات کی سب سے خاص بات یہ کہ ان میں کوئی بھی میچ پاکستانی سرزمین پر نہیں کھیلا گاج اور پاکستان نے ہندوستان کے علاوہ تمام ہی ٹیسٹ ٹیموں کے خلاف فتح کا ذائقہ چکھا جبکہ انگلینڈ اور آسٹریلیا سمیت تین ٹیموں کو وائٹ واش کیا۔
یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ کامیاب ترین کپتان کا ریکارڈ بنانے والے مصباح نے بلے سے بھی ایک نئی تاریخ رقم کی اورٹیسٹ کرکٹ میں بطور کپتان پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی بن گئے۔
قومی ٹیم کی حالیہ فارم کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ نیوزی لینڈ کے خلاف بھی کلین سوئپ کی مکمل صلاحیت کھتی ہے لیکن ان اس بات سے قطع نظر اب یقیناً اتنے کارناموں کے بعد ہمیں مصباح کا ‘پیچھا’ چھوڑتے ہوئے ان کی مکمل حمایت کرنی چاہیے۔
ایک روزہ ٹیم کی قیادت پر تنقید کرنے والے نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں سب سےزیادہ رنز بنانے والا اور کوئی نہیں بلکہ مصباح ہی تھا۔
ورلڈ کپ اب محض دو سے تین ماہ کی دوری پر ہے اور ایسے میں دنیا کی دوسری قوموں کی طرح ہمیں بھی ورلڈ کپ میں اپنی ٹیم کی مکمل حمایت کرنے کی ضرورت ہے ۔
قومی سطح پر تنقید کا شکار بڑی بڑی سے بڑی ٹیم بھی میدان میں کارکردگی نہیں دکھا سکتی لہٰذا اب ہمیں مصباح اور قومی ٹیم کی مکمل حمایت اور دعائیں کرنے کی ضرورت ہے اور پھر کیا پتہ مارچ 2015 میں میلبورن کرکٹ گراؤنڈ پر شیڈول ورلڈ کپ فائنل میں یہی ٹیم پاکستان کو 23 سال بعد آسٹریلین سرزمین پر جیت کا تحفہ دے۔
تبصرے (3) بند ہیں