انتخابی اصلاحات کیسی ہونی چاہیئں؟
اصلاحات چاہے کسی بھی طرح کی ہوں، مسائل سے بھرپور ہوتی ہیں۔ یہ بات تکلیف دہ حد تک واضح ہے، لیکن اس کو تقریباً تمام ہی معاملوں میں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
خیالی طور پر اصلاحات ایک اندھیرے کمرے میں لائٹ جلانے جیسا ہے، صرف ایک بٹن دبانے جتنا آسان۔ اور اسی خیال کی بنا پر اصلاحات کے موضوع پر کوئی بھی بات سنجیدہ بحث کا روپ اختیار نہیں کرپاتی۔
چاہے سول سروس میں اصلاحات ہوں یا انتخابی اصلاحات، سنجیدہ بحث کے بجائے صرف ایک سادہ سی کہانی بنا دی جاتی ہے، اور اسے 'ہم بمقابلہ ان' بنا کر عوام کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے، جو ہر کسی چیز پر جاری بحث میں حصہ لینے کو اپنا فرض سمجھنے لگے ہیں۔
اس تمام بات چیت کا اور بار بار دہرائے جانے والے بیانات کا حتمی نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔
پڑھیے: انتخابی اصلاحات کی فوری ضرورت
یہاں پر میرا مقصد اس سے آگے بڑھ کر انتخابی اصلاحات کے اہم مسئلے کا توجہ کے ساتھ جائزہ لینا ہے، جو پنجاب کے لیے پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے کہیں دب کر رہ گیا ہے۔
موجودہ ماڈل کے ساتھ مسائل
2013 کے انتخابات سے پہلے بھی ایک بات بالکل واضح تھی، وہ یہ کہ پاکستان کو بڑے پیمانے پر انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
موجودہ انتخابی نظام دوسطحی حکومتی ماڈل پر مبنی ہے، یعنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر۔ اس کے علاوہ وفاقی انتخابی مرحلے کے ایک حصے، یعنی سینیٹرز کے انتخاب کے لیے بالواسطہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔
اس وقت پاکستان میں انتخابات ہوتے ہیں، تو لوگ اپنی پسند کے ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے بعد ممبرانِ صوبائی اسمبلی اپنی جماعتوں کی ہدایات کے مطابق سینیٹرز کا انتخاب کرتے ہیں۔ سینیٹرز چھ سالوں کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں جبکہ قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبر پانچ پانچ سالوں کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ موجودہ حلقہ بندیاں 2002 میں 1998کی مردم شماری کی بنیاد پر کی گئی تھیں، اور تب سے لے کر اب تک اپ ڈیٹ نہیں کی گئی ہیں۔
اس لیے انتخابی اصلاحات پر ہونی والی کوئی بھی بحث بہت وسیع ہوگی۔ عمران خان کی اپنے حامیوں کو یقین دہانیوں کے برعکس انتخابی اصلاحات کوئی ایسا جادوئی نسخہ نہیں جو پی ٹی آئی کو اکثریت دلا دے گا۔ اس کے بجائے یہ کئی مراحل اور اقدامات کا ایک ایسا مجموعہ ہے، جسے مکمل کیا جانا بہت ضروری ہے۔
سب سے پہلے، آخری دفعہ مردم شماری 2011 میں کی گئی تھی، اور اس کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کی جانی چاہیئں۔ پچھلی دہائی میں اعداد و شمار میں تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں طاقت کا توازن نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے تبدیل ہوجائے گا۔
مزید پڑھیے: انتخابی اصلاحات کس طرح کی؟
دوسرا، سینیٹرز کا انتخاب براہِ راست ہونا چاہیے، یعنی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبروں کی طرح سینیٹرز کو بھی عوام منتخب کریں۔ حکومت کو عوامی امنگوں کا نمائندہ ہونا چاہیے، اس کے باوجود ہماری جمہوریہ میں ہماری سینیٹ کا انتخاب لوگ نہیں کرتے۔
تیسرا، اب پاکستان کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال شروع کردینا چاہیے، صرف شفافیت کے لیے نہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ اس سے انتخابی عمل کے اخراجات کم ہوں گے۔ ہندوستان کا الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا تجربہ کافی اچھا رہا ہے، اور اس نے مسائل سے زیادہ فائدے پیدا کیے ہیں۔
بھلے ہی یہ تجاویز عوامی سطح پر کافی عرصے سے موجود ہیں، لیکن ان میں سے کسی کے بھی نفاذ کے لیے کبھی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئیں۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ وہ یہ کہ جیسا میں اپنے پچھلے مضامین میں نشاندہی کرچکا ہوں، ہمارا سسٹم ہی ایسا ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے جگہ موجود ہے۔ سسٹم بھلے ہی کتنا خراب اور ناکام ہے، یہ ایک کام بہت اچھے طریقے سے کرسکتا ہے، اور وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے گنجائش نکالنا ہے۔
پاکستان کو اس وقت حقیقت میں جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ایک ایسا سسٹم ہے جو ہمارے گورننس کے اسٹرکچر کے کام کرنے کے طریقے کو بدل دے۔
موجودہ نظام کے مسائل میں ملک کے کچھ علاقوں کا دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ترقی پانا، یا کچھ ممبرانِ اسمبلی کا دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بااثر ہونا شامل ہیں۔ اس لیے یہ خیال تقویت پاتا ہے کہ کیونکہ ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے پاس فنڈز ہوتے ہیں، اس لیے کرپشن کرنا ان کے لیے فائدے مند ہوتا ہے، جس سے یہ دلیل مضبوط ہوتی ہے کہ کرپٹ سیاستدان وقت کے ساتھ ساتھ سسٹم کے لیے اتنے ضروری بن جاتے ہیں، کہ جن کے بغیر سیاسی جماعتوں کا جیتنا مشکل ہوجاتا ہے۔
موجودہ اسٹرکچر لسانی جماعتوں کے لیے بھی راہ ہموار کرتا ہے کہ وہ اپنے بےمنطق مطالبات کے لیے ملک کو یرغمال بنا لیں۔
حقیقی انتخابی اصلاحات صرف ووٹوں کی گنتی اور تصدیق سے بڑھ کر ان مسائل کی جانب بھی توجہ کریں گی۔
متناسب نمائندگی کس طرح مسائل حل کرتی ہے؟
پاکستان کو اس وقت جس نظام کی ضرورت ہے، وہ متناسب نمائندگی کا نظام ہے۔
اس وقت ہمارا سسٹم ایسا ہے، کہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا شخص جیت کے مارجن کا حساب کیے بغیر فتحیاب قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے پاس کئی امیدوار 15،000 ووٹ لے کر بھی جیت جاتے ہیں، اور کئی امیدوار 90،000 ووٹ لے کر بھی ہار جاتے ہیں۔
متناسب نمائندگی کے نظام میں یہ مسئلہ اس طرح حل کیا جائے گا، کہ ہر ووٹ پارٹی کی بنیاد پر ڈالا جائے۔ امیدواروں اور حلقوں کے بجائے سیاسی جماعتیں اپنی قومی اسمبلی کی 272 سیٹوں کے لیے اپنی اپنی ترجیحی لسٹ جاری کریں گی، اور ایسی ہی لسٹ صوبائی اسمبلیوں کے لیے بھی جاری کی جائے گی۔
مزید پڑھیے: انتخابی اصلاحات: اگلا قدم
اس کے بعد پورے انتخابات میں ڈالے گئے تمام ووٹوں میں سے ہر پارٹی کو اس کے ووٹوں کی تعداد کے مطابق سیٹیں ملیں گی۔ مثال کے طور پر اگر کسی پارٹی نے تمام ووٹوں کا دس فیصد حاصل کیا ہے، تو اسے قومی اسمبلی میں 27 سیٹیں دی جانی چاہیئں۔ اس طرح ہر ووٹ کی اہمیت ہوگی، اور اس سے بھی زیادہ، پارٹی ترقیاتی فنڈز اور پارٹی پوزیشنز کے لیے مقامی اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنے گی۔
اس طریقے سے نئی حلقہ بندیوں کی بحث بھی ختم ہوجائے گی، جو کہ اکثر گرما گرم اور لسانی و قوم پرست جماعتوں کی جانب سے ہائی جیک کر لی جاتی ہے۔
متناسب نمائندگی کے نظام میں کیونکہ امیدوار کسی ایک حلقے سے بندھے ہوئے نہیں ہوں گے، تو ان کا ایجنڈا قدرتی طور پر قومی جہت میں تبدیل ہوگا، جس میں وہ صرف پنجاب یا صرف کراچی کے بجائے پورے پاکستان کو لاحق مسائل کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ یہ سسٹم اتحادی سیاست کو بھی فروغ دے گا جس میں چھوٹی جماعتیں بھی حکومتی اتحاد کا حصہ بن سکیں گی۔ اگر یہ نظام حقیقت میں بدل جائے، تو نئے صوبوں کی تشکیل کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا، ایک ایسا مسئلہ، جو کوئی بھی جماعت حل نہیں کرنا چاہتی۔
میرے دلائل کا مقصد یہ ہے کہ صرف اوپری سطح کی اصلاحات کی بات کرنے کے بجائے انتخابی نظام کی گہرائی میں اسٹرکچرل اصلاحات کا نفاذ کیا جائے، جس کے ہماری جمہوریت میں بے پناہ فوائد ہوں گے۔
آخر ایک بھی ووٹ کیوں ضائع ہو؟ ہمارے ملک کو چلانے میں ہر ووٹ کی اہمیت ہونی چاہیے، اور ایک متناسب نمائندگی کا نظام اس بات کو یقینی بنائے گا۔ اس سے ان امیدواروں سے جان چھوٹے گی، جو سیاسی جماعتوں کو ذاتی ایجنڈوں کے لیے ہائی جیک کر لیتے ہیں، اور نئی حلقہ بندیوں اور نئے صوبوں جیسے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی، جن پر بحث کرنے کے لیے ہم ابھی بہت چھوٹے ہیں۔