پاکستان کا سوئٹزر لینڈ—سوات
زین العابدین صدیقی
انتہائی خوبصورت جھیلوں، جھرنوں، آبشاروں اور نظاروں پر مبنی وادی سوات پاکستان کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
سوات کے دورے پر ملکہ الیزیبتھ دوئم نے وادی کو ’مشرق کا سوئٹزرلینڈ‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سوات سیاحوں میں ’پاکستان کے سوئٹزرلینڈ‘ کے نام سے مقبولیت رکھتا ہے۔
2009 کے آپریشن راہ راست کے بعد سے سوات کے حالات بتدریج معمول پر آ رہے ہیں اور یہاں کی رونقیں ایک مرتبہ پھر بحال ہوچکی ہیں۔
مالم جبہ
مالم جبہ کا شمار سوات کے مشہور ترین مقامات میں ہوتا ہے، یہاں کی خصوصیت اسکی ریزورٹ ہے جو پاکستانی ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کے زیر انتظام ہے۔ اگر آپ انتہائی خوبصورت مقام پر اسکی سیر کرنے کا لطف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان میں اس سے بہتر مقام نہیں۔
اس ریزورٹ کے اسکینگ سلوپ کا شمار دنیا میں اپنی نوعیت کے بلند ترین مقامات میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں چیئر لفٹ، واکنگ، جاگنگ ٹریک اور دیگر سہولیات بھی میسر ہیں۔
جون 2008 میں طالبان نے اس ریزورٹ کو تباہ کردیا تھا تاہم 2011 میں اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا اور اب یہاں کی سرگرمیاں پوری طرح بحال ہوچکی ہیں۔
میاندم
میاندم مینگورہ اور کالام کے درمیان ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جسے عام طور پر لمبے سفر کے درمیان آرام گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اس علاقے کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کا بہترین طریقہ پیدل چہل قدمی ہے۔
میاندم میں متعدد جھرنیں اور آبشاریں موجود ہیں جو اس علاقے کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہیں۔
مدین
مینگورہ سے 60 کلو میٹر کی مسافت پر واقع مدین اپنے بازاروں کے حوالے سے سیاحوں میں مقبولیت رکھتا ہے۔ یہاں کے بازاروں سے آپ شالیں، ویسکوٹ، سوئٹر، پشاوری ٹوپی اور دیگر گرم کپڑے خرید سکتے ہیں۔
مدین اپنے سستے ہوٹلوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ اگر آپ مینگورہ کے مہنگے ہوٹلوں سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ مدین میں رات گزار سکتے ہیں اور اگر آپ نے مینگورہ میں گائیڈ نہیں کیا تو آپ اس مقام سے بھی گائیڈ کو اپنے آگے کے سفر کے لیے بک کرواسکتے ہیں۔
بحرین
مدین سے تقریباً ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع بحرین کا علاقہ کالام سے قبل آخری اہم مقام ہے۔ سیاح عام طور پر یہاں کے بازاروں کا رخ یہاں کے لکڑی سے بنے سامان کی وجہ سے کرتے ہیں۔
بحرین سے آپ روایتی سواتی لکڑی کا سامان بشمول میز، گھڑیاں، چمچے، کرسیاں اور اپنے ڈرائنگ روم کو مزید سجانے کے لیے ڈیکوریشن کی اشیاء بھی خرید سکتے ہیں۔ وادی سوات کے بیشتر علاقوں ہی کی طرح بحرین بھی دریائے سوات کے کنارے واقع ہے۔
دھماکا جھیل
اس جھیل کا انوکھا نام یہاں کے کالے پتھروں کی وجہ سے رکھا گیا ہے جو مقامی کہانیوں کے مطابق ہزاروں سالوں پہلے ایک ’دھماکے‘ سے کالے پڑگئے تھے اور آج بھی کالے ہیں۔
کالام پہنچنے سے قبل یہ جھیل لمبے سفر کے بعد سیاحوں کو آرام کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور یہاں کچھ وقت گزار کر آپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ یہاں پر کچھ ہوٹلز بھی قائم ہیں جہاں ٹراؤٹ فش، کڑاہی اور دیگر کھانے ملتے ہیں۔
کالام
مینگورہ سے شروع ہونے والا خوبصورت سفر کالام پر آکر ٹھہرتا ہے۔ مینگورہ سے تقریباً 100 کلو میٹر دور کالام دیگر سیاحتی مقامات مثلاً جھیلوں، سرسبز پہاڑوں، جھرنوں اور ہرے بھرے میدانوں تک جانے کے لیے بیس کا کام کرتا ہے۔ وادی کالام ہی میں دریائے اوشو اور اتروڑ دریائے سوات میں جا ملتے ہیں۔
کالام کی ایک اور وجہ شہرت مٹلتان ہے جہاں پاکستان کے بلند ترین پہاڑوں میں سے ایک فلکسیر بھی واقع ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایک مشہور سیاحتی مقام بھی ہے جہاں پر سال کے ہر حصے میں گلیشیئرز موجود ہوتے ہیں۔
اوشو
کالام سے تین کلو میٹر دور اوشو کا مقام اپنے جھرنوں کے لیے خاص شہرت رکھتا ہے۔ جب ملک بھر میں شدید گرمی پڑ رہی ہوتی ہے تب بھی یہ علاقہ شدید سردی کا منظر پیش کررہا ہوتا ہے۔ اوشو کے متعدد علاقے پورا سال برف سے ڈھکے رہتے ہیں اور یہاں کا مشہور ترین سیاحتی مقام مہوڈنڈ جھیل ہے۔ مناسب روڈ نہ ہونے کے باعث صرف جیپ ہی میں سفر کیا جاسکتا ہے۔
مہوڈنڈ
وادی مہوڈنڈ کالام کے شمال میں واقع ہے جو کہ نہ صرف سیاحوں میں مشہور ہے بلکہ یہاں کی ٹراؤٹ مچھلی کا بھی جواب نہیں۔ دشوار سڑکوں کے باعث اس مقام تک پہنچنے کے لیے فور بائی فور گاڑی کی ضرورت ہوتی ہے تاہم اس وادی کا راستہ ہی اس کی حقیقی خوبصورتی ہے جو آپ کو اس علاقے تک بار بار کھینچ لائے گی۔ یہی وہ وادی ہے جہاں سے دریائے سوات جنم لیتا ہے۔
پری جھیل
پری جھیل کا نام یہاں کی کہانیوں کی وجہ سے پڑگیا جن کے مطابق یہاں رات میں (خصوصاً سردیوں کی رات) پریاں بسیرا کرتی ہیں اور نہاتی ہیں اور ان ہی کی وجہ سے یہ جھیل اتنی شفاف ہے۔
اس جھیل تک پہنچنے کا ابتدائی سفر جیپ پر شروع ہوتا ہے تاہم زیادہ تر راستہ پیدل چل کر ہی طے کرنا پڑتا ہے جو کہ مشکل بھی ہے اور خطرناک بھی۔ تاہم یہاں کی خوبصورتی کے آگے یہ دونوں دشواریاں کچھ سہنے کے قابل ہیں۔
اس جھیل تک پہنچنے کے لیے جو راستہ استعمال کیا جاتا ہے وہی راستہ کنڈول جھیل کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ دونوں جھیلوں کے نظاروں سے ایک ہی روز لطف اندوز ہوا جائے۔ طویل سفر اور کٹھن راستے کے باعث صبح سویرے ہی سفر کا آغاز کرنا بہتر ہے۔
کنڈول جھیل
سوات میں متعدد جھیلیں موجود ہیں تاہم ان تمام جھیلوں میں سب سے خوبصورت کنڈول جھیل ہے۔
یہ جھیل اتروڑ کے شمال میں واقع ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے آپ کو شدید جسمانی مشقت سے گزرنا پڑتا ہے تاہم راستے کے نظارے یقیناً آپ کی حوصلہ افزائی کریں گے۔
جھیل تک پہنچنے کے لیے پہلے کالام سے چار بائی چار گاڑی بک کروانی پڑتی ہے جو آپ کو لدو تک تقریباً دو گھنٹوں میں پہنچادے گی تاہم آگے کا سفر آپ کو پیدل ہی طے کرنا ہوگا۔
چاروں طرف برفانی پہاڑوں کے درمیان واقع اس جھیل کی خوبصورتی ساری زندگی کے لیے آپ کے دماغ میں قید ہوجاتے ہیں۔
تصاویر بشکریہ اظہر خان، ثاقب سلیم، وکی میڈیا کامنس اور پاک میگزین۔
تبصرے (14) بند ہیں